محسن پاکستان

پیر 11 اکتوبر 2021

Esha Saima

عیشا صائمہ

اس وطن کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض بھی اتارے ہیں جو ہم پر واجب بھی نہیں تھے
 ڈاکٹر عبدالقدیر جو، محسن پاکستان ہیں. 1936ء میں ہندوستان کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے.اور 1952ء میں ہجرت کر کے پاکستان آگئے.ہجرت کے دوران انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا. لیکن وہ اس سرزمین پاک آکر بہت خوش تھے.

1960ء میں کراچی یونیورسٹی سے میٹالرجی میں ڈگری حاصل کی. کون جانتا تھا. یہ انسان آگے چل کر ایک عظیم سائنسدان بنے گا. اور پوری دُنیا میں پاکستان کانام روشن کرنے کے ساتھ ساتھ دشمنوں کے دلوں میں ایسی دھاک بٹھائے گا.  کسی کی جرآت نہیں ہو سکے گی کہ وہ پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے.

(جاری ہے)

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے میں اہم اور کلیدی کردار ادا، کیا.

وہ صدر پاکستان کے مشیر بھی رہے.
انہوں نے اعلیٰ تعلیم بیرون ملک حاصل کی. مغربی برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ڈیلفٹ اور بیلجیئم کی یونیورسٹی آف لیوؤن میں پڑھنے کے بعد 1976ء میں واپس پاکستان آگئے.
انہوں نے ہالینڈ سے ماسٹرز آف سائنس جبکہ بیلجیئم سے ڈاکٹریٹ آف انجینئرنگ کی تعلیم بھی حاصل کی. اور تعلیم مکمل ہونے کے بعد  پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا.

اور وطن واپس آکر  31 مئی 1976ء کو  انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز کی بنیاد رکھی.1981ء کو جنرل ضیاءالحق نے اس ادارے کا نام  تبدیل کرکے "ڈاکٹر اے کیو خان ریسرچ لیبارٹری" رکھ دیا. یہ ادارہ پاکستان میں یورینیم کی افزودگی میں نمایاں مقام رکھتا ہے.
مئی 1998ء میں بھارت نے جب پاکستان نے بھارتی ایٹم بم کے تجربے کے بعد کامیاب تجربہ کیا.اور یہ ایٹمی تجربہ بلوچستان کے شہر چاغی کے پہاڑوں میں ہوا.

اس تجربے کی نگرانی ڈاکٹر قدیر خان نے ہی کی تھی.
کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز نے نہ صرف ایٹم بم بنایا بلکہ پاکستان کیلئے ایک ہزار سے پندرہ سو  کلومیٹر دور تک مار کرنے والے غوری میزائیل سمیت چھوٹی اور درمیانی رینج تک مارکرنے والے متعدد میزائیل تیار کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا.
اس ادارے کے مزید اہم کارنامے، 25  کلو میٹر تک مارکرنے والے ملٹی بیرل راکٹ لانچرز، ، لیزر تھریٹ سینسر، ڈیجیٹل گونیومیٹر، ریموٹ کنٹرول مائن ایکسپلوڈر، ٹینک شکن گن سمیت پاک فوج کے لئے جدید دفاعی آلات کے علاوہ ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں کیلئے بہت سے آلات بھی تیار کیے.


ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا کہنا تھا. پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا سنگ بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا اور بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اسے پروان چڑھایا.
ڈاکٹر قدیر خان کے لئے بہت سی مشکلات بھی پیدا کی گئیں.  ہالینڈ کی حکومت نے ان پر اہم معلومات چرانے کے الزامات کے تحت مقدمہ بھی دائر کیا لیکن ہالینڈ، بیلجیئم، برطانیہ اور جرمنی کے پروفیسرز نے جب ان الزامات کا جائزہ لیا تو انہوں نے ڈاکٹر خان کو بے قصور پایا.

اور ان کو بری کرنے کی سفارش کرتے ہوئے کہا. کہ جن معلومات کو چرانے کی بنا پر مقدمہ داخل کیا گیا ہے. وہ عام کتابوں میں موجود نہیں. جس کے بعد ہالینڈ کی عدالت  نے انہیں باعزت بری کردیا.
انہوں نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب کہوٹہ میں ریسرچ لیبارٹری زیر تعمیر تھی. تو وہ سہالہ میں پائلٹ پروجیکٹ چلارہے تھے. اور اس وقت فرانسیسی فرسٹ سیکرٹری فوکو کہوٹہ کے ممنوعہ علاقے میں بغیر اجازت گھس آئے تھے.

جس پر ان کی مارکٹائی ہوئی. اور پتہ چلا کہ وہ سی آئی اے کے لیے کام کرتے تھے. انہوں نے تہران میں اپنے سی آئی اے باس کو لکھا کہ ’ کہوٹہ میں کچھ عجیب و غریب ہورہا ہے.
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو صدر جنرل پرویز مشرف نے بطور چیف ایگزیکٹیو اپنا مشیر نامزد کیا.اور جب جمالی حکومت آئی تو بھی وہ اپنے نام کے ساتھ وزیراعظم کے مشیر کا عہدہ لکھتے رہے.

لیکن 19 دسمبر 2004ء کو سینیٹ میں ڈاکٹر اسماعیل بلیدی کے سوال پر کابینہ ڈویژن کے انچارج وزیر نے جو تحریری جواب پیش کیا ہے اس میں وزیراعظم کے مشیروں کی فہرست میں ڈاکٹر قدیر خان کا نام شامل نہیں تھا.
ڈاکٹر قدیر خان نے ہالینڈ میں قیام کے دوران ایک مقامی لڑکی ہنی خان سے شادی کی جو اب ہنی خان کہلاتی ہیں اور جن سے ان کی دو بیٹیاں ہوئیں. دونوں بیٹیاں شادی شدہ ہیں.


ڈاکٹر قدیر خان کو ان کی کاوشوں کی وجہ سے 13 طلائی تمغے ملے، انہوں نے ایک سو پچاس سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے. 1993ءمیں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند بھی دی. 14 اگست 1996ء میں انہیں نشان امتیاز اور 1989ء میں ہلال امتیاز سے بھی نوازا گیا.
ڈاکٹر قدیر خان کا، ایک اور اہم کارنامہ سیچٹ sachet کے نام سے ایک این- جی - او - کا قیام بھی ہے.

جس کا مقصد  تعلیم کو عام کرنا اور لوگوں کی فلاح و بہبود کے کام کرنا ہے.
یہ شخصیت ہمارے ملک کا اثاثہ ہیں.لیکن ان کی قدر ویسے نہ کی گئ. جیسا، کرنے کا حق تھا.
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات ہے دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
ان کی عمر 86 برس تھی.کچھ عرصے سے  پھیپھڑوں کے مرض میں مبتلا تھے. دو ماہ سے ان کی طبعیت زیادہ خراب رہنے لگی.

اور 10 اکتوبر کو انہیں فیصل مسجد کے احاطے میں دفن کیا گیا.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرےاور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین.
پوری قوم کو ان کے جانے کا دکھ ہے. وہ ایک عظیم انسان،  سائنسدان اور قومی ہیرو تھے. ان کی وجہ سے ہم دشمن کے سامنے سینہ تان کے کھڑے ہونے کے قابل ہوئے.
دشمن کی دھمکیوں کو جو ہم ہنسی میں اڑا دیتے ہیں
اے محسنِ پاکستان اس کی وجہ صرف تم ہو

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :