مشتری ہوشیار باش۔۔کہیں اگلا نشانہ آپ نا ہوں ۔۔۔

منگل 26 اکتوبر 2021

Furqan Ahmad Sair

فرقان احمد سائر

ایک زمانہ تھا جب اکثر و بیشتر کراچی کے "اردو بازار" جانا نصیب ہوتا تھا جہاں درسی کُتب کے علاوہ  ہر قسم کے ٹوٹکوں۔ شمع بینی، ہپناٹائز کرنے کے طریقے، ٹیلی پیتھی۔
حکمت کے نسخے، کاروبار کیسے کریں حتیٰ کے جادو ٹونہ اور محبُوب آپ کے قدموں میں سمیت  ڈھیر سارے رسائل و جرائد دیکھنے کو ملتے تھے۔
جیسے جیسے ٹیکنالوجی بڑھتی جا رہی ہے، چوروں , ڈکیتوں اور جعلسازوں نے بھی خود کو اِسی سانچے میں ڈھالتے ہوئے ترقی کرتے جا رہے ہیں۔


وطن عزیز میں واٹس ایپ اور ایس ایم ایس کے ذریعے کبھی بینظیر انکم سپورٹ تو کبھی جیتوں پاکستان، کبھی وزیر اعظم ہاوّسنگ اسکیم کبھی اے آر وائی گولڈ سمیت دیگر قسم کے جعلی قسم کے پیغامات کے ذریعے غریبوں کی کمائی کو لوٹنے کا سلسلہ جاری تھا کہ ان نوسربازوں نے اوورسیز پاکستانیوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

(جاری ہے)

۔ جعلی فیس بک پیچ,  اور جعلی ویب سائٹ کے ذریعے اووریسز پاکستانیوں کو آن لائن۔

مختلف سرٹیفکیٹ ۔ ڈپلومہ حتیٰ کے مختلف جامعات کی طرح ایک سالہ، دو سالہ اور چار سالہ ڈگریاں جاری کرنے کی پرکشش ترغیبات دی جاری ہیں ۔ جس کی زمینی کوئی حیثیت نہیں ماسوائے دِیارغیر میں بسے پاکستانیوں کی خون پسینے کی کمائی لوٹنے کا ایک نیا سلسلہ۔
واضح رہے دنیا کے بیشتر ممالک میں جامعات سے پرائیوٹ طور پر حاصل کی گئی ڈگریوں کی حیثیت ایک کاغذ کے ٹکرے سے زیادہ نہیں سمجھی جاتی پرائیوٹ طور پر حاصل کی گئی ڈگریاں نا تو کوئی ایمبیسی تصدیق کرکے دیتی ہے  نا ہی کچلرز ڈپارٹمنٹ تصدیق کروا سکتے ہیں۔

  لہٰذا جو لوگ پردیس میں بطور معّلم، انجینئر، ڈاکٹر سمیت دیگر اہم منصب میں اپنا کیرئیر بنانا چاہتے ہیں وہ کسی نامور جامعہ سے ریگولر بنیادوں پر ہی تعیلم حاصل کریں۔
اگر صرف سعودی عرب کی بات کریں تو یہاں تقریبآ 18 لاکھ کے قریب پاکستانی موجود ہیں جن میں اکثریت کم تعلیم یافتہ اور مزدرو طبقہ ہوتا ہے جو اپنے اور اپنے خاندان کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لئے یہاں کا رخ کرتے ہیں تو ان نوسر بازوں اور ٹھگوں کا  آسان ہدف ہوتے ہیں۔

جنہیں مختلف ذرائع سے پیغامات بھیجے جاتے ہیں کہ فلاں آن لائن ڈپلومہ حاصل کریں یا فلاں ڈگری حاصل کرتے ہی آپ کی زندگی کا چراغ روشن ہوجائے گا۔ اس نت نئی اسکیموں سے کسی شخص کا بھلا ہو یا نا ہو مگر ان دھوکے بازوں کی روزی روٹی اورسیز پاکستانیوں کو بے وقوف بنانے سے ہی جاری و ساری رہتی ہے۔
یہ بات "ہنوز دلی دور است" کے مصداق ہے کہ سرکاری سطح پر ان نوسر بازوں کو کیفرکردار پہنچایا جائے گا لہٰذا پاکستان کے قلم کاروں کو ہی اپنے انداز میں ان نوسربازوں اور ٹھگوں کے ٹولہ سے بچانے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :