فاطمہ جناح یونیورسٹی

جمعہ 3 مئی 2019

Engr.Iftikhar Chaudhry

انجینئر افتخار چودھری

اس روز فاطمہ جناح یونیورسٹی کی سالانہ تقسیم اسناد کی تقریب تھی۔اس ویمن یونیورسٹی کا قیام راولپنڈی کے شیخ رشید احمد کے سر ہے۔میں بھی ایک گریجوئیٹ بیٹی کے والد کی حیثیت سے جناح کنونشن سینٹر میں موجودہ تھا میری بیٹی ربیعہ افتخار چودھری نے بی بی اے کیا ہیس۔یہ یونیورسٹی راولپنڈی کے لوگوں کے لئے نعمت سے کم نہیں پنڈی کیا گلگت بلتساتن کشمیر اور پاکستان کے دور دراز لوگوں کی بیٹیاں یہاں ای اچھے ماحول میں رہ کر اعلی تعلیم کی ڈگریاں حاصل کرتی ہیں ڈاکتریٹ ایم فل اور گریجوایشن کرنے والی کوئی دو ہزار کے قریب بچیوں نے ڈگریاں وصول کیں۔

والدین کی ایک خاصی تعداد بتا رہی تھی کہ یہ متوسط اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والوں کی بچیاں ہیں ایک جنرل خاتون بھی نظر آئیں جو وردی پہن کر اپنی بیٹی کو ڈگری لیتے ہوئے دیکھنے آئی تھیں۔

(جاری ہے)

گورنر پنجاب چودھری محمد سرور تقریب کے مہمان خاص تھے۔بچیوں نے بڑے پیارے گاؤن پہنے ہوئے تھے ان کے چہروں کی خوشیاں بتا رہی تھیں کہ وہ نہ صرف خوش ہیں بلکہ ایک عزم کے ساتھ اور ولوے اور نئی فکر کے ساتھ وہ پاکستان کی خدمت کرنا چاہتی ہیں ۔

کسی فلاسفر نے کیا خوب کہا تھا تم اچھی مائیں دے دو قومیں خود بخود اچھی مل جائیں گی۔میں اوپر ہال کے انتہائی دائیں جانب بیٹھا سوچ رہا تھا کہ کیا پاکستان کے ادارے اچھی مائیں تیار کرنے میں مدد دے رہے ہیں؟کیا ہم ان بچیوں سے اچھی امیدیں وابستہ کر سکتے ہیں ۔میں ایک سیاسی کارکن ہوں مجھے اس بات کا تو احساس تھا کہ سڑکیں اور موٹر وے بنانے والوں سے زیادہ وہ سیاسی کارکن تاریخ میں زندہ رہے گا جس نے تعلیم کے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دئے ہوں گے ۔

سر سید احمد خان نے علی گڑھ یونیورسٹی بنا دی اس یونیورسٹی نے مسلمانوں کو ایک ملک دے دیا۔اگلے روز عین ایک روز پہلے اسی ہال میں وزیر اعظم نے خطاب کیا شیخ رشید کسی وجہ سے نشانہ ء تضحیک بن گئے لیکن اپنے اس عظیم کام کی وجہ سے میں ان کی تعریف کرنے سے رہ سکا کہ میری بیٹی ویمن یونیورسٹی سے ڈگری لے رہی تھی اور وہ ڈگری گورنر پنجاب چودھری سرور دے رہے تھے۔

ایک دن کے فرق سے نشانہ مزاح بننے والے شیخ کا قد بڑا ہو گیا ۔اس شہر میں میٹرو بھی ہے جس سے آج تک استفادہ نہیں کیا لیکن اس شہر میں رہتے ہوئے چار سالوں سے فائدہ اٹھایا بی بی اے کی ڈگری لینے والی میری بیٹی نے مجھے سمجھا دیا کہ با با قومیں سڑکوں سے نہیں تعلیم سے بنتی ہیں۔میں نے وائس چانسلر کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جنہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم تعلیم سے زیادہ تربیت پر زور دیتے ہیں اس کا عملی مظاہرہ ریہرسل میں دیکھا جس بچیوں نے کسی موقع پر شور کیا تو بڑے ہی پیار سے انہیں سمجھایا کہ بچو آپ تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیجئے اس قسم کا شور شرابہ اس ادارے کی روائت نہیں ہے سٹیج کے پیچھے ایوان صدر کی تصویر تھی اس ایوان میں پاکستان کے صدر ایوب خان طویل عرصہ تک مقیم رہے اس کے بعد یحی خان بھی کچھ عرصہ رہے آج یہ ایک یونیورسٹی میں تبدیل ہو گیا ایوان صدر کی وجیہ بلڈنگ آج ہزاروں بچیوں کو ڈگریاں دینے جا رہا تھا میں نے سوچا کہ کسی نے کیا عظیم سوچ رکھی ہو گی کہ قصر صدارت کو قصر علم میں بدل دیا میں سلام پیش کرتا ہوں اس شخص کی سوچ کو اور میں وہاں بیٹھا یہ بھی سوچ رہا تھا کہ کہ وزیر اعظم عمران خان بھی اسی طرح کا عظیم فرد ہے جس نے فاطمہ جناح یونیورسٹی بنا دی۔

گورنر پنجاب اس یونیورسٹی کے چانسلر ہیں وہ بھی حسن انتظام پر مسرور ہوئے۔بچیوں کو انتہائی خوبصورت گاؤن دئے گئے تھے اعلی معیار کا کپڑا ٹوپیاں اس پر رومن ٹوپیوں جیسے پھمن پی ایچ ڈی ماسٹر آف فلاسفی مگریجوئٹس کے الگ رنگ ،کنونشن سینٹر کے ہال میں ایسا لگ رہا تھا کہ جنت سے حوریں زمین پر اتری ہیں اور پریاں ہیں جو ساتروں کو دھوکہ دے کر کچھ دیر اس ہال میں رکی ہیں۔

میں سلام پیش کرتا ہوں منتظمین کو اور ادارے کی ہیڈ کو جن کا پتہ چلا وہ ریٹائر ہونے والی ہیں۔ایسی خواتین کو وزارت تعلیم میں ایڈوائزر رکھا جائے شفقت محمود کے پاس اس قسم کے لوگوں کی جگہ ہونی چاہئے وہ خود بھی ایک اچھت بیروکریٹ ہیں غلطی سے سیاست دان بن گئے ہیں۔وہ پی ٹی آئی میں بھی ڈی سی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔میں ان سے کہوں گا کہ وہ اس قسم کے ہیرے کو نہ جانے دے۔


ایک روز پہلے پی ٹی آئی کا یوم تاسیس تھے چودھری سرور ادھر بھی تھے بڑے پر وقار انداز سے شریک محفل رہے ایک اور گورنر بھی یوم تاسیس کی محفل میں ہاتھ میں مائیک لئے تبدیلی آئی رے گا رہے تھے۔اس خدا کے بندے سے کوئی پوچھے کہ اس منصب کے تقاضے اب وہ نہیں ہیں۔میں گورنر سرور اور عمران اسمعیل کا مقابلہ کر رہا تھا۔یقینا پنجاب کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایک باوقار گورنر ملا ہے۔

چودھری صاحب سے یاد اللہ ہے ان سے پنجاب کی یونیورسٹیوں کے معیار تعلیم کی بہتری کی امیدیں کی جا سکتی ہیں ۔سندھ ایک بڑا صوبہ ہے وہاں کے گورنر کو اب سنجیدہ بننے کی ضرورت ہے پرانے دوست ہیں لیکن ہوتا یوں ہے کہ حکمرانوں کو مشورہ دینا ایک خطر ناک کھیل ہوتا ہے آپ جب مدح و سرائی کرتے ہیں جو تو آپ کے سوالوں کے جواب بھی دئے جاتے ہیں لیکن کوئی مشورہ دیں تو چپ۔


کانوکیشن کی اس یاد گار تقریب کو دیکھ کر محسوس ہوا کہ فاطم جناح طرز کی ویمن یونیورسٹیاں ملک خدادا د کے لئے بہت ضروری ہیں۔جہاں قوم کی بچیاں مخلوط تعلیم کی شر انگیزیون سے بچ کر اعلی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں میرے ساتھ ربیعہ کی دوست کے ابو بھی بیٹھے تھے انہوں نے گلگت کی حالت زار بیان کی ہنزہ کے کریم آباد کے بک شاپ سیلر بھائی کا کہنا تھا ہمیں بجلی چاہئے ہمیں کالج اور یونیورسٹی کی ضرورت ہے اور پورے کریم آباد میں دو ڈاکٹر ہیں وہ بھی نہیں ملتے۔

پاکستان کو ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔جہاں محرومیاں ہوتی ہیں وہاں نفرتیں جنم لیتی ہیں۔فاطم جناح یونیورسٹی میں دورداراز سے بچیاں پڑھنے بے شک آئیں لیکن کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس لیول کی ایک یونیورسٹی وہاں بنائی جائے۔
اس روز کی تقریب کی سحر سے نہیں نکل سکا ہوں ۔میں نے اردو میں جو تقریر سنی تو مجھے محسوس ہوا کہ اردو ادب سے خوبصورت الفاظ کو جوڑ کر جو مالا پروئی گئی ہے اس سے ثابت ہوا کہ اردو ابھی زندہ ہے یہ فاطمہ جناح میں تو زندہ ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیا پاکستان کے ان اسکولوں میں بھی زندہ ہے جہاں بلیوڈے فادر ڈے مادر ڈے کے نام پر لوگوں کے کھیسے کاٹے جاتے ہیں۔


اٹھارویں ترمیم نے وفاق کو کمزور کر دیا ہے یہ ترمیم مجیب کے چھ نکات کی دوسری شکل ہے جہاں مرکز بیٹھا صوبوں کو دیکھ رہا ہے۔رات کو وائس آف امریکہ پر تھا وہ مدارس یک ساں نصاب تعلیم کی طرف لے جانے کی بات کر رہے تھے۔یقینا پی ٹی آئی کا منشور یہ کہتا ہے لیکن اس ترمیم کی چند شقوں کی ترمیم کے بغیر یہ نا ممکن ہے۔
اگر صوبوں نے ہی نصاب تعلیم مرتب کرنے ہیں تو آپ ایک قوم بنانے کا خواب ترک کر دیں ۔

کوئی سنگین نوعیت کا پنجابی اگر وزیر تعلیم پنجاب بن گیا تو سمجھئے راجہ رنجیت سنگھ آپ کا ہیرو ہے اور سندھ میں راجہہ داہر پھر آپ چودھری رحمت علی محمد ابن قاسم کو قومی ہیرو بنانا سمجھنا بھول جائیں۔وفاق کو اس ترمیم نے کمزور کر دیا ہے۔پی ٹی آئی اپنے منشور کے اس اہم حصے کی تکمیل نہیں کر سکتی جب تک وفاق مضبوط نہ ہو۔
فاطمہ جناح یونیورسٹی کے فنکشن میں کچھ اداروں کی جانب سے پان سات ہزار کے انعامات دئے گئے ایک انعام پچاس ہزار کا تھا یہ اس شہر کے ہزاروں کھاتے پیتے لوگوں کے لئے باعث ندامت بات ہے ایک بینک کا نام لیا جا رہا تھا اس نے کوئی دس ہزار کا انعام دیا اتنے انعام تو گاؤں میں کبڈی جیتنے والے کو مل جاتے ہیں یہ بینک یہ صنعت کار کاروبار حضرات کدھر ہیں یونیورسٹی میں مارکیٹنگ شعبے کو فعال کرنے کی ضورت ہے۔


میں کالم کے آخر میں یونیورسٹی انتظامیہ کا شکر گزار ہوں سب کا سیکورٹی عملے کا اس ڈرائیور کا جو سالوں کو بچیوں کو بحفاظت لے جاتا رہا سب اساتذہ اور سٹاف کا شکریہ۔ایکم چیز یاد کرا دوں مجھے یہ کوفت ہمیشہ رہی کہ بچی کی فیس جمع کرانے خود فرسٹ ویمن بینک میں جانا پڑتا تھا جہاں کی طویک قطاریں تکلیف دیتی رہیں۔شکریہ فاطمہ جناح۔مبارک بیٹیوں اور مبارک ان کی ماؤں کو بھی۔ایک عظیم عورت کے انم پر بنی اس یونیورسٹی کے بنانے میں اہم کردار ادا کرنے والے سر سید پنڈی کو بھی مبارک۔سیاسی مخاصمتیں اپنی جگہ جو اچھا کام کیا ہے اس کے لئے ستائیش نہ کرنا بخیلی ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :