انڈیا خاموش کیوں ہے؟؟

جمعرات 25 جون 2020

Faraz Khan

فراز خان

لداخ پچھلے کچھ ہفتوں سے عالمی و علاقائی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں پر انڈیا اور چین ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔15جون کو دونوں افواج کے درمیان جھڑپ ہوئی ہے جس کی نتیجے میں انڈیا کے 20فوجی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ چین کی طرف سے کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیا گیا۔یہ واقع گلوان ویلی میں پیش آیا ہے جو چینی سرحد کے قریب ہے اور اس واقع کے بعد چین نے گلوان وادی پر قبضے کا اعلان کر دیا ہے۔

وادی میں حالات اب بھی جوں کے توں ہیں۔اتنے بڑے واقع کے بعد بھی نیو دہلی میں پر اسرار خاموشی ہے۔انڈین میڈیا اور بی جے پی کی شعلہ بیاں قیادت جو پاکستان کے معاملے میں ہرزہ رسائی کرنے کو قومی فریضہ سمجھتی ہے وہ بھی خاموش ہیں کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں کچھ آواز اٹھا رہی ہیں۔

(جاری ہے)

انڈیا کی اس خاموشی کے پیچھے کچھ تلخ حقائق موجود ہیں۔
انڈیا اور چین کی دفاعی صلاحیتوں میں بہت بڑا فرق ہے اگر دونوں ملکوں کے سالانہ دفاعی بجٹ کا موازنہ کیا جائے تو انڈیا کی کمزوری عیاں ہو جاتی ہے ۔

دونوں ملکوں کے حالیہ بجٹ کے مطابق انڈیا نے دفاع کے لئے تقریبا 66ارب ڈالر اور چین نے79 1ارب ڈالر رکھے ہیں ۔اسکے علاوہ انڈیا نے زیادہ تر دفاعی سازو سامان روس یا امریکہ سے لیا ہوا ہے جو پرانا ہے اور وہ چین جیسے ملک کی دفاعی صلاحیتوں سے مطابقت نہیں رکھتا اس کے علاوہ اسکی مینٹینینس پر سالانہ اربوں روپے بھی لگائے جاتے ہیں ۔چین دفاعی معاملات میں خود مختیار ہے بلکہ عالمی سطح پر اسلحے کی فروخت میں بھی اس کا بڑا حصہ ہے۔

انڈیا کے کئی سابق جرنیل اس بات کا خدشہ ظاہر کر چکے ہیں اگر انڈیا کو بیک وقت چین اور پاکستان کے ساتھ جنگ کرنی پڑ جائے تو چند ہفتوں کے اندر اسلحہ ختم ہو سکتا ہے۔بین الاقوامی جریدوں میں عسکری اور معاشی لحاظ سے چین کا مقابلہ امریکہ سے کیا جاتا ہے اس بات سے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انڈیا چین کے مقابلے میں کہاں پر کھڑا ہے۔
انڈیا اور چین کی باہمی تجارت کا حجم لگ بھگ 90ارب ڈالر کے قریب ہے۔

اور اس حجم کے ساتھ چین انڈیا کا سب سے بڑاٹریڈ پارٹنر ہے۔ اس کے علاوہ چین کی کمپنیوں نے انڈیا میں 30ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔دوسری جانب انڈیا کی امریکہ کے ساتھ تجارتی جنگ جاری ہے جس میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی مصنوعات پر بھاری ٹیکس لگائے ہوئے ہیں۔انڈیا اور چین دونوں ممالک کی آبادی ایک ارب سے اوپر ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے لئے پر کشش منڈیاں ہیں۔

انڈیا کی معیشت مسلسل سست روی کا شکار ہے اس صورتحال میں انڈین معیشت کسی بڑی جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی اور جنگ بھی ایسے ملک کے ساتھ جس کے ساتھ تجارتی مفاد جڑا ہو۔کورونا وائرس سے جہاں عالمی معیشت کو نقصان پہنچا ہے انڈیا میں بھی اس کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔انڈیا مسلسل اس کوشش میں مصروف ہے کہ کسی طرح وہ علاقائی طاقت بن جائے ایک مضبوط معیشت کے بغیر اس کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔

انڈیا کسی ایسے مس ایڈوینچر سے بچے گا جس سے وہ کئی دہائیاں پیچھے چلا جائے۔
انڈیااس وقت کئی ممالک سے سرحدی تنازعات میں گھرا ہوا ہے۔پاکستان کے ساتھ کشمیر ،سیاہ چین اور سر کریک جیسے تنازعات مو جود ہیں۔چین کے ساتھ لداخ اور اکسائی چین پر کشمکش جاری ہے۔ نیپال کے ساتھ کالا پانی پر کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ان تمام ممالک کے ساتھ کشیدگی عروج پر ہے۔

انڈیا کے لئے مشکل ہے کہ وہ تمام محازوں پر متحرک رہے۔انڈیا کو اس بات کا ادراک ہے کہ اگر چین کے ساتھ محاز آرائی میں اضافہ ہوتا ہے توپاکستان کی طرف سے حملہ ہو سکتا ہے اس طرح دو محازوں پر لڑنا مشکل ہو جائے گا۔چین اس وقت تیزی کے ساتھ جنوبی ایشیائی ممالک میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھا رہا ہے اور انڈیا کے اردگرد حصار بن رہا ہے جس سے انڈیا خوفزدہ ہے۔


 انڈیا چین کے درمیان جہاں پر کشیدگی جاری ہے یہ سٹریٹیجک اعتبارسے بہت حساس علاقہ ہے۔چین کے لئے انتہائی اہم منصوبے بیلٹ اینڈ روڈاور سی پیک اس کے قریب سے گزرتے ہیں۔انڈیامیں ان علاقوں میں تعمیرات بھی اسی نیت سے کر رہا ہے تا کہ ان منصوبوں پر نظر رکھ سکے۔انڈیا ان منصوبوں پر تنقید کرتا رہا ہے اس کا خیال ہے کہ یہ منصوبے متنازع علاقوں سے گزر رہے ہیں۔چین ان منصوبوں کے حوالے سے بہت حساس ہے اور کسی قسم کی تنقید برداشت نہیں کرتا ہے۔چین نے اسی وجہ سے انڈیا کو سخت ردعمل دکھایا ہے جس کی انڈیا کو توقع نہیں تھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :