چن چڑھ گیا

بدھ 22 جولائی 2020

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے اپنا چن ایک مہینہ پہلے چڑھا رکھا تھا لیکن مفتی منیب صاحب نے وہ چن اتار کر اپنا چن چڑھا دیا اور اب بڑی عید یکم اگست کو ہو گی ۔قوم کو پہلے ہی چاند پر کئی اختلافات کا سامنا تھا اب فواد چوہدری کی صورت میں ایک نئی مصیبت سامنے آچکی ہے موصوف کو چھوٹی عید کے ساتھ بڑی عید کا چاند بھی نظر آجاتا ہے جبکہ رویت ہلال کیمٹی کو چاند کی عمر پوری ہو جانے کے بعد بھی نظر نہیں آتا۔

اب قو م اس ساری صورتحال پر تذبذب کا شکار ہے کہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی پھرتیوں پر یقین کرے یا مفتی صاحب کی دوراندیشی پر ایمان رکھے ۔ حکومت کو چاہئے کہ چاند دیکھنے کیلئے کوئی مستقل اور غیر متنازعہ حل نکالے اور ہر سال کی سر درد اور جبر سے قوم کو چھٹکارہ دلائے ۔

(جاری ہے)

یوں تو ہماری ہر گورنمنٹ غریب ہی ہوتی ہے مگر یہ حکومت تو سیاسی طور پر فیصلے کرنے سے بھی قاصر ہے مشیروں کے اثاثے ظاہر کرنے کا فیصلہ خوش آئند ضرور ہے مگر حیران زیادہ ثابت ہوا کیونکہ معاشی طور پر غریب حکومت کے مشیر اربوں پتی نکلے ۔

اب اس پر وزیراعظم ایکشن کب لیتے ہیں اس فیصلے کا قوم کو انتظار ہے کیونکہ وزیراعظم نے سادگی کے بلند و بانگ دعوے کیے تھے اب اگر انکے وزیر مشیر اربوں پتی نکل رہے ہیں تو انکے اپنے دعوے ہوا ہو رہے ہیں ۔ دوسری طرف ہمارے صحافی اور اینکر بھی مان نہیں وہ بھی کروڑوں پتی ہیں وہ صرف اس وقت حکومت کے خلاف لکھتے اور بولتے ہیں جب کوئی حکومت انکو دانہ پانی نہیں ڈالتی ،حال ہی میں اسلام آباد سے ایک صحافی مبینہ طور اٹھائے تو باقی پیٹی بھائیوں نے واویلا شروع کر دیا کہ مقدس گائے نے ہمارا صحافی اٹھا لیا ۔

یہ نظریہ چند نام نہاد صحافی اور اینکروں نے اپنا رکھا ہے کہ جب بھی ان کے ساتھ کوئی ایسا ویسا واقعہ ہو جائے تو تحقیقات سے پہلے ہی اس کاروائی کو مقدس گائے پر ڈال دیتے ہیں ۔ ان صحافیوں اور اینکروں کو شاید الہام ہوتا ہے یا پھر کوئی خواب آجاتا ہے کہ ہمارا پیٹی بھائی فلاں ادارے نے اٹھایا ہے جسے وہ مقدس گائے کا لقب دیتے ہیں ۔حالانکہ ملک میں اگر کوئی مقدس گائے ہے تو وہ صحافی اور اینکر ہیں جن کے جرائم پر انہیں پولیس بھی نہیں پکڑ سکتی کیونکہ صحافی کے ذاتی جرم پر پکڑ پر بھی اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا جاتا ہے ۔

لیکن آج تک آزادی صحافت کی حدیں پتہ نہیں چلی کہ یہ آزادی کس حد تک ہے ۔کیونکہ کئی صحافی آزادی صحافت کی آڑ میں لوگوں کے بیڈروم تک گھس جاتے ہیں اور وہاں کی خبریں بھی بریک کرنے لگتے ہیں ۔جس صحافی کے مبینہ اغواء پر واویلا مچایا جا رہاتھا وہ شام کو ایسے گھر آ گیا جیسے کوئی صبح کا بھولا شام کو گھر آجاتا ہے ،لیکن واویلا کرنے والوں سوال ہے کہ کیا مقدس گائے نے فقط اس کی مہمان نوازی کیلئے اٹھایا تھا جو بغیر کسی حیل و حجت کے واپس بھی کر دیا ؟ کیا وہ صبح کو اٹھا کر شام کو چھوڑ دیتے ہیں ؟ مگر اصل سوال تو یہ ہے کہ کیا وہ کسی کو اٹھاتے ہیں ؟ اگر کسی کے پاس جواب ہے تو دلیل کے ساتھ ثابت بھی کرے ، سارے اینکرز ، صحافی اور مخصوص طبقہ جو ہمیشہ فوج کے خلاف زہر اگلنے کو تیار رہتا ہے ان کے پاس ہر طرح کے ذرائع ہیں وہ کسی بھی پلیٹ فارم کو استعمال کر کے یہ گتھی سلجھا کیوں نہیں دیتے ۔

قو م کے سامنے حقائق رکھ کر یہ ثابت کر دیں کہ مقدس گائے کون ہے اور یہ طبقات انہیں مقدس گائے کیوں اور کس وجہ سے کہتے ہیں ،اگر کسی کے پاس ثبوت اور اخلاقی جرات ہے تو اس ادارے کا نام لے کر حق بیان کرے ورنہ یہ فرضی نظریے پر اداروں برا بھلا کہنا بند کریں اور انہیں اپنا کام کرنے دیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :