خوش آمدید 2021

پیر 4 جنوری 2021

Engr.Mushtaq Mehmood

انجینئر مشتاق محمود

مظلوم و مغلوب کشمیریوں کیلئے نیا سال ہپی تب ثابت ہو سکتا ہے جب بین القوامی ادارے سے رائے شماری کرا نے کیلئے قراردادسیکشن 6 سے سیکشن 7 منتقل کرکے ہندپاک دونوں ممالک کو منظور شدہ قرار دادوں پر عمل کرانے کیلئے دبا ؤ ڈالا جا ئے گا، کشمیریوں کے بنیادی حقوق بحال ہوں گے، جان و مال محفوظ ہو ں گے، تمام گرفتار شدگان کو رہا ئی ملے گی، گا ؤ کدل قتل عام سے لیکر گم نام قبروں میں دفن کشمیریوں کے قاتلوں،گم نام سفاک ،لالچی و جھوٹے تصادم میں ملوث قاتلوں اور کنن پوش پورہ ، شوپیان اور کشمیر کے کئی علاقوں میں ما ؤں بہنوں کی عزتیں پامال کر نے والوں، ہجرت کیلئے مجبور کر نے والوں اور کشمیریوں کو اپاہج اور بینائی سے محروم کر نے والوں کو سزا ملے گی، جب اپنی مٹی و عزیز و اقارب سے جدا ء پنڈت و مسلمان واپس اپنے گھروں کو لوٹیں گے۔

(جاری ہے)

گذشتہ سال میری تحریرخوش آمدید2020 ، میں نے لکھا تھا کہ یہ سال بھی گزر گیا، بدلا کچھ نہیں، حالانکہ دنیا کی خاموشی اور بے رخی کے با وجود کشمیری پر امید ہیں کہ آنے والے سال میں انکا ستارہ شاید جاگ جا ئے، اسی امید میں دہا یئوں سے شاہراہ حق پرمصروف عمل ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے کچھ بدلا نہیں، البتہ گزشتہ سال کی طرح کشمیریوں کی وسیع قر بانیوں کے با وجود دنیا کی بے رخی سے کشمیری نالاں ہیں۔

حق کے مقابلے طاقت راج میں دنیا کی موجودہ دگرگوں حالات پر انسان دوست حق پرست بہت زیادہ افسردہ ہیں، ۔ کیوں نہ ہو۔ ہم سب انسانوں کی بنیاد انسانیت ہے اور ایک دوسرے کے درد کو محصوص کر نا ہماری فطرت ہے، رنگ نسل ، مذہب ، ذاتی یا ملکی مفاد کیلئے انسانی اقدار پامال کر نے والے انسان نہیں بلکہ وحشی درندے ہو سکتے ہیں، دنیا میں مذاہب کی بنیاد ہی انسانیت ہے اور ظلم و بر بریت کے خلاف آواز اٹھانے کی ترغیب اوتار اور انبیاء دیتے رہے۔

دین حق اسلام میں ایک ناحق قتل کو تمام انسانیت کا قتل قرار دیا گیا ہے اور ایک دوسرے کے جان مال عزت و آبرو اور بزرگی وقار کی عظمت کا پاسبان بنایا گیا ہے،یہاں تک کہ اسلام نے کھانستے ہو ئے یا جمائی لیتے ہو ئے ، منہ پر ہاتھ رکھنے کی تاکید کی ہے، تاکہ پاس بیٹھے بندے کو تکلیف نہ ہو۔ مگر حالات کی ستم ظریفی کہ مذاہب کے نام پر بھی اور کبھی آزادی کے نام پر بھی انسانیت داغدار ہو رہی ہے۔

درندہ صفت حکمران صرف اپنی گدی بچانے کیلئے لاکھوں معصوم انسانوں کو قر بان کر رہے ہیں۔ اہنسا کے اوتار مہاتما بدھ کے ماننے والے بر ما میں مسلمانوں کے قتل عام میں مبتلاء ہیں۔اللہ کرے 2021میں انسانیت جاگ جائے، نفرت کدورتیں ختم ہو،انصاف ہو، تو تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں، اسلئے کہ عناد و نفرت کی بنیاد پر ہی کشمیر اور فلسطین مسائل حل طلب ہیں، اور ناانصافی کی وجہ سے ہی مشرقی تیمور اور سوڈان کو ترجیع اور مسلمانوں کے مسائل نظر انداز کئے جا رہے ہیں ۔

ہمارے عقیدے اور نظریات الگ ہو سکتے ہیں مگر بحثیت انسان ہماری قد ریں ایک ہیں۔ ہر انسان دوست کو چاہئے کہ کشمیر میں مظلوم کی داد رسی کریں اور ظالم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ظالم مسلمان ہو یا غیر مسلم، ظالم صرف ظالم ہے اسکا کو ئی عقیدہ نہیں ہو تا۔۔
2021خوش آمدید آیئے سب انسان خصوصا کشمیری من حیث القوم مسلم و غیر مسلم عہد کریں کہ ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، حسدنفرت و عناد کے بر عکس اپنی شناخت، سیکورٹی، آزادی اور بنیادی حقوق کی پاسداری کیلئے جدجہد تیز کریں اور اپنے حق و اصول پر مبنی موقف کو عالم میں اجاگر کر نے کیلئے میدان کارزار اور بیرونی ممالک میں مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیں، اپنے ہمدرد دوست ممالک ،بے لوث مخلص لیڈرشپ و،حریت پسندوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے خلاف پروپگنڈے کا حصہ بننے سے پر ہیز کریں، عوام قائدین پر جبر و ظلم کو بھی مدنظر رکھیں، لیڈر شپ کے ہر مثبت پروگرام پر عمل کریں لیڈر شپ کو بھی چاہئے کہ عوامی احساسات و مشکلات کا خیال رکھیں اورخوف و ڈر کی دیواریں کو عبور کر کے رہنمائی کریں، نئی راہیں تلاش کریں تاکہ 2021 بر صغیرکیلئے نیک شگون ثابت ہو۔

، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے نہیں بلکہ منزل مقصود حاصل کر نے کیلئے ایک دوسرے کا ساتھ نبھا نا ہے۔کشمیر ی 2020کے اختتام میں بھی امن، آزادی، انسانی حقوق، ۔۔ سے محروم ہیں، مسئلہ کشمیر حل کرانے کی عالمی ضمانت کے باوجود دنیا کی بے رخی اور بے رحم خاموشی میں کشمیریوں کیلئے پا کستا ن کی سیا سی ،اخلا قی و سفارتی تعاون کی بڑی اہمیت ہے ۔ بر بر یت کے شکار کشمیریوں کو ان کے حا ل پر چھو ڑنے کے بر عکس پوری قوت سے ان سے بھر پورتعاون کرنا خود دنیاکے مفاد میں ہے۔

کشمیری حریت قائدین کا بھارت کے خلاف مشترکہ پروگرام اور نئے عالمی تنا ظر میں حق پر مبنی موقف کودنیا میں اجاگر کرانا نیک شگون ثابت ہوگا۔ کشمیری بھی خواہ مخواہ جھگڑا نہیں چا ہتے ، اگر کو ئی حل خیر سگا لی سے بر آ مد ہو تا ہے تو خو نر یزی اور لڑا ئی کا فا ئدہ کیا۔ کشمیر ی پندرہ لاکھ بھا رتی فو ج و انکے مسلح ایجنٹوں کے یر غما لی میں ما لی جا نی اور عزت و ما نوس کی بے انتہا قربا نیا ں پیش کر رہے ہیں، بھارتی گولہ بھاری سے آذاد کشمیر بھی لہولہاں ہے،بد قسمتی سے میڈیا پر قدغن کی وجہ سے کشمیر کے با رے میں تمام حقا ئق ہما رے سا منے نما یا ں کر کے نہیں آ رہی ہیں، خصو صا خصوصی حثیت کی منسوخی کے بعد بھارت ظلم و جبر کے علاوہ کشمیریوں کے قتل ، معاشی بد حالی اور قوانین کے ذریعے کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر نے کی سازشوں پر عمل پیرا ہے ، لہذا قصیدہ یا مر ثیہ کے بر عکس ایک با معنی اپروچ اپنا نے کی ضر ورت ہے ، اہمیت اس با ت کی ہے کہ منزل مقصود کوکیسے حا صل کیا جا ئے۔

تحریک آزادی کشمیر کی اساس بین الاقوامی ضمانت کے اندر کشمیر میں رائے شماری کرانا ہے، یہ ایک سیاسی جمہوری مسئلہ ہے،اس تحریک کے ساتھ کشمیری مسلمان اور غیر مسلم دونوں ظالم جابر کے خلاف بر سر پیکار ہیں اسے اسلام و کفر کی جنگ بنا نا یا سمجھناہند پاک و کشمیر میں موجود چند افراد کے مقاصد پورے کرسکتا ہے مگر مسئلہ کشمیر کو جوں کا توں رکھنے کا جواز بن سکتا ہے، اگر چہ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر کی بنیاد دو قومی نظریہ روحانی اقدار ہیں مگر اسلام و کفر کی جنگ نہیں۔


بد قسمتی سے ایک جمہوری ملک کا دعوی ٰ دار بھارت تسلسل سے ظلم و جبر کا ہر حربہ استعمال کر کے ایک جمہوری پر امن تحریک آزادی کو کچلنے میں مصروف ہے۔مسئلہ کشمیر جوں کا توں رہنے سے کشمیری مسلم و غیر مسلم بلکہ ہند پاک میں بسنے والے ضروریات زندگی سے محروم کروڑوں زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں،مسئلہ کشمیر ایک سیاسی جمہوری مسئلے کو ہند پاک انا کا مس نہ بنائیں یہ ڈیڑھ کروڈ کشمیریوں کا پیدائشی بنیادی حق ہے جسے ہند پاک سمیت بین الاقوامی ادارے نے تصدیق کی ہے۔

2021 خوش آمدید۔۔ آیئے سب مسلم و غیر مسلم مطلب اس دھرتی کے تمام انسان خصوصا حکمران طبقہ نفرتوں ، کدورتوں، حسد، انتہا پسندی، دہشت گردی، دھونس و دباؤ،حقیر مفادات کیلئے مجرمانہ خاموشی کے بر عکس بحثیت انسان ایک دوسرے کے لئے محبت و پیار کے جذبوں کو اجا گر کریں، دنیا کے مسائل حل ہو سکتے ہیں، حق کے مقابلے طاقت کے راج میں نفرتوں کے دائروں میں رہنے کی وجہ سے کشمیریوں ، فلسطینیوں کے آہوں ، سسکیوں، خو ن کے نویدوں کو مخصوص انسان دوستوں کے بغیر دنیامحصوص نہیں کر تا،امت کوایک بدن کے انگ سمجھنے والے بھی عداوتوں و حقیر مفادات کی بنیاد پر خاموش ہیں، حد تو یہ ہے مسلمان آپسی نفرتوں کو مٹا نہ سکے، اور تاریخ کا اگر جائزہ لیں تو یہ حقیقت عیاں ہے کہ جو طاقت مسلمان اور کئی نا لائق حکمران یک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں،دشمنوں کے خلاف استعمال کر تے آج صورتحال کچھ اور ہو تی، اسکے علاوہ کئی مسالک کے اکابر ین کے ایسے کتب میں نے پڑھے جن کا مقصد صرف ایک دوسرے کی تذلیل ہے، اگر ایسے اکابرین اپنی صلاحتوں کو مثبت سمت استعمال کر تے مجھے لگتا ہے آج مسلمان ساینس و ٹکنالوجی میں مغرب کے محتاج نہیں ہو تے۔

اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :