”ڈوگرا راج سے ریاست جموں کشمیر تک“

جمعرات 4 فروری 2021

Dr Rahat Jabeen

ڈاکٹر راحت جبین

پاکستان کا ایک بہت گھنبیر مسٸلہ جو بچپن سےدرسی کتابوں میں پڑھتے اور بڑوں سے  سنتے آرہے ہیں ،وہ ہے مسٸلہ کشمیر ۔جسے انڈیا اپنا اٹوٹ انگ اور پاکسان اپنی شہ رگ گردانتا رہتاہے۔ پاک بھارت کشیدگی کی  سے سب سے بڑی وجہ بھی ہمیشہ سے مسٸلہ کشمیر ہی رہی ہے۔ اس سلسلے میں اب تک پاکستان اور بھارت کے مابین تین جنگیں لڑی گٸی ہیں۔
کشمیر کے حوالے سے اگر پاک بھارت جنگوں کو دیکھنا ہو تو ہمیں انہیں کشمیر کی تاریخ کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔

1839 میں سکھوں اور انگریزوں کےمابین جنگ کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ریاست جموں کشمیر پر قبضہ کرکے اسے معاہدہ امرتسر کے تحت سات لاکھ کے عوض وہاں کے ڈوگرا حکمران گلاب سنگھ کو بیچ دیا۔ 9 نومبر 1846ء کو مہاراجا گلاب سنگھ اپنی فوج کے ساتھ سری نگر میں داخل  ہوٸے ۔

(جاری ہے)

اس طرح مہاراجہ گلاب سنگھ کی قیادت میں ریاست جموں و کشمیر میں ڈوگرا حکومت کا آغاو ہوا۔

یوں 1846 سے لے کر 1949 تک یہاں نوابی ریاست قاٸم رہی۔ جسے ڈوگرا راج بھی کہا جاتا تھا۔
 1947 میں پاک بھارت  علیحدگی کے بعد تمام ریاستوں کو یہ اختیار تھا کہ وہ جس ملک کے ساتھ الحاق کرنا چاہیں، اکثریتی راٸے کے ذریعے کر سکتے ہیں۔ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے ریاست نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا مگر وہاں کے ہندو مہاراجہ کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔

  13 اگست 1948 کو انڈیا اس مسٸلے کو اقوام متحدہ لے گیا۔جہاں استصواب راٸے کرانے کا فیصلہ ہوا۔ جس میں مسلمانوں کی اکثریت نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔ مگر ہندوستان کی جانب سے اس فیصلے کو کوٸی اہمیت نہ دی گٸی۔ ہندوستان کو اس وقت کےکشمیری لیڈر شیخ عبدللہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ بعد میں مقامی اور غیر مقامی مجاہدین کی کوششوں کی وجہ سے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کا حصہ پاکستان کے قبضے میں آٸے۔

اسی دوران انڈیا کی فوجیں مقبوضہ جموں کشمیر پر قابض ہوگٸیں اور پاکستانی فوجیں بھی آزاد کشمیر میں داخل ہوٸیں ۔ کشیدگی زیادہ بڑھ گٸی تو یکم جنوری 1949کو سیز فاٸر کا اعلان ہوا۔ مقبوضہ اور آزاد کشمیر کے درمیان  لاٸن آف کنٹرول بنا دی گٸی۔وادی کشمیر ، جموں اور لداخ سمیت دو تہاٸی کشمیر پر قبضہ کی صورت میں جنگ میں انڈیا کی بالادستی قاٸم ہوٸی۔

  تب سے اب تک مسٸلہ کشمیر اقوام متحدہ کے سرد خانوں میں پڑا ہے اور اس پر کوٸی بھی پیش رفت ہوتی نظر نہیں آرہی ہے۔اس مسٸلے کے نتیجے میں اب تک لاکھوں کشمیریں اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔  ۔ بلکہ اب تو کشمیر کی آٸینی حیثیت ختم ہونے کے بعد حالات مزید کشیدگی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔اسی کشیدگی کی ایک کڑی کی صورت میں پاک انڈیا میں 1965 میں دوبارہ جنگ چڑھ گٸی۔

سترہ دنوں تک دونوں جانب خون کی ندیاں بہاٸی گٸیں ۔آخرکار یقینی ہار جیت کے فیصلے کے بغیر امریکا اورسویت یونین کی ثالثی کے نتیجہ میں معاہدہ تاشقند طے پایا اور جنگ بندی ممکن ہوٸی۔1971میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اور جنگ ہوٸی ۔ انڈیا نے اس جنگ میں فتح کے جھنڈے گاڑھے۔یہ واحد جنگ تھی جو کشمیر کے ایشو پر نہیں  ہوٸی ۔اس جنگ کے نتیجے میں  مشرقی پاکستان ہم سے  جدا ہوگیا۔


مسٸلہ کشمیر کے سلسلے کی ایک جنگ 1999 میں ہوٸی جسے ”کارگل جنگ“ کا نام دیا گیا۔پاکستانی افواج نے لاٸن آف کنٹرول پار کیااور کارگل کے متعدد مقامات قبضے میں لے لیے ۔ مگر جوابی کارواٸی کرکے بھارت نے قبضہ شدہ علاقے واپس لے لیےاور جیت اپنے نام کرلی۔ اس جنگ میں بھی پاکستان پر عالمی دباٶ کا غلبہ رہا۔
جہاں پاکستانوں کے ساتھ ساتھ  آزاد کشمیر کے رہنے والے بھی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے حق میں ہیں ،وہیں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی دونوں ممالک سے مشترکہ آزادی کا خواہاں ہے ۔

اسی سلسلے میں پچھلے کچھ عرصے سے وہاں آزادی کی تحریکیں سر اٹھا رہی ہیں ۔ان کا موقف ہے کہ، ”ہم آنے والی نسلوں کو جنگ ورثے میں نہیں دینا چاہتے“۔ جب سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اور ان کے اتحادیوں نے 5 اگست 2019 کو  آرٹیکل 370 اور اس کی ایک شق 35۔ A ختم کرکے جموں کشمیر کی آٸینی حیثیت ختم کردی ہے، تب سے اب تک وہاں کے لوگوں پر زندگی اجیرن بن چکی ہے۔

اسی کے نتیجے میں یہ تحریکیں مزید زور پکڑ رہی ہیں ۔ کشمیر پہ ناجاٸز قبضے سے لے کر کرفیو کے نفاظ تک، انڈیا وہاں انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔وہاں کے مواصلاتی رابطے بھی منطقہ ہوچکے ہیں۔ عورتوں کی عصمت دری اور  کشمیریوں پر کھلے عام ظلم و جبر  کو پانچ ماہ سے اوپر ہو چکے ہیں ۔مگر اقوام متحدہ ، اسلامی سربراہی کانفرنس اور خود ہمیشہ شہ رگ کا راگ لاپنے والے، اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے لگانے والے ، ہمارے ملک کے اعلی حکام میں بھی ایک ناقابل فہم چپ سی لگی ہوٸی ہے ۔

اس کی ایک بڑی وجہ شاید کشمیر کے معاملے پر ہماری ناکام خارجہ پالیسی بھی ہے۔
 یہاں آرٹیکل 370 اور 5۔A کی آٸینی حیثیت کو سمجھنا ضروری ہے جس کی وجہ سے کشیدگی میں مسلسل  اضافہ ہو رہا ہے ۔اس آرٹیکل اور اس کی مخصوص شق کو ختم کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم ہوگٸی ہے اور وہ صرف وفاقی اکاٸی بن گیا ہے۔
آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں کشمیر کی آٸین ساز اسمبلیوں کو آٸین بنانے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی پوری آزادی تھی۔

اسمبلی کی مدت چھ سال مقرر تھی۔ساتھ ہی بھارتی حکومت کو یہاں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کرنےکی آزادی بھی نہیں تھی۔ صدارتی حکم نامے کے تحت 1954کو 35 ۔A کو اس آٸین کا حصہ بنایا گیا۔ جو یہاں کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا تھا۔جیسے کہ،
مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا تھا۔
بھارت کی کسی اور ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتاتھا۔


کسی اور ریاست کے شہری کو یہاں  ملازمت نہیں مل  سکتی تھی۔
جموں و کشمیر کے شہریوں کے پاس دوہری شہریت ہوتی تھی۔
کسی دوسری ریاست کے شخص سے شادی کی صورت میں کشمیری خاتون کی شہریت ختم ہوجاتی تھی اور پاکستانی مرد کسی کشمیری عورت سے شادی کی صورت میں کشمیر کی شہریت حاصل کرسکتا تھا۔
کشمیر میں رہنے والے پاکستانی کو بھارت کی شہریت بھی مل سکتی تھی۔


غیر کشمیری یہاں زمین و جاٸیداد نہیں خرید سکتا تھا۔
اقلیتی ہندووں اور سکھوں کو 16 فیصد ریزرویشن نہیں ملتا تھا۔
اس قانون کے توڑنے کا سب سے برا اثر یہاں کے لوگوں پر اس طرح پڑ سکتا ہے کہ بھارت کا کوٸی بھی شخص یہاں جاٸیداد خرید سکتا ہے اور مستقل یہاں رہاٸش اختیار کر سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمان اکثریت سے اقلیت میں تبدیل ہوسکتےہیں .
جہاں تک کشمیر کی بات ہے پہلے تو صرف ظلم ہورہا تھا اور اب وہی کشمیر جسے ہم اپنی شہ رگ کہتے نہیں تھکتے تھے، اب ہم سے  کٹ چکی ہے  ۔

اور اب تو افسوس کاعالم یہ ہے کہ لوگ کشمیر کے لوگوں پر ظلم و ستم کی داستان سننا بھی گوارا نہیں کرتے ۔بچپن سے ہمارے ذہنوں میں شہ رگ بٹھا کر اب کہتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کو چھوڑ دو
واٸے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :