
مقبوضہ کشمیر میں ہندی زبان تھوپنے کی سازش تیار
بدھ 15 جولائی 2020

ڈاکٹر جمشید نظر
(جاری ہے)
کانگرس پارٹی نے بی جے پی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اسے ملکی و سفارتی سطح پر ایک ناکام حکومت قرار دیا۔ادھر نیپال نے بھی ایک نیا دعویٰ کرکے بھارت کی نیندیں اڑا دی ہیں نیپال نے دعویٰ کیا ہے کہ اصل ایودھیا ہندوستان میں نہیں بلکہ نیپال میں ہے،انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ ہندو مذہب کے بھگوان ہندوستانی نہیں بلکہ نیپالی تھے۔
نیپالی وزیراعظم کے اس چونکا دینے والے بیان نے رام مندر کے دعوے پربھی کئی سوال کھڑے کردیئے ہے اس کے علاوہ لداخ میں چین نے بھارت کو جوسرپرائزز دیئے وہ سب آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔اس سے قبل پاکستان بھی بھار ت کو ابھینندن جیسے سرپرائز دے چکا ہے۔بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد سے بھارت کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہورہی ہے،اسے ہر محاز پر رسوا ء ہونا پڑ رہا ہے اس کے باوجود مودی سرکار مقبوضہ کشمیر میں ظلم و بر بریت کو ختم کرنے کی بجائے اسے دن بہ دن مزید بڑھا رہی ہے،کبھی معصوم نہتے کشمیریوںکو دہشت گرد بنا کر شہید کردیا جاتا ہے تو کبھی گھر گھر ناجائز تلاشی کے بہانے عورتوں ،بچوں ،بزرگوں کو ذدو کوب کرنے کے علاوہ نوجوانوں کو ماوں، بہنوں، بیٹیوں اور بیویوں کے سامنے بے دردی سے شہید کرنے کے بعد لواحقین کوان شہیدوں کی قبروں پر بھی جانے سے بھی روکا جاتا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں ہندوں کی جھوٹی اکثریت ثابت کرنے کے لئے ہندووں کے خاندان بسائے جارہے ہیں۔کشمیر کی اہم شاہراہوںاورعلاقوں کے نام تبدیل کر کے اس کی اصل شناخت مسخ کی جارہی ہے۔ان دنو ں ایک نئی سازش تیار کی گئی ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر سے اردو کو ختم کرکے ہندی زبان رائج کرنے کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے جارہے ہیں حالانکہ کشمیر کے پورے خطے میں اردو کو ایک مشترکہ زبان سمجھا جاتا ہے یہ کشمیر اور ہندوستانی انتظامیہ کے مابین بھی ایک لنک زبان کے طور پر کام کرتی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں اردو نہ صرف مسلمان بلکہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے علاوہ سکھوں ، عیسائیوں ، بدھ مت اور دیگر مذہبی و نسلی گروہوں کے درمیان بھی بات چیت کا ذریعہ ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں ہندی زبان کو زبردستی تھوپنے کے لئے ایک نئی چال چلی گئی ہے،ایک نام نہاد سماجی کارکن مگو کوہلی نے جموں کشمیر ہائی کورٹ میں ایک درخواست دی ہے جس میں کہا گیا کہ سرکاری دستاویز اردو میں ہونے کی وجہ سے مقامی آبادی کو مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اردو نہ تو ان کی مادری زبان ہے اور نہ ہی مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں استعمال کی جانے والی زبان ہے۔اپنی درخواست میں کوہلی نے عدالت سے کہا ہے کہ جموں کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019کے نفاذ کے بعد بھی جموں و کشمیر انتظامیہ،محکمہ مالیات،پولیس اور عدالتوں سے متعلق سبھی دستاوزیزات اردو میں ریکارڈ کئے جارہے ہیں۔اس درخواست پر جموں کشمیر ہائی کورٹ نے جموں کشمیر انتظامیہ کو ایک نوٹس جاری کیاہے جس میں ہندی زبان کو سرکاری زبان بنائے جانے کامطالبہ کیا گیا ہے۔چیف جسٹس گیتا مغل اور جسٹس سنجے دھر کی بینچ نے جموں کشمیر انتظامیہ سے پوچھا ہے کہ وہ وجہ بتائیں کہ اس عرضی کو کیوں نہ منظورکیا جائے۔ادھر بی جے پی نے بھی جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں داخل درخواست کی حمایت کردی ہے۔کشمیر میں کٹھوعہ ضلع کے بی جے پی کے نائب صدر اور انچارج یدھ دیر سیٹھی نے مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں ہندی کو سرکاری زبان بنانے کی حمایت کی ہے۔ایک نیوز چینل پر اس نے کہا کہ جموں کشمیر میں آرٹیکل370کے بعد اگر ہندی سرکاری زبان بنتی ہے تو وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لئے یہ سب سے بڑا گفٹ ہوگا۔بھارت کی اس طرح کی حرکتیں بتاتی ہیں کہ مقبوضہ کشمیر پر چھائے ظلم اور بربریت کے بادل چھٹنے والے ہیں اور بہت جلد کشمیر ی آزادی کی سانس لیں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ڈاکٹر جمشید نظر کے کالمز
-
محبت کے نام پر بے حیائی
بدھ 16 فروری 2022
-
ریڈیو کاعالمی دن،ایجاد اور افادیت
منگل 15 فروری 2022
-
دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پاک فوج کی کارروائیاں
جمعرات 10 فروری 2022
-
کشمیری شہیدوں کے خون کی پکار
ہفتہ 5 فروری 2022
-
آن لائن گیم نے بیٹے کو قاتل بنا دیا
پیر 31 جنوری 2022
-
تعلیم کا عالمی دن اور نئے چیلنج
بدھ 26 جنوری 2022
-
برف کا آدمی
پیر 24 جنوری 2022
-
اومیکرون،کورونا،سردی اور فضائی آلودگی
جمعہ 21 جنوری 2022
ڈاکٹر جمشید نظر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.