سوشل میڈیا اڈیکشن اور ہماری زندگیاں

پیر 17 جون 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

دو تین سال کی عمر رات کے کسی پہر بھوک لگتی، تو اچانک فیڈر منہ میں آجاتا، بغیر جاگے، بغیر روئے کوئی غیبی علم تھا جو ماں کے دل میں اتر جایا کرتا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا انٹرنیٹ ، آئی ٹی، سیل فون، اینڈرائیڈ،وٹس ایپ سے کوسوں دور تھی۔ ایک لمبی تار والا فون ہوتا تھا اور وہ بھی بارش آندھی میں ڈیڈ پڑا رہتا تھا اور ساتھ ونڈو اے اسی والا ایک کمرہ،جس میں بہن ،والدہ،والد اور میں سویا کرتے تھے۔

رات کے ٹائم کوئی ذرا سا بھی بے چین ہوتا تو کمرے میں موجود تمام افراد کو فکر لاحق ہوجاتی اور یوں ہم سب انجانی تاروں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے تھے۔ ایک ٹی وی ہوا کرتا تھا، وہ بھی پڑوسیوں کی چھت پر اینٹینا تھا، گھما گھما کر مچھر کم کرتے تو کوئی کام کا ڈرامہ ساتھ مل کر دیکھا کرتے تھے اور رات بارہ بجے قومی ترانے کے بعد وہ بھی بند۔

(جاری ہے)

لوڈ شیڈنگ نام کی چیز تھی نہیں ، والد کے پاس ایک سکوٹر تھا،اسی پر بچپن گزرا،ابو نے اسی پر میرا قد ناپتے ناپتے میرے سکول بدل دیے اور یوں ہم آپس میں کسی طور بندھے رہے۔

پھر وقت بدل گیا، مئی 1998ء میں پہلی بار گھر میں کمپیوٹر آیا، پہلی بار ہم نے انٹرنیٹ کا نام سنا،اس وقت فون کے ساتھ کارڈ پر بہت ہی سست انٹرنیٹ چلا کرتا تھا اور صرف گوگل کھولنے میں ہی پانچ چھ منٹ لگ جایا کرتے تھے۔ بس اس کے بعد زندگی تیز ہوتی گئی، پھر گھر میں موبائیل فون آیا، اس کے بعد ہر گزرتے سال کے ساتھ ٹیکنالوجی ترقی کرتی گئی ، اور جوں جوں یہ سب بڑھتا گیا ہم سب ایک دوسرے کے ویسے قریب نہ رہے جیسے میرے بچپن میں تھے۔

نیا گھر بنا، ہر کسی کا الگ کمرہ، الگ انورٹر اے سی، الگ لیپ ٹاپ، الگ جدید اینڈرائیڈ فون،یہاں تک کہ الگ گاڑی بھی۔ ایک رات میں نے گھنٹوں فیس بک پر اپنے امریکہ ،برطانیہ میں دوستوں کے ساتھ گپیں مارتے اور ان کی تصویریں دیکھتے گزار دیے، سونے لیٹا،تو سر بھاری ہورہا تھا اور اچانک بچپن کی یادوں نے آلیا۔ کئی سوال مجھے ماضی کے سمندر میں لے گئے، یہ سمندر کے بیچ رات کی تاریکی میں کسی پتھر پر سوچوں میں گم بیٹھے ایک لڑکے کا روپ تھا۔

پورا چاند سمندر پر اپنی روشنی بکھیر رہا تھا اور اسی روشن لہروں میں ماں کی جوانی کا روشن چہرا، وہ ماں کا میرے پیچھے بھاگنا، وہ گھنٹوں والد اور خالہ زاد بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر لڈو کھیلنا اور کبھی کبھی پرانے وی سی پی کوئی مستانہ جی کا ڈرامہ دیکھ لینا، اینٹینا والے ٹی وی پر دھواں ڈرامے کی قسط آنی تو سب کا اکٹھے بیٹھ کر دیکھنا۔ مجھے نہیں یاد پڑتا، کبھی ڈیپریشن نے گھیرا ہوا، کبھی سردرد ہوا اور سکون؟ سمندر کی رات کی اس تاریکی سے زیادہ گہرا ، ہنستا تھا تو اندر ہنستا تھا اور روتا تھا تو اندر تک روتا تھا۔

اگلی رات میں سوشل میڈیا سے کچھ وقت دور رہنے کے لیے Adam Alter کی کتاب Irresistible پڑھنے لگا، یہ کتاب انٹرنیٹ اور آنے والے سوشل میڈیا انقلاب اور ذہنی سکون پر مبنی تھی۔ تاریخ 19 ویں صدی کی چین، برطانیہ افیون جنگ سے شروع ہوئی۔ یورپ میں جب صنعتی انقلاب آیا تو تجارت کے لیے برطانیہ نے سونے کا استعمال شروع کیا ،جبکہ چینی چاندی سے تجارت کیا کرتے تھے۔

چین میں سلک کا کپڑا اور دیگر مصنوعات کثیر تعداد میں موجود تھیں اور یورپ کو چین سے یہ سب کسی صورت خریدنا ہوتا تھا۔ اب ان کے پاس چاندی نہیں تھی تو انہوں نے تجارت کے لیے وہ ہندوستان جہاں برطانوی راج قائم تھا،وہاں سے افیون کی تجارت شروع کی۔ شروع شروع میں تو سب ٹھیک رہا کیونکہ افیون چین میں دوائیاں بنانے میں استعمال کی جاتی تھی، مگر بعد میں چین کے کنگ خاندان کے بادشاہ کویہ احساس ہوا کہ یہ تجارت نشہ کی تجارت ہے اور اس کے لوگ اس کو غلط استعمال کرکے نشہ کی لت میں مبتلا ہورہے ہیں۔

اس نے افیون کی بہت بڑی کھیپ برطانوی بھارت سے رکوا دی اور یوں برطانیہ کوتجارت کی مد میں کئی ملین ڈالر کا نقصان ہوگیا، اور اس نقصان کا مطالبہ برطانوی ملکہ چین سے کرنے لگی۔1820ء سے پہلے چین کی اکانومی دنیا کی سب سے بڑی اکانومی تھی، مگر اس مسئلے کو لے کر برطانیہ اور چین میں پہلی افیون جنگ ہوئی۔ یہ جنگ سمندر میں ہوئی اور چینی نیوی کی فورس میں بہت پیچھے تھے۔

ستر اسی لوگوں کے مقابلے میں 180000 چینی مارے گئے اور یوں 1842ء میں ایک معاہدہ ہوا،جسے نینجنگ ٹریٹی معاہدہ کہتے ہیں۔اس میں چین میں افیون کی تجارت کی کھلی چھٹی دے دی گئی، ہانگ کانگ پر اختیار برطانیہ کو دے دیا گیا اور تجارت کے بدلے چاندی بھی برطانیہ کو ملنے لگی،یہی وہ جنگ تھی جس سے برطانوی راج کو 1857ء کی جنگ آزادی میں بھی مدد ملی۔ اس کے نتیجے میں پوری چینی قوم افیون کی لت میں مبتلا ہوگئی اور ماؤ انقلاب تک یہ بھنگی اور چرسی قوم کہلائی جانے لگی۔

Irresistible میں Attention economy کی اصطلاح استعمال کی گئی، مطلب 2004ء میں مارک زکربرگ کی فیس بک کے بعد، ویسٹ نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں کرنے کے لیے سوشل میڈیا نامی چیز کو دنیا میں پھیلانے کے نیٹ ورک پر کام شروع کیا۔ اس میں سی آئی اے نے عرب سپرنگ کے نام پر کئی دہائیوں پر محیط حکمرانی کے ادوار بدل دیے گئے، تختے الٹ دیے گئے، جہاں الٹائے نہ جاسکے انہیں شام بن دیا گیا۔

انٹرنیٹ کے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اپنے ہی حکمرانوں کے خلاف اکسایا گیا، لوگوں کی ذاتی زندگی میں داخل ہوا گیا اور یوں ہر گھر کا سکون برباد ہوگیا۔ یوٹیوب، وٹس ایپ ،فیس بک، ٹویٹر، ہر ملک کے ایک ایک باشندے کا ذاتی ڈیٹا،اس ک بیڈ روم تک کی لوکیشن، امریکہ میں موجود ہیڈ کوارٹرز میں پہچانے لگا اور یوں گوروں کے لیے دنیا پر راج کرنا اور پیسہ کمانا آسان ہوگیا۔

دماغ میں موجود Reward Centre کا غلط استعمال کرکے انہوں نے افیون کے نشے میں مبتلا چینی قوم کو طرح پوری دنیا کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے نشے میں مبتلا کردیا۔ اس نے ملکوں کے ملک تباہ کردیے، شام میں موجودہ تباہی ایک فیس بک پیج کا نتیجہ ہے،اس کے لوگوں کے گھروں کے سکون چھین لیے اور انفرادی سطح پر بھی دوستی دشمنی کا معیار سوشل میڈیا ہی بن گیا۔

یوٹیوبرز نامی ایک نئی اصطلاح لائی گئی ،اس میں بے پناہ پیسہ ڈالا گیا اور ہر بندہ یوٹیوب پر اپنا چینل بنا کر اس پر ہر قسم کا مواد ڈال کرپیسہ بنانے کے چکر میں لگ گیا۔اسی میں سے ایسے ستارے بھی پیدا ہوگئے جن کے پیچھے بڑے بڑے شاپنگ مالز میں لوگ پہنچنے لگے، ان کے ساتھ وہاں جو سلوک ہوا،ان کو Main Stream کور کرنے لگا اور اب نوبت یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے سب اپنے کنٹرول میں کرلیا ہے ، حتی کہ انسانوں کی زندگی کا قیمتی لمحات، ان کی خوشیاں،ان کے غم ،ان کی دوست ، دشمن سب ایک چار پانچ انچ کی سکرین کے تابع ہیں اور سکون کوسوں دور۔

Adam Alter لکھتا ہے کہ افیون کا نشہ ظاہری تھا،اس کو دنیا کی بہترین اکانومی رکھنے والی قوم میں تجارت کے بدلے اتارا گیا، ماؤ انقلاب کو دس سال لگے، افیون غائب کردی گئی ،افیونی مار دیے گئے اور یوں وہ قوم دوبارہ اپنے راستے پر آگئی۔ مگر اس نشے کا کیا جو پوری دنیا کی روح میں اتارا گیا ہے ، پلاننگ کے ساتھ اتارا گیا ، ہر بیڈ روم میں اتارا گیا ہے۔

کوئی انقلاب اس کو ختم کرپائے گا یا نہیں، مگر اس نے ملک، انسانوں کی ذاتی زندگیاں، گھر ،وقت سب اپنے قابو میں کرلیا ہے اور کی تباہ کا تخمینہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں لگا سکتی، جس طاقت نے یہ بات بھانپی وہ چین ہی تھا اور یہی وجہ ہے کہ چین میں گوگل، وٹس ایپ ،فیس بک، انسٹا گرام، ٹویٹر سب مکمل طور پر بین ہے۔ یہاں یہ بات لکھنا حیران کن ہوگا کہ برطانیہ کے رائل خاندان میں شادی کرنے والی ہالی وڈ اداکارہ Megan Markle کا ٹویٹر اکاؤنٹ شادی سے بہت پہلے ڈیلیٹ کروا دیا گیا اور ان کو خط میں ایک بات لکھی گئی تھی کہ رائل خاندان کے لوگوں کی زندگی سوشل نہیں ہوتی۔

سمندر کے پانی میں پڑا عکس، کہ جہاں ایک تار والے ڈیڈ فون، ایک اینٹینا والا ٹی وی اور ایک اے سی والا کمرہ ، ہم سب کو ساتھ لیے تھا، اس زندگی سے کئی درجے بہتر تھا ،جہاں مجھے امریکہ بیٹھے دوستوں کے خوشی غم تو معلوم تھے، مگر میں ساتھ والے کمرے میں اپنی ماں کا حال نہیں جانتا تھا۔ میں اس رات کافی دیر ماں کے کمرے میں ان کے بچپن کی طرح پیر دباتا اس سکون کو تلاش کرتا رہا جو بچپن میں میرا طرزِ زندگی تھا۔

وہ جب ہم سب رائل ہوا کرتے تھے، جب ہم سب کی زندگی رائل ہوا کرتی تھی۔ حسد اور لوگوں کی نفرتوں سے کوسوں دور، ہماری ایک کمرے کی زندگی، محلات کی ان سوشل میڈیا زدہ دیواروں سے کہیں زیادہ پرسکون تھی۔ رات کی تاریکی میں پورے چاند کی روشنی میں سمندر پر پڑے عکس میں ،میں پتھر پر بیٹھا جو دیکھ رہا تھا، وہ مجھے اندر سے پکڑے تھا، ماں کے پیر دباتا تو اردگرد شدید شور بند ہوتا سنائی دیتا ، میں آج پھر تین سال کا بچہ تھا، اور مجھے آج پھر ماں کے احساس کے اتنے ہی قریب جانا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :