اچھے دن آئیں گے

بدھ 8 مئی 2019

Engr.Iftikhar Chaudhry

انجینئر افتخار چودھری

واہ کیا کالم تھا اچھے دن آئیں گے مسز جمشید خاکوانی کا گزشتہ روز خبریں میں چھپا کالم ان دلیر جذبوں کی عکاسی کرتا ہے اور ان لوگوں کی سوچ کا مظہر ہے جنہیں یہ علم ہے کہ کھوکھلی معیشت اور تباہ شدہ ادارون کو چھوڑ جانے والے صرف لٹیرے ہی نہیں ڈاکو تھے یقینا آئیں گے۔اس روز لالہ عطا ء اللہ عیسی خیلوی کو جب سٹیج پر بلایا گیا تو لوگ انہیں ویل چیئر پر دیکھ کر افسردہ ہوئے انہوں نے اپنی خوبصورت دکھی آواز میں اپنے نئے نغمے کے بول سنائے جن میں کہا کہ اچھے دن آئیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف نے ان نو ماہ میں وہ کام کئے جو ستر سالوں میں نہیں ہوئے ویسے تو کہنے والے کہتے رہیں اور وہ کہتے بھی تھے کہ یہ کرکرٹر نہیں بن سکتا اللہ نے اسے کرکٹروں کا سلطان بنا دیا یہ کبھی ہسپتال نہیں بنا سکتا میرے رب نے اسے شوکت خانم بنا کر دے دیا ایک نہیں تین اور وہ باتیں تو یاد ہوں گی کہ کسی نے کہا تھا ہم اسے وزیر اعظم کی شیوانی کا ٹوٹا ہوا بٹن بھی نہیں دیں گے اور دنیا نے دیکھا کہ وہ آیا اور اس نے ایک ملازم کی واسکٹ پہن کر وزیر اعظم بن کے دکھا دیا۔

(جاری ہے)

لوگ کہتے رہتے ہیں فقیروں کا رزق بے ہنگم آوازوں سے کم نہیں ہوتا۔پی ٹی آئی نے انصاف ہیلتھ کارڈ کا اعلان کیا ہے یہ ان لوگوں کے لئے نعمت سے کم نہیں ہو گا جو مہنگے علاج معالجے سے تنگ ہیں۔پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے بارے میں جو کچھ کہا گیا دیکھ لیجئے گا کہ جلد ان گھروں کی تعمیر شروع ہو گی تو اس سے جڑی چالیس صنعتوں پر بہار آئے گی ملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے۔

پاکستان میں گاڑیوں کے پلانٹ لگیں گے بلکہ لگنا شروع ہو گئے ہیں اس سے پہلے آٹو موبائل سیکٹر میں برس ہا برس سے لگے پلانٹوں نے ٹیکنالوجی ٹرانسفر نہیں کی تین بڑی گاڑیوں کے پلانٹس لگے عشرے گزر گئے لیکن افسوس ناک بات ہے کہ یہاں بمپر فینڈر فلٹر اور اس طرح کی چیزیں بنیں لیکن نہ تو کمپیوٹر بنے اور نہ ہی انجن لیکن یہ پلانٹس اس قسم کی ضروری ٹیکنالوجی بھی پاکستان کو دیں گے۔

میرا تعلق اس شعبے سے ہے وزارت پیدا وار میں بیٹھے لوگوں نے اس ملک کو ٹیکنالوجی سے محروم رکھا مجھے صفدر اعوان جو ایک بڑی کار ساز کمپنی کے ایجینٹ ہیں انہوں نے کہا میں نے چنگ چی اور موٹر سائیکل پر مرتے لوگوں کو بچانے کے لئے ایک سستی کار لانے کی کوشش کی مجھے ٹرخا دیا گیا۔مجھے انتہائی دکھ سے کہنا پڑتا ہے ایک عرصے سے پاکستان کو کنزیومر مارکیٹ میں بدل دی اگیا ہے چائینہ کی سستی پراڈکٹس نے پاکستان میں کاٹیج انڈسٹری کو تباہ کر دیا ہے پی ٹی آئی کی حکومت نے چائینہ کو باور کرایا کہ اب ٹریفک یک طرفہ نہیں ہو گی پاکستان آئیندہ چار سالوں میں چھ ارب ڈالر کی مصنوعات چائینہ کی منڈیوں تک لے جائے گا جس کے لئے کوئی تینسو سے زیادہ چیزوں پر ڈیوٹی ختم کرائی گئی ہے،جرمن کمپنی گاڑیوں کی سلامتی کا سرٹیفکیٹ دینے کا ملک بھر میں ایک ایسا نیٹ ورک بنانے جا رہی ہے جسے سعودی عرب میں فحص دوری کہتے ہیں یہاں کو ئی پچاس ہزار لوگوں کی کھپت ہو گی۔

کسی نے آج تک ان بے گھر غریب لوگوں کے بارے میں نہیں سوچا تھا جو سڑکوں پر سو جاتے تھے۔شام ہوتے ہی کچھ لوگ ٹی وی پر آ کر مہنگائی مہنگائی کا رونا روتے ہیں اور ان کی منشاء ہوتی ہے کہ لوگوں کو پاکستان سے مایوس کیا جائے کیا آپ جانتے ہیں کہ ان میں کچھ اینکرز کی تنخواہ کروڑ بھی باقی چالیس پچاس لاکھ والوں کی لمبی قطار ہے۔ان میں ایک دو صاحب تو مشرف دور سے باور کرانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ پاکستان گیا کے گیا لیکن میرا رب اسی پاکستان کو ہرا بھرا کر دیتا ہے عمران خان میرے قائد نے کیا خوب کہا کہ پاکستان کی معیشے میں دم ہے لیکن اٹھارویں ترمیم نے اس کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔

میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ اٹھارویں ترمیم تو مجیب کے چھ نکات کا دوسرا نام ہے۔آپ نہ یکساں نصاب تعلیم لا سکتے ہیں نہ یکسان قومی سوچ۔کسی انتہا پسند پنجابی کے پاس صوبے میں ظاقت آئی تو راجہ رنجیت سنگھ کو ہیرو بنائے کے دکھا دے گا اور اقبال کو دہشت گرد اور کہہ دے گا کہ اقبال نے نیل کے ساحل سے کاشغر تک یک جہتی کی بات کر کے مسلم بلاک بنانے کی بات کی ہے اور مسلمانوں کا اتحاد ہونا اس دور کا سب سے بڑا جرم قرار دے گا۔

جی ایم سید والے تو پہلے ہی راجہ داہر کو مدافعت کرنے والا سندھی کہتے ہیں اور محمد ابن قاسم کو در انداز کدا نہ کرے ایسا بندہ جو سندھی قوم پرست ہو اسے اقتتدار مل گیا تو اٹھارویں ترمیم اسے سپورٹ کرے گی
اسی اٹھارویں ترمیم نے نواز شریف کو تیسری بار وزیر اعظم بننے کا راستہ دیا اور اسی ترمیم نے صوبہ سرحد میں خیبر پختونخواہ کا فتنہ کھڑا کیا دیکھ لیجئے گا آج یا کل صوبہ ہزارہ بن کے رہے گا اس لئے کہ لسانیت کی بنیاد پر صوبے میں ہل چل مچ گئی ہے۔

عمران خان نے ان نو ماہ میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں ان میں سب سے بڑا کام وزراء کا کڑا احتساب ہے۔مجھے اچھا نہیں لگتا لیکن اس نے اپنے ایک انتہائی پرانے ساتھی کو وزارت سے الگ کر دیا جس کے دور میں دوائیوں کی قیمتیں بے تحاشہ بڑھیں۔اس کے نزدیک ذاتی دوستیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔مانتا ہوں مراد سعید شفقت محمود علی زیدی خان کے بہت قریب ہیں ذرا کوئی کھان پین کر کے دکھائیں دیکھ لینا وہ نکالنے میں دیر نہیں لگائے گا۔

کیانی سے زیادہ کون قریب تھا لیکن وزارت سے الگ کرنا تو ایک بات خان اس سے مل بھی نہیں رہا۔پی ٹی آئی کے وزراء اور سرکاری عہدوں پر فائز لوگ اگر عوام اور کارکنوں کی نہیں سنیں گے تو ان کو کھڈے لائین لگانے میں دیر نہیں لگے گی ۔اگر کسی کو نوجوان قائد پی ٹی آئی کا لہجہ یاد ہو جو اس نے اپنے خطاب میں اختیار کیا نیازی کا کہنا تھا کہ اب پارٹی کی رٹ قائم ہو گی حکومت پارٹی کو جواب دہ ہو گی نہ صرف عام وزیر بلکہ وزیر اعظم بھی۔

یہی جوان ہیں جو قبیلے کی آنکھ کا تارا ہیں۔سیف اللہ نیازی کارکنوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں اور اس کی وجہ ان کا دھبنگ انداز ہے۔انجینئر ارشد داد جیسے جہاندیدہ شخص کا سینٹرل سیکرٹیرٹ میں وجود ایک دو آتشہ ہے کارکنوں کے چہروں پر رونق اس بات کی غمازی ہے کہ اب نہ صرف پاکستان بدل رہا ہے بلکہ پی ٹی آئی اپنے اصل کی جانب لوٹ رہی ہے۔
سوال صرف یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا کارکن اس بات کو جان لے کہ تبدیلی کا عمل بہت مشکلات سے گزر کر مکمل ہو گا۔

اور تکلیف اور مشکل کے یہ دن تھوڑے ہیں۔یقینا مہنگائی ہے لیکن یہ سب کچھ ماضی کے حکمرانوں کا کیا دھرا ہے جو کل مجھے کیوں نکالا کی رٹ لگائے جی ٹی روڈ پر لوگوں کو کچلتے نکل گئے تھے اور چند روز پہلے اربوں پتئے لکھ پتی جیل میں ایسے گئے کہ آسمان فلک نے نظارہ کیا حمزہ کی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ تایا جان تواڈے نال چنگا ای ہویا ہے۔نواز شریف کو اس سج دھج سے مقتل میں لے جایا گیا جیسے وہ کوئی میچ جیت کر آئے ہیں۔

ان کے چہرے کی مایوسی اور حمزہ شہباز کی مسکراہٹ کے پیچھے ایک لمبی داستان ہے جس کا نظارہ میں نے سرور پیلیس میں آنکھوں سے دیکھا ہے۔بچپن میں قربانی کے لیلے پر ہم بھی غبارے اور سرخ دوپٹے باندھ کر اسے شیدے قصائی کے پاس لے جاتے تھے ہر کوئی ہم سے پوچھتا کتنے کا لیا ہے لیکن کسی نے لیلے سے نہیں پوچھا کہ کیا بیت رہی ہے
پاکستانی قوم کا مال شیر مادر سمجھ کر پی جانے والوں نے تہیا کیا ہے کہ چمڑی دے دیں گے لیکن دھمڑی نہیں۔

لکھ پت کی جیل میں جانے والے کی اولاد نے باپ کا جیل میں جانا مناسب سمجھا لیکن اربوں روپے کا لوٹا ہوا مال دینا گوارا نہ کیا رو ء ف طاہر نون لیگی نقیب ہیں بڑے تگڑے کالمسٹ ہیں انہوں نے ایک بار جدہ کی محفل میں ایک لطیفہ سنایا کہنے لگے گلی میں دوڑت بھاگتے دو بھائی پہنچے دوستوں نے پوچھا کہ کیا ہوا یک زبان کہنے لگے پچھلی گلی میں چند لوگ ابا جی کو مار رہے تھے ہم بڑی مشکل سے عزت بچا کے بھاگ کر پہنچے ہیں۔

جی ہاں بیرون ملک کی جائدادیں تو بچا لیں لیکن ابا نہ بچا سکے چھوٹے بھائی جو اکیلے نہ جانا کا گانا گایا کرتے تھے اکیلے ہی لندن چلے گئے
دھیاں چڑیاں دا چمبہ ہوتی ہیں باپ انہیں رخصت کرتے ہیں لیکن کل دنیا نے الٹ تماشہ دیکھا کہ بیٹی باپ کو رخصت کر رہی تھی۔
مریم سمجھتی تھیں کہ دنیا امڈ آئے گی لوک پاگل سن انہیں علم ہے کہ لوٹ مار کرنے والے نے ککھ نہیں چھوڑا ہم کیوں مریں۔


مسز جمشید خاکوانی کے کالم کا یہ جملہ سونے میں تولنے کے قابل ہے کہ ریاست مدینہ کا مذاق اڑانے والی اپنی قبر کالی نہ کریں بلکہ ریاست کی تخلیق میں خان صاحب کا ساتھ دیں
بدلتی رتوں میں تنگی کے ان تھوڑے رہ جانے والے دنوں میں حوصلے اور صبر کی تلقین کروں گا۔میرے رب نے چاہا تو اچھے دن آئیں گے یقینا آئیں گے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :