کب تک بے گناہ قتل ہوتے رہیں گے؟

ہفتہ 23 جنوری 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی صورة المائدہ آیت نمبر32میں ارشادفرمایا"اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کو یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جو کوئی کسی کو قتل کرے، جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کیلئے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے جیسے اِس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی کی جان بچا لے تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔

اور واقعہ یہ ہے کہ ہمارے پیغمبر ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے، مگر اس کے بعد بھی ان میں سے بہت سے لوگ زمین میں زیادتیاں ہی کرتے رہے ہیں"
 اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مزیدارشادفرمایاکہ"جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور اللہ نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کرر کھا ہے"۔

(جاری ہے)


رعایا کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے ،لیکن پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہیں لیکن امن و امان کی بحالی کے نام پر بیسیوں ادارے قائم ہیں اورعوام کے ٹیکس سے اکٹھے کئے گئے کروڑوں روپے ان پرخرچ کئے جاتے ہیں پھر بھی ملک پاکستان کی پولیس مثالی نہ بن سکی ، اسی پولیس کے جوانوں کے ہاتھوں کئی بے گناہ لوگوں کو گولی مار پر ہلاک کیا جاتا رہا ہے ،کبھی انہیں ٹی ٹی پی ،داعش یادوسرے کسی دہشت گردگروپ کیساتھ جوڑنے کی بھونڈی کوشش کی جاتی ہے یاپھر انہیں چورڈکیت قراردیاجاتاہے جوکہ بعدمیں وہ سب جھوٹی کہانیاں ثابت ہوتے ہیں اورکئی واقعات جھوٹے ثابت ہوچکے ہیں۔

افسوس کامقام ہے کہ شہریوں کی ہلاکت کے ان واقعات میں ملوث کسی ایک بھی پولیس اہلکار کو کبھی کوئی سزا نہیں دی گئی،
یہ 13جنوری 2018ء کی بات ہے جب وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ماڈلنگ کے شوقین نوجوان نقیب اللہ محسود کودوسرے 3بیگناہوں کیساتھ کراچی پولیس نے ایس ایس پی راؤ انوارکی سرپرستی میں جعلی پولیس مقابلے میں طالبان عسکریت پسندوں سے منسوب کرنے کے بعد ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا،سوشل میڈیاپرزبردست مہم کے بعدپولیس کے خلاف مقدمہ درج ہوا،اس مقدمے کے کورٹ ٹرائل کے دوران نقیب اللہ قتل کیس کے تفتیشی افسر نے سندھ ہائیکورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان انتہائی سفاک، چالاک، بااثر اور طاقتور افسران رہے ہیں جنہوں نے واقعے کے اہم چشم دید گواہ کو لاپتا کردیا ہے اوروہ تفتیشی افسرعدالت سے درخواست کرتاہے کہ ان بااثراورسفاک ملزمان کوضمانت نہ دی جائے اگرانہیں ضمانت دی گئی تودوسرے گواہان منحرف ہوجائیں گے یاانہیں لاپتہ کردیاجائے گا،اس سب کے باوجودراؤانوارکوضمانت مل گئی۔


یہ پاکستان میں کوئی پہلا جعلی پولیس مقابلہ نہیں ہے، ایسے جعلی پولیس مقابلے پاکستان کے تمام شہروں میں کم و بیش روزانہ ہوتے ہیں۔ کچھ ان جعلی پولیس مقابلوں پر میڈیا میں زیادہ شور ہوتا ہے اور حکام ان کا نوٹس لینے لگتے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ میڈیا اور حکمرانوں کے نوٹس میں آنے والے ہر واقعہ پر مقتولین اورمتاثرین کو انصاف ملے۔ کچھ دنوں کے شور شرابے کے بعد معاملات دب جاتے ہیں۔

جیسا کہ کراچی میں پولیس کے ہاتھوں قتل ہونے والے نقیب اللہ اوراس ساتھیوں کے ساتھ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پولیس اس وقت نہ صرف خوف کی علامت بن چکی ہے بلکہ اس کی وجہ سے عوام میں عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔ بچوں کے گھر سے باہر جانے پر ماں باپ کو سب سے زیادہ خوف دہشت گردوں سے نہیں بلکہ اب پولیس سے ہوتا ہے۔جعلی پولیس مقابلوں کے ساتھ ساتھ جعلی مقدمات میں زندگی تباہ ہونے کا بھی خوف الگ سے ہوتا ہے،پہلے سے مہنگائی کی ستائی پاکستانی عوام پولیس کیوجہ سے ان دیکھے خوف میں مبتلاہے۔


ایک سال قبل جب سانحہ ساہیوال میں 4بے گناہوں کو سرعام قتل کیا گیا تھا تو اس پر تمام تر احتجاج کے باوجودانصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے تھے ۔بلکہ گرفتار پولیس اہلکاران کو بعد ازاں عدم ثبوت پر بری کروا دیا گیا تھا ۔اگر اس وقت سانحہ ساہیوال کے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کو سزا دی گئی ہوتی تو شاہد آج اسلام آباد میں سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے اسامہ ندیم ستی نامی21سالہ نوجوان کو گاڑی نہ روکنے پر گولیاں مار کر شہید نہ کیاہوتا ، پولیس اہلکاروں نے نوجوان کو سامنے سے 17گولیاں ماری تھیں۔

اس کارروائی میں 5سے زائد پولیس اہلکاروں نے نہتے نوجوان کی کار کا پیچھا کیا ۔سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ پولیس کے 5جوان ایک نہتے نوجوان کو قابو نہیں کر سکتے تھے کہ انہوں نے قتل کرنے کا انتہائی قدم اٹھا یا ۔اس ناحق قتل پر عوام سراپا احتجا ج رہے ہیں ،ادھر مقتول کے والد نے الزام لگایا ہے کہ میرے بیٹے کا چند روز قبل پولیس اہلکاروں سے جھگڑ اہواتھا جس پر ان لوگوں نے میرے بیٹے کو دھمکی دی تھی،حقائق سامنے آچکے ہیں اور اطلاعات کے مطابق پولیس نے نوجوان کے بے گناہ ہونے کا بھی اعتراف کر لیا ہے ۔


ایک اوراندوہناک واقعہ رواں ہفتے فیصل آباد میں رونماہواجس میں سمندری روڈ پر بدھ کی رات پولیس کی فائرنگ سے سمندری کا رہائشی سردار وقاص گجر نامی شخص ہلاک ہو گیا۔ پولیس کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پنجاب ہائی وے پولیس (پی ایچ پی)کے انچارج اے ایس آئی شاہد منظور اور ان کی ٹیم نے گاڑی میں سوار چار لوگوں کو روکنے کی کوشش کی،تاہم ان کی جانب سے گاڑی نہ روکنے پر پولیس کی جانب سے گاڑی پر فائرنگ کی گئی جس کے بعد گاڑی کے ڈرائیور وقاص گجر کوسینے پر گولی لگی اور وہ ہلاک ہو گیا جبکہ گاڑی میں سوار دیگر تین مسافر بھی اس واقعے میں زخمی ہوئے۔


اسی طرح ڈیرہ غازیخان میں بھی گذشتہ سال دوالگ واقعات میں پولیس کے شیرجوانوں نے 3نوجوان قتل کردئے ایک واقعہ حدود تھانہ کوٹ مبارک میں پیش آیاجہاں بے گناہ دونوجوانوں کوپولیس نے لادی گینگ سے جعلی مقابلے کے دوران گولیاں مارکرقتل کردیا ،اس ناجائزدوہرے قتل کی آوازپنجاب کی صوبائی اسمبلی میں مقامی ایم پی اے نے بلندکی جس پرتحقیقات کاحکم ہوالیکن ابھی تک کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دی،دوسراواقعہ سی آئی اے پولیس کی حراست میں ناجائزگرفتارنوجوان ملک زریاب کھکھل کوتشددکے ذریعے قتل کردیاگیا،جس کے قتل پر بہت زیادہ احتجاج بھی ہوئے لیکن پولیس نے اپنے پیٹی بھائیوں کوبچاتے ہوئے قتل کی دفعات بھی مقدمے سے خارج کردیں ،یہاں بھی ورثاء کاکہناہے کہ مقتول ملک زریاب کھکھل کی تھانہ سی آئی اے کے کچھ اہلکاروں سے تلخ کلامی ہوئی تھی جس وجہ سے اسے گرفتارکرکے عقوبت خانے میں ٹارچرکیاگیاجس سے وہ جاں بحق ہوگیا،جس کے ورثاء آج بھی انصاف کیلئے دہائیاں دے رہے ہیں اورروزانہ کچہری میں دھکے کھانے پرمجبورہیں۔

اگرسانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کوانصاف دیاجاتااورپولیس کے اس گھناؤنے فعل کے مرتکب اہلکاروں کونشان عبرت بنادیاجاتاتوآج ایسے سنگین واقعات رونمانہ ہوتے۔
ذہن میں بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں لیکن ان میں سے ایک سوال یہ ہے کہ کیا پولیس والوں کے ہاتھ میں ہتھیار دیتے ہوئے انھیں فائرنگ کا اختیار بھی دیا جاتا ہے؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ اختیار انھیں کس صورت میں ملتا ہے ؟ کسی بھی نہتے شخص پر صرف شک کی صورت میں سیدھی فائرنگ کا اختیار پولیس کو کس نے اور کب دیا؟ اور اگر پولیس کے پاس یہ اختیار بھی ہے تو کیا ان کی تربیت ایسی کی جاتی ہے کہ وہ اندازہ لگا سکیں کہ 'مبینہ' مشکوک واقعی مشکوک ہے یا نہیں؟لیکن پاکستان کا یہ المیہ ہے کہ یہاں غریبوں کو تو تختہ دار پر لٹکا دیا جاتاہے لیکن باقی لوگ قتل و غارت کرنے اور ظلم و زیادتی کے باوجو د آزاد گھوم رہے ہوتے ہیں ۔

جوان اولاد کی موت کا غم کتنا بڑا دکھ اور صدمہ ہے یہ صرف ماں باپ ہی سمجھ سکتے ہیں ۔اور جب کسی ماں کا بے گناہ اور نہتا لخت جگر یوں سرعام گولیوں سے چھلنی کردیا جائے تو یقینا اس ماں کے دل سے نکلنے والی آہ اور بدعا سے عرش بھی ہل جاتاہے۔ریاست مدینہ کے دعویدار حاکم کو یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ ایسی دکھی ماؤں کی آہ و بکا کبھی رائیگاں نہیں جایا کرتی ۔


یہ ریاست مدینہ ہے اسکاحکمران حضرت عمررضی اللہ عنہ ہیں جس کی حکمرانی میں بغدادبھی شامل ہے ان کاآفاقی قول تاریخ میں سنہری حروف میں چمک رہاہے جس میں انہوں نے کہاتھاکہ اگردجلہ وفرات کے کنارے ایک کتابھی بھوک سے مرگیاتواس کی ذمہ داری عمرپرعائدہوگی،لیکن پاکستان کی ریاست مدینہ کے دعویدار کے دورحکومت میں پولیس کے ہاتھوں بیگناہ قتل ہورہے ہیں ان بیگناہوں کے قتل کاذمہ دارکون ہوگا؟اور عوام کی جان و مال کے محافظ ادارے اور لوگوں کو اس بات کا احساس کب ہوگا کہ ظلم تو ظلم ہے ، اورآخرکب تک بیگناہ نوجوان جھوٹے الزامات کے تحت قتل ہوتے رہیں گے ؟ حکمرانوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں روزقیامت انہی مظلوموں کے ہاتھ ہوں گے اورحکمرانوں اورظالموں کے گریبان ہوں گے ،آخرانصاف تولازمی ہوناہے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :