آڈیولیکس،کلبھوشن، مودی اورسدھو

ہفتہ 27 نومبر 2021

Dr Ghulam Mustafa Badani

ڈاکٹرغلام مصطفی بڈانی

ان دنوں پاکستانی سیاست تاریخ کے بدترین دور سے گذررہی ہے ، ذمہ دار اور ایماندار سیاسی رہنماؤ ں کے علاوہ لیڈرشپ کا شدید فقدان نظرآرہاہے، الزام تراشیوں کا بازار گرم ہے، ذاتی دشمنیاں پوری کرنے کیلئے سیاسی بونوں نے اب جھوٹی آڈیوزاور ویڈیوز بھی لیک کرا نا شروع کردی ہیں۔اس وقت حکومتی مشیروں ،وزیرباتدبیروں اوراپوزیشن کی زبان ایک جیسی چل رہی ہے۔

گذشتہ چندہفتوں سے مسلم لیگ 'ن' خاص طور پرمریم صفدرنے عدلیہ کومسلسل نشانے پررکھاہواہے،سب سے پہلے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج راناشمیم کا ایک بیان حلفی سامنے آیاجس میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثارکونشانہ بنایاگیاپھراس کے بعد ایک ایسی آڈیوٹیپ لیک کرائی گئی جس کی جعلسازی پہلے ہی روزپکڑی گئی کہ کس طرح سابق چیف جسٹس ثاقب نثارکی مختلف تقاریر میں الفاظ ایڈٹ کرکے ایک آڈیو تیارکراکر لیک کرائی گئی ،ایک ٹی وی رپورٹ کے مطابق یہ آڈیو سابق چیف جسٹس کی مختلف تقاریر کے حصوں کو جوڑ کر تیار کی گئی۔

(جاری ہے)

پتہ چلا ہے کہ ثاقب نثار اس آڈیو کے خلاف عدالت کا رخ کرنے والے ہیں۔ سپریم کورٹ بار کے صدر احسن بھون نے تو پہلے لمحے ہی اس آڈیو کو جعلی قرار دے دیا ،پھراس کے بعد مریم صفدرکی آڈیولیک ہوئی جس میں وہ کچھ ٹی وی چینلز کے اشتہارات روکنے کی ہدایات دی رہی ہیں اور مریم صفدرنے تسلیم کیاہے کہ یہ آوازاسی کی ہے،اسی طرح مریم صفدرکے شوہرکیپٹن ریٹائرڈ صفدراعوان نے میڈیاسے بات کرتے ہوئے کہاکہ اب بات آڈیوسے نکل کر ویڈیوزبلکہ پوری سینماسکوپ فلم تک جاپہنچی ہے اوراب عوام کوبڑی سینماسکوپ فلمیں دیکھنے کوملیں گی۔

رہی سہی کسر عاصمہ جہانگیرکانفرنس پوری کردیتی ہے اس کانفرنس کااختتامی خطاب ایک عدالتی مفرورسابق وزیراعظم اوربیماری کابہانہ بناکرباہرجانے والے محمدنوازشریف کاہوتاہے ،اس کے پیچھے کون سے عوامل کارفرماہیں جس کاابھی جواب آناباقی ہے۔ شاید انہی باتوں کو مدنظر رکھ کر عمران خان نے اپنے ترجمانوں سے کہا ہے کہ عدلیہ سے متعلق ن لیگ کی تاریخ کو اجاگر کریں کیونکہ ن لیگ ایک مافیا ہے، عدالتوں سے مرضی کے فیصلے کرانا ان کی تاریخ ہے۔


پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں کلبھوشن یادیو سے متعلق حکومت نے ایک بل پاس کرایاہے۔ ہماری اپوزیشن اس بل کولیکرزمین وآسمان کے قلابے ملارہی ہے اورعوام کومسلسل گمراہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے مگر حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے اس سلسلے میں وفاقی وزیرقانون فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ کلبھوشن یادیوکا کیس ہمیں نواز حکومت سے ورثہ میں ملا، کلبھوشن یادیو کیلئے بنایا گیا قانون کسی ایک فرد کے لئے نہیں۔

اس معاملے پربھارت نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا اور کلبھوشن یادیو کو بری کرنے کی اپیل کی تھی۔ پاکستان عالمی عدالت انصاف میں یہ مقدمہ جیت چکا ہے۔ عالمی عدالت انصاف ہی نے کہا تھا کہ اس سلسلے میں قانون سازی کی جائے، اسی کے تناظر میں یہ قانون سازی کی گئی ہے۔ ہم نے قانون سازی کے ذریعے بھارت کے ہاتھ کاٹ دیئے ہیں۔ تنقید کرنے والوں کو ادراک ہی نہیں اگر ہم قانون سازی نہ کرتے تو بھارت پاکستان کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں توہین عدالت کا مقدمہ دائر کردیتا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان پرپابندیاں لگوانے کی کوشش کرتا۔

اپوزیشن نے کلبھوشن یادیو کے معاملے کو سیاسی ہتھیار کے طورپراستعمال کرنے کی کوشش کرہی ہے اور غلط افواہیں پھیلاکر سیکورٹی ریڈ لائنز کا خیال بھی نہیں رکھ رہی۔
ادھرہمسایہ ملک بھارت میں آرایس ایس کے زیراثرانتہاپسنددہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث مودی سرکار شدید دباؤ میں ہے۔ ناکام خارجہ پالیسی کے بعد انہیں گھر میں بھی خفت کا سامنا کرناپڑ رہا ہے۔

بیرونی دنیا میں انہوں نے اجیت دوول کے کہنے پر ڈالروں سے فصل بوئی مگر پھر فصل ہی خراب ہوگئی، عرب دنیا میں بھی مودی جی کا بے عزتی پروگرام شروع ہو گیا ہے۔اندرونی حالات بہت خراب ہیں۔ برطانیہ میں سکھوں کے ریفرنڈم کے پہلے ہی جھٹکے میں مودی نے کسانوں سے متعلق تینوں قوانین منسوخ کردیئے، مودی نے کہا کہ ان تینوں قوانین کو منسوخ کرنے کا عمل پارلیمنٹ کے اسی اجلاس میں کیا جائے گا،پارلیمنٹ کا اجلاس 29 نومبر سے شروع ہو رہا ہے، انہوں نے کسانوں سے اپیل کی کہ وہ احتجاج چھوڑ کر اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں۔

کسانوں کی کئی تنظیموں نے دہلی کی سرحدوں پر مورچے بنا رکھے ہیں اور ان کے احتجاج کو تقریبا ایک سال ہونے والاہے۔ہے۔ مودی کے اس اعلان کے بعداحتجاج کرنے والے کسانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور جشن شروع ہوگیا۔ کسانوں نے ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے لڈو اور جلیبیاں تقسیم کر کے منہ میٹھا کرایا۔اس اعلان کے بعد کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے مودی کے تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کے اعلان پر اپنے ردعمل میں کہا کہ کسانوں کااحتجاج اس وقت تک جاری رہے گاجب تک مرکزی حکومت ان قوانین کوپارلیمنٹ میں واپس نہیں لے گی ۔

راہول گاندھی نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دونوں جگہ اس قانون کی شدید مخالفت کی تھی اور کسان مخالف قوانین کو فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ گزشتہ ایک سال سے کسانوں کے احتجاج کو جان بوجھ کر نظرانداز کرنے والی بی جے پی حکومت نے ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد آئندہ عام انتخابات میں شکست کے خوف کی وجہ سے مودی نے کسان مخالف قوانین کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔


رواں ہفتے بابا گرو نانک کی جنم دن کی تقریبات میں کرتارپور آئے معروف بھارتی سیاست دان نوجوت سنگھ سدھو نے وزیر اعظم عمران خان کو اپنا بڑا بھائی قرار دیا تو بھارتی میڈیا اور مودی سرکارکو خوب مرچیں لگ گئیں،سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک کے 552 ویں جنم دن کی تقریبات جاری ہیں۔ دنیا بھر سے آئے سکھ یاتری مذہبی رسومات کی ادائیگی میں مصروف ہیں۔

بھارتی پنجاب میں جماعت کانگریس کے صدر نوجوت سنگھ سدھو کا پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو اپنا بڑا بھائی کہنا مہنگا پڑگیا۔ بھارتی اخبار کی ویب رپورٹ کے مطابق نوجوت سنگھ سدھو عمران خان کو بڑا بھائی کہہ کر ایک بار پھر تنازعہ میں گھر گئے ہیں۔سدھوجب پاکستان پہنچے اور رسمی کارروائیاں مکمل کرنے کے بعد کرتارپور کوریڈور کے ذریعے گوردوارہ کرتارپور صاحب کے لئے روانہ ہوئے، اس دوران وزیر اعظم عمران خان کے ایک نمائندے نے ان کا استقبال کیا۔

اس دوران سدھو نے عمران خان کو اپنا بڑا بھائی قرار دیا اور کہا کہ انہیں یہاں آ کر ہمیشہ بہت پیار ملا ہے۔ کرتار پور کوریڈور میں داخل ہونے سے پہلے میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ راہداری کھل گئی ہے اور بے شمار امکانات بھی کھلے ہیں۔ وہ وہاں پنجاب کی ترقی کی نئی راہ پر بات کریں گے۔ انہوں نے راہداری کھولنے اور زرعی قانون کو واپس لینے کے مرکزی حکومت کے فیصلوں کا خیر مقدم کیا۔

ان کے ساتھ کابینہ کے وزرا پرگت سنگھ، ارونا چودھری، امریندر سنگھ راجہ وڈنگ، ایم ایل اے کلبیر سنگھ زیرا، پارٹی امور کے ریاستی انچارج ہریش چودھری، ریاستی ورکنگ صدر کلجیت ناگرا اور پون گوئل بھی تھے۔ وزیراعظم عمران خان کو بڑا بھائی کہنے پر سابق بھارتی کرکٹر اور بی جے پی کے وزیر گوتم گمبھیر نوجوت سنگھ سدھو پر برس پڑے، ٹوئٹر پر جاری کیے گئے بیان میں گوتم گمبھیر نے نوجوت سنگھ سدھو کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اپنے بیٹے یا بیٹی کو بارڈر پر بھیجیں اور پھر اس ریاست کے سربراہ (عمران خان)کو اپنا بڑا بھائی کہیں۔

گوتم گمبھیر نے نوجوت سنگھ سدھو کے بیان کو ناگوار قرار دیا۔
وزیراعظم عمران خان نے ہمیں بہت بڑا پیار دیا ہے اور وہ میرے بڑے بھائی کی طرح ہیں.اس بیان کے چند منٹ بعد بھارت میں مودی سرکار کی انتہا پسند میڈیا نے سدھو کے خلاف طرح طرح کی باتیں شروع کیں اور اس کے خلاف زہر اگلتے رہیں اس دوڑ میں بعض چینلز نے حدوں کو پار کرتے ہوئے انہیں غدار بھی قرار دیا،اسی طرح بعض چینلز نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ وہ بھارت کے نمائندے نہیں بلکہ عمران خان کی کابینہ کے رکن دکھائی دیتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سے پاکستان کی طرفداری کرتے ہیں.نوجوت سنگھ سدھو کے خلاف نہ صرف بھارتی چینلز پر پروپیگنڈا کیا جارہا ہے بلکہ سیاسی پارٹیاں بھی کسی سے کم نہیں ہے،اس دوڑ میں بی جے پی کی حکومتی پارٹی نے ایک بیان میں مطالبہ کیا ہے نوجوت سنگھ سدھو کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے.بی جی پی کے ترجمان امت مالویہ نے ٹوئٹر پر نوجوت سنگھ سدھو کے خلاف لکھا کہ راہل گاندھی کے چہیتے نوجوت پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کو اپنا بڑا بھائی کہتے ہیں۔

گذشتہ بار انہوں نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کو گلے لگایا تھا، ان کی جم کر تعریف کی تھی، لہذا اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ گاندھی بھائی ،بہنوں نے تجربہ کار امریندر سنگھ کے بدلے پاکستان سے پیار کرنے والے سدھو کو چنا۔یاد رہے کہ 2019 میں عمران خان نے نوجوت سنگھ سدھو کو کرتاپور راہداری کے افتتاح کے لئے دعوت دی تھی اور اس نے دعوت قبول کرتے ہوئے پاکستان کا دورہ کیا تھا،اس دورے پر بھارت میں شدت پسند اور انتہا پسند ہندؤوں نے بھی نوجوت سنگھ سدھو کے خلاف شدید مہم چلائی تھی، اس مہم کے دوران انتہا پسند ہندؤوں نے انھیں مکمل طور پر پاکستان منتقل ہونے کا مشورہ بھی دیا تھا.اپنے خلاف منفی پروپیگنڈے اور انتہاپسند ہندؤوں کی جانب سے دبا ؤکو یکسر مسترد کرتے ہوئے انھوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ مستقبل میں بھی پاکستان جانے کے لئے تیار ہے اور اگر موقع ملا تو پاکستان ضرور جاؤں گا۔

بھارت واپسی پر صحافی کی طرف سے سوال پوچھا گیا کہ بی جے پی کی طرف سے کی جانے والی تنقید پر پر کیا کہیں گے؟ جس پر جواب دیتے ہوئے معروف بھارتی سیاستدان نوجوت سنگھ سدھو نے کہا کہ میں نے کسی پر کوئی الزام نہیں لگانا۔ بی جے پی جو مرضی کہے کانگریس پارٹی کے ترجمان نے سدھو پر کی جانے والی تنقید پر کہا کہ نریندر مودی پاکستان جائے تو دیش پریمی، جب سدھو جائے تو اسے دیش دروہی کہا جاتا ہے، بھارتیا جتنا پارٹی بہت کچھ کہتی رہتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :