انتخابات2018 کا پرامن انعقاد اور آئندہ حکومت کو لاحق مشکلات؟

جمعہ 27 جولائی 2018

Ghulam Nabi Madni

غلام نبی مدنی۔ مکتوبِ مدینہ منورہ

تمام تر شکوک وشبہات اور افواہوں  کے باوجود 25جولائی 2018 کو الحمدللہ کامیابی سے پاکستان میں انتخابات منعقد ہوئے۔پاکستان کے دشمنوں نے انتخابات کو دہشت گردانہ مذموم  کاروائیوں کےذریعے سبوتاژ کرنے کی کوششیں کیں،جن میں  سراج رئیسانی،ہارون بلور اور  اکرام خان گنڈاپور جیسے انتخابی امیدواروں سمیت دیگر 200سے زائد پاکستانی شہری شہید ہوئے۔

الیکشن کے روز بھی کوئٹہ میں پولیس اسٹیشن کے باہر دہشت گردوں نے بزدلانہ حملہ کیا،جس میں5 پولیس اہلکاروں سمیت32افراد شہید ہوگئے۔بدقسمتی سے صوبہ بلوچستان انتخابات  کے دوران دہشت گردانہ کاروائیوں کا زیادہ شکار ہوا۔لیکن بہرحال 25جولائی کو ملک بھر سے عوام نے جوش وجذبے کے ساتھ انتخابات میں شرکت کی۔پولنگ اسٹیشنوں   پر خوشگوار ماحول بنا رہا۔

(جاری ہے)

پاک فوج   نے بھی انتخابات میں اپنے فرائض  احسن انداز میں نبھائے۔الیکشن کمیشن کی طرف سے اس بار انتظامات اگرچہ عمدہ تھے ،لیکن  انتخابات میں پہلی مرتبہ  آر ٹی ایس نئے سسٹم کے تجربے کی وجہ سے نتائج میں تاخیر ہوئی،جس پر  امیدواروں،سیاسی پارٹیوں اور بعض دیگر لوگوں نے اعتراضات کیے ۔ان اعتراضات کی وضاحت  الیکشن کمیشن نے رات  گئے اگرچہ کردی،لیکن  مزید تفتیش کے لیے الیکشن کمیشن کو بھرپور کوششیں کرنی چاہیں تاکہ انتخابی عمل کی شفافیت کو برقراررکھا جاسکے۔


بہرحال انتخابی مرحلہ کامیابی سے منعقدہوگیا۔انتخابات کے نتائج میں تحریک انصاف کو واضح اکثریت ملی،جب کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو دوسری اور تیسری پوزیشن ملی۔پاکستان میں ہمیشہ انتخابات کے نتائج میں ہارنے والے امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں کی طرف سے  دھاندلی  وغیرہ کے الزامات لگائے گئے،مگر عدالت میں آج تک شاید ہی کسی نے ان الزامات کوثابت کیا ہو۔

جب کہ یورپ اور دیگر جمہوری ملکوں میں  ہارنے والے امیدوار عموما اپنی شکست تسلیم کرکے جیتنے والوں کو مبارک باد دیتے ہیں اور ملک کی ترقی و خوشحالی کے نئے سفر پر  جیتنے والوں کے ساتھ مکمل تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔چنانچہ گزشتہ ماہ ترکی میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ترک صدر رجب طیب اردگان کے مدمقابل محرم اینجہ نے  انتخابات میں شکست تسلیم کی اور ترک صدر کے ساتھ مل کر ترکی کی تعمیر وترقی میں کردار ادا کرنے کا عزم کیا۔

دوسری طرف ہمارے ہاں انتخابی نتائج پر ہمیشہ ہارنے والوں کی طرف سے شور مچایا جاتاہے۔شاید اس کی  ایک وجہ ہارنے والے امیدوار اپنی عزت اور ساکھ بچانےکی خاطر اپنے ووٹرز کو دھاندلی کے نام پر جھوٹی تسلیاں دینے کے لیے  انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کرتے۔ایک اور وجہ جو فطرتا انسان میں ودیعت ہے کہ انسان عموما ہار تسلیم نہیں کرتا اور عموما دیکھا گیا ہے کہ اکثر شکست خوردہ ماتم کرتے ہیں  ۔

یہی وجہ ہے کہ حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ ن  اور مجلس عمل وغیرہ کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کا شور مچایا گیا ہے اور نتائج کو نہ تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔حالاں کہ تمام سیاسی پارٹیوں نے مل کر الیکشن اصلاحات کیں،نگران حکومتیں لگائیں،الیکشن کمیشن کے ذمہ دار بھی انہیں سیاسی پارٹیوں کے باہمی مشورے سے لگائے گئے،پھر بھی اعتراضات؟۔

دیکھا جائے تو ہاری ہوئی سیاسی پارٹیوں کے ان شور شرابوں سے ملک کا امیج یقینا متاثر ہوتاہے۔پاکستان کے دشمنوں کی خواہش بھی یہی رہتی ہے کہ کسی طرح پاکستان میں جمہوری عمل کو مضبوط نہ ہونے دیا جائے،عوام اور سیاست دانوں کو باہم گتھم گھتا  رکھا جائے۔دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعے ملک میں بدامنی کی صورت حال برقرار رکھی جائے۔چنانچہ حالیہ انتخابات میں انڈیاسے لے کر امریکا تک جمہوری عمل کو متنازع بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔

امریکی میڈیا نے یہاں تک بھونڈے اعتراضات کیے کہ خواتین کے لیے علیحدہ پولنگ سٹیشنز کیوں بنائے گئے مردو خواتین کو مخلوط کیوں نہ رکھا گیا؟ جب کہ انڈین میڈیا نے روایتی دشمنی اور بغص دکھاتے ہوئے جمہوری عمل کو متاثر کرنے کے لیے پاک فو ج  پر انتخابی عمل متاثر کرنے کے الزامات لگائے۔ان  واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر پاکستان کی تعمیر وترقی کے  لیے متحدہونا چاہیے۔

کیوں کہ ایک طرف پاکستان دہشت گردی کے خلاف مسلسل حالت جنگ میں ہے،دوسری طرف  پاکستان کو دفاعی،معاشی  اور سیاسی طورپر کمزور کرنے کے لیے  اندرونی،بیرونی سازشی مسلسل سازشیں کررہے ہیں۔ان سازشوں اور مسائل سے کیسے نمٹا جاسکتاہے؟یہ وہ سوال ہے جس پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر غور وفکر کرنا چاہیے۔
جہاں تک آئندہ حکومت کی بات ہے  تو اسے یقینا  پاکستان کئی مشکلات میں گھرا ہو ا ملے گا۔

خصوصا دہشت گردی ،گرے لسٹ میں پاکستان کی موجودگی،بیرونی  دنیا سے پاکستان کے تعلقات میں  عدم توازن او ر حددرجے کمزوری،معیشت کی تباہ کن صورت حال،پاکستان پر قرضوں کو خوفناک بوجھ ،مہنگائی،کرپشن، بیروزگاری ،عدل وانصاف کی فوری اور باآسان دستیابی، تعلیم وصحت کی ابتر صورت حال   ایسے کئی مسائل ہیں جن کا آئندہ حکومت کو سامنا کرنا پڑے گا۔

سوال یہ ہے کہ کیا آئندہ حکومت ان مشکلات اور مسائل سے نکل پائے گی ؟انتخابی نتائج  میں تحریک انصاف کی واضح برتری سےلگ یہی رہاہے کہ  آئندہ حکومت تحریک انصاف کی ہوگی ،بلکہ جس وقت یہ سطور آپ پڑھ رہے ہوں  تب  تک  تحریک انصاف   نے شاید حکومت بنانے کا اعلان بھی کردیا ہو۔بہرحال اگران تمام مسائل کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو شاید جواب نفی میں ملے،مگر تحریک انصاف   کے منشور اور عوام سے کیے گئے وعدوں کو دیکھا جائے تو   لگتا یہی ہے کہ تحریک انصاف پاکستان کو ان مشکلات سے نکالنے میں بھرپور کوشش کرے گی۔

ان مشکلات سے  پاکستان کو نکالنے کے لیے تحریک انصاف حکومت کو  ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے اور ایک سال کے اندر ملک کی معاشی صورت حال کو بہتر کرنا ہوگا،جس کے لیے بیرون ملک پاکستان کے لوٹے ہوئے سرمایہ کو واپس پاکستان لانے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے،ملک میں امن وامان بہتر بنانے اور خارجہ تعلقات کومضبوط بنانے کے لیے ماہر تجربہ کار لوگوں کو متحرک کرنا ہوگا۔

بالفرض اگر تحریک انصاف حکومت کے  پہلے سال  یا ڈیڑھ سال میں یہ کام نہ کرسکی  تو ان کے لیے پانچ سال پورے کرنے بہت مشکل ہوگا۔اگر تحریک انصاف نے ماضی کی حکومتوں کی  طرح  اِن مسائل کو حل کیے بغیر کسی نہ کسی طرح پانچ سال پورے کربھی لیے تو آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف  کا حشر  شاید مسلم لیگ ن  اورپیپلزپارٹی کی طرح ہو یا ان سے بھی بدتر ہو۔

اس لیے پاکستان کی تاریخ میں جس طرح انتخابات 2018 سنگ میل کی حییثت رکھتے ہیں کہ ملک  پر عرصہ درازسے حکومت کرنے والے دوخاندانوں کی اجارہ داری ختم ہوئی اور نئی جماعت کو حکومت کرنے کا موقع ملا،وہیں آئندہ حکومت کی ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں،جنہیں بھرپور طریقے سے ادا کرنا بہت ضروری ہے۔دوسری طرف اس بار اپوزیشن کو بھی بھرپور طریقے سے اپنا رول پلے کرنا ہوگا۔

کیوں کہ جمہوریت کا بہترین حسن بہترین اپوزیشن ہے۔لیکن بہترین اپوزیشن تب بنی گی جب اپوزیشن اپنے ذاتی مفادات اور ذاتی عداوت سے ماورا ہوکر ملک کی تعمیر وترقی  کے لیے حکومت پر اپنا دباؤ رکھے،تاکہ جب کبھی حکومت سے ملکی معاملات میں کوتاہی یا غفلت سرزد ہو تو اسے راہ راست پر لانے کے لیے بھرپور جدوجہد کی جاسکی ۔فرینڈلی اپوزیشن کا نقصان پچھلے دو ادوار حکومت میں پاکستانی قوم بھگت چکی ہے کہ کس طرح پاکستانی معیشت کو حکومت اور اپوزیشن نے مل کر قرضوں  اور کرپشن  کےذریعے چونا لگایا۔

اس کے علاوہ عوام کو بھی اپنی آنکھیں اس بار کھلی رکھنا ہوں گی کہ ان  سے کیے گئے وعدے ان کے منتخب نمائندے  پورے کررہے ہیں یا نہیں؟بوقت ضرورت عوام کو عوامی طاقت کا مظاہرہ دکھانے کے لیے خود کوبھرپور طریقے سے تیار رکھنا چاہیے تاکہ  پاکستان کی حفاظت  اور پاکستان میں بسنے والے شہریوں کے حقوق ومسائل کی خاطر حکمرانوں کو قابو میں رکھا جاسکے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :