خلافت ،ترکی اور مسلم دنیا

ہفتہ 16 مئی 2020

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

تاریخ کے اوراق الٹائیں تو آپ کو مسلمانوں کے عروج اور پھر زوال کی کئی داستانیں ملیں گی۔ 1258ء میں ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو عباسی خلافت کا خاتمہ ہوگیا۔ یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ اس نے مسلمانوں کے عروج کے ساتھ،اس تمام علم و فراست کی داستانوں کو بھی دریا برد کردیا ، جسے اگر تباہ نہ کیا جاتا تو آج کی دنیا یکثر مختلف ہوتی۔

بغداد کی عظیم لائبریری دریائے دجلہ میں بہا دی گئی تو دریا کا رنگ کتابوں کی سیاہی سے ہی سیاہ پڑگیا۔مورخ لکھتے ہیں کہ یہ علم کا خزانہ اس قدر زیادہ تھا کہ دریا میں پھینکی گئی کتابوں سے دریا میں ایسا پل بن گیا کہ اگر کسی گھڑ سوار کو دریا میں اتارا جاتا تو وہ خشک ہی دریا عبور کرجاتا۔ بغداد کی راکھ مسلمانوں کے زوال کی شروعات تھی، مگر جہاں یہ بدترین زوال رقم ہورہا تھا،وہیں اسلام کی بقا کی بھی تاریخ لکھی جارہی تھی۔

(جاری ہے)

بغداد کی راکھ سے ایک اور خلافت جنم لے رہی تھی،تاتاریوں نے پوری دنیا خاص کر مسلمانوں کا جینا حرام کردیا تھا۔ ا سی دورمیں ارطغرل غازی کا نام تاریخ کے صفحات پر نمودار ہوتا ہے اور یوں خلافت ِ عثمانیہ جنم لیتی ہے کہ جس سے مسلمانوں کی بقا کے ساتھ عروج کی نئی داستان رقم ہوتی ہے۔یہ شروعات چنگیز خان کے کردستان پر حملے سے ہوتی ہے۔اس حملے کے بعد،یہاں کے کچھ چرواہے اپنے ایک سردار کے زیر نگرانی ترکی کے ایک علاقے اناٹولیا میں پہنچ جاتے ہیں۔

اس سردار کے نام تھا ارطغرل غازی۔یہ سو خاندان تھے اور چار سو گھڑ سواروں کا لشکر تھا۔اناٹولیا کے علاقے پر اس وقت سلجوقی خاندان کی حکومت تھی۔یہ حکومت اس وقت کی سپر پاور رومی فوج اور تاتاریوں کے حملوں سے سخت پریشان تھی۔ سلطان ارسلان نے سلجوقی سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔ارطغرل جب یہاں پہنچے تو یہ جنگ جاری تھی۔اس وقت ارطغرل نے کمزور کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا،اور سلجوقی فوج کے حکمران سلطان علاؤ دین کے ساتھ مل کر رومیوں کو یہاں سے بھاگنے پر مجبور کردیا۔

اس کے بعد سلطان علاؤ دین نے خوش ہو کر اناٹولیا کی مغربی سرحدوں کو ارطغرل اور اس کے خاندان کی حکومت میں دے دیا۔یوں سلطان کو ترکی میں اپنے زیر اطاعت ایک بہترین ،عاقل اور انتہائی وفادار اتحادی مل گیا۔ارطغرل ہر بغاوت میں سلطان کے ساتھ کھڑے رہے۔ جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو اسی دور میں میں ارطغرل کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا،جس کا نام عثمان رکھا گیا،یہ ذہانت ،اخلاق ،وفاداری میں ارطغرل ہی تھا۔

مورخ لکھتے ہیں کہ عثمان بڑا ہوتا ہے تو اس کا میلان تصوف کی طرف ہوجاتا ہے،اسے ایک درویش کی قر بت نصیب ہوتی ہے اور اس کی لو اللہ سے لگنے لگتی ہے۔ ایک دن ارطغرل کا یہی بیٹا عثمان ایک خواب دیکھتا ہے۔ خواب میں عثمان کو سینے سے چاند ابھرتا دکھائی دیتا ہے، اسے اپنے قدموں میں ایک درخت دکھائی دیتا ہے، یہ درخت پھیلتا جاتا ہے اور پھر ایک بہت بڑا حصہ اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، پھر اس کو خواب میں چار بڑے دریا دکھائی دیتے ہیں اور یوں ہی چار بڑے پہاڑ۔

عثمان اٹھ کر سیدھا درویش کے پاس جاتا ہے اور درویش عثمان غازی کو یہ نوید دیتے ہیں کہ تجھے اللہ نے اس دنیا پر اسلام کی سربلندی کے لیے چن لیا ہے۔ یہ خواب حقیقت بن جاتا ہے اور یہی عثمان،خلافت عثمانیہ کی وہ بنیاد قائم کرتا ہے کہ جس کا موجد اس کا والد ارطغرل تھا۔1300ء میں تاتاری سلوجوقی سلطنت پر حملہ کردیتے ہیں ، جس میں سلطان علاؤ الدین مارے جاتے ہیں،اور یوں عثمان سلجوقی سلطنت کے بھی سلطان بن جاتے ہیں۔

ترک سرداروں ، رومیوں کے ساتھ مل کر عثمان کی سلجوقی سلطنت پر حملہ کرنے کی تاریخ کی بدترین غلطی کردیتے۔اس کے بعد عثمان ایک ایک کرکے ان کے تمام علاقے فتح کرلیتا۔یوں فتوحات کا سلسلہ چلتا رہتا اور خلافت ِ عثمانیہ تین بر ِ اعظم تک پھیل جاتی ہے۔خلافتِ عثمانیہ کی خلافت کا مرکز ترکی تھا اور اس میں موجودہ آرمینیا،شام،عراق،اردن،فلسطین،بلغاریہ،یونان،مکہ،مصر جیسے علاقے شامل تھے۔

عثمان کے خواب کے بعد، 627ء سال اسلام کی حکمرانی رہی۔ وہ اسلام کے جس کا تمام عروج ہلاکو خان نے دریائے دجلہ میں بہا دیا تھا،اسی دور میں ہی دوبارہ جنم لیتا ہے اور یوں خلافت ِ عثمانیہ مسلمانوں کے دنیا پر بقا کی سب سے بڑی داستان بن جاتی ہے۔ عثمان غازی نے جو چار دریا خواب میں دیکھے تھے،وہ دریائے دجلہ، دریائے فرات،دریائے دین وب اور دریائے نیل تھے۔

اسی طرح جو پہاڑ دکھائی دیے تھے،وہ کوہ ِ طور، کوہ ِ بلقان، کوہِ طاب اور کوہِ اطلس تھے۔1922ء میں خلافت ِ عثمانیہ ختم ہوگئی۔ پہلی جنگ ِ عظیم ترکی اپنے اتحادیوں سمیت ہار گیا۔ ترکی کے سلطان کی ذاتی املاک ضبط کرلی گئیں۔ تین برا عظم پر پھیلی خلافت ِ عثمانیہ ٹوٹی تو چالیس ممالک وجود میں آئے ،جن میں اکثریت آج کے ان مسلم ممالک کی ہے جو اس وقت طاغوتی طاقتوں کی سازشوں کا شکار ہیں۔

جب خلافت ِ عثمانیہ ٹوٹی تو اس کے کچھ سال بعد ہی اسرائیل وجود میںآ یا اور تب سے اب تک جو مسلمانوں پر تباہی آئی ہے ،اس کی تاریخ گواہ ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے ساتھ ہی ترکی ،اسلامی ریاست سے ایک سیکولر ریاست میں تبدیل ہوگیا۔ مصطفی کمال اتاتر ک نے برطانیہ،فرانس کے ساتھ جو معاہدہ کیا،اس نے ترکی کو پتھر کے زمانے میں دھکیل دیا۔اس معاہدے کو معاہدہ لوزان کہتے ہیں۔

اس میں ترکی پر بہت سی پابندیاں لگا دی گئیں،جن میں سب سے بڑی پابندی تیل کے ذخائر پر سے حق کا چھن جانا تھا،ترکی تیل ہونے کے باوجود تیل کے کنویں نہیں کھود سکتا تھا۔اسی طرح دنیا کی اہم ترین بندرگاہ باسفورس پر سے ترکی کا اختیار ختم کردیا گیا،یوں ترکی اربوں ڈالر کی سالانہ تجارت سے محروم ہوگیا اور ٹیکس کا وہ پیسہ جس پر ترک عوام کا حق تھا،وہ بین الاقوامی قوتوں کے پا س چلا گیا۔

ترکی کا یہ عہد ِ پر آشوب 2023ء میں ختم ہوجائے گا۔ محققین اس معاہدہ کے خاتمے کو ان ملوکیت کی پیروکار قوموں کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں کہ جن کی نظر میں اسلام کا عروج خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ختم ہوگیا۔ بغداد میں ہلاکو خان کی تباہی کے بعد، ارطغل کے ہاں عثمان غازی کی پیدائش اور پھر عثمان کو خواب میں ملنے والی بشارت ،خلافت ِ عثمانیہ کے وجود کا موجب بنی۔

معاہد ہ لوزان ختم ہوتے ہی،یہ عین ممکن ہے کہ پھر سے مسلمان خلافت کی طرف بڑھنے لگیں اور دوبارہ اتحاد پیدا ہونے لگے۔یہ سب ایسی صورت میں ناممکن تھا کہ اگر سو سال سیکولر ترکی پر آج طیب اردگان کی حکومت نہ ہوتی،اسلام کا میلان نہ ہوتا۔ مگر طیب اردگان، وزیر اعظم عمران خان اور ملائیشیا کے مہاتیر محمد کی قیادت میں مسلم قوتوں کا اتحاد اور ترکی کا دوبارہ سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا، یقینا دیگر طاقتوں کے لیے پریشان کن ہے۔

آپ اگر ان پیشنگوئیوں پر نظر دوڑائیں،جو اسلام کی تاریخ میں ملتی ہیں تو آپ کو چار ادوار کا ذکر ملے گا۔یہ ادوار نبوت سے شروع ہوکر ملوکیت سے ہوتے،پھر خلافت تک آتے ہیں۔ ان میں ویسٹرن،یورپین کولونیل ادوار کا بھی ذکر ملتا ہے ،اور آخر میں قیامت آنے سے پہلے ،خلافت کا ذکر ملتا ہے۔ اگر آپ ان کا بغور تجزیہ کریں،تو ہم تیسرے ادوار سے گزر رہے ہیں اور جلد چوتھے دور کا آغاز ہونے کو ہے۔

اس میں کتنے سال یا صدیاں لگیں گی،یہ سب رب کی مرضی سے ہوگا، مگر معاہد ہ لوزان کا خارتمہ اس میں کوئی اہم موڑ ضرور ہوسکتا ہے۔1291 ء سے 1924ء تک مسلمانوں کا سنہری دورِ حکومت، خلافت ِ عثمانیہ، اسی خلافت نے منگولوں،رومیوں اور صلیبیوں کی نیندیں حرام کردی تھیں۔ آج کی دنیا کہ جب کشمیر، فلسطین، عراق،شام، فلسطین کو خون میں نہاتا دیکھ رہی ہے۔

طاغوتی قوتوں کی بربریت نے مسلمانوں کے لیے دنیا تنگ کردی ہے،وہاں اس امر کی عین ضرورت ہے کہ مسلم امہ پھر سے ایک جھنڈے تلے جمع ہوجائیں۔موجودہ حالات میں یہ سب ناممکن نظر آتا کہ جب فرقہ واریت ،معاشی مصلحتوں سمیت بہت سے وجوہات یہ اکٹھ کبھی ہونے نہیں دیں گے۔ مگر معاہدہ لوزان کا خاتمہ،شاید امید کی وہ کرن ضرور ہے، جس کو ہم اس پہلی چنگاری کے طور پر دیکھ سکیں جو شعلہ بن جائے۔

ہلاکو خان جب بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا رہا تھا،کسی نے چرواہوں کے ایک ہجرت کیے ریوڑ سے ارطغرل غازی اور پھر عثمان غازی اور عثمان کے خواب کے جنم لینے کا سوچا تک نہیں ہوگا، مگر رب نے جو چاہا وہی کیا۔آج گلوبل ٹیکنالوجی کے دور میں ، پھر سے خلافت ِ عثمانیہ جیسے عروج کا لوٹ آنا، تخیل کی دنیا کا ایک خواب لگتا ہے، مگر اشارے اس بات کی نوید ہیں کہ ایسا کچھ ہونے کو ہے۔
آخر میں اتنا ہی
اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :