اماراتی معاہدہ اور پاکستانی موقف

منگل 18 اگست 2020

Hafiz Waris Ali Rana

حافظ وارث علی رانا

متحدہ عرب امارات نے یہودی سلطنت اسرائیل کو تسلیم کر کے مسلمانوں سے غداری کی ہے ۔ حالانکہ اس سے عربوں کو مسلم دنیا کی قیادت سمجھا جاتا رہا لیکن عربوں کبھی بھی مسلمانوں کیلئے آواز بلند نہیں کی ۔او آئی سی کے نام قائم سے ادارہ فقط نام کی حد تک ہی رہا اس پلیٹ فارم سے کبھی بھی فلیسطین ، کشمیر یا برما کے مسلمانوں پر ظلم کے خلاف عملی اقدامات کرنے کی کوشش نہیں کی ،عملی اقدامات تو درکنار او آئی سی نے کبھی مذمتی بیان دینے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی ۔

اللہ نے عالم اسلام کی جو ذمہ داری عربوں کو سونپی تھی وہ اسے پورا کرنے میں ناکام رہے اب لازمی ہے کہ کوئی اور اسلامی ملک آگے آئے اور مسلمانوں کی قیادت سنبھالے ،اسرائیل کو تسلیم کرنے پر امریکہ تو بہت خوش ہے لیکن اسلامی ممالک میں انتہائی تشویش پائی جاتی ہے ۔

(جاری ہے)

ترک صدر طیب اردگان نے امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا عندیہ بھی دے دیا ہے ، جبکہ پاکستان ابھی تک خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے پاکستان کو بھی سرکاری سطح پر سخت موقف اختیار کرنا چاہئے اور متحدہ عرب امارات کو اس فیصلے پر آڑے ہاتھوں لینا چاہئے لیکن شاید پاکستان کی مجبوری فی الاوقت خاموش رہنا ہی ہے ۔

کیونکہ امارات خصوصاً دبئی میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد روزگار کی خاطر مقیم ہے ، اگر پاکستان فوراً کسی قسم کا سخت ردعمل دیتا ہے تو ان پاکستانیوں کیلئے شدید مشکلات پیدا ہو جائیں گی جو اپنا گھر چھوڑ کر روزگار کی خاطر وہاں قیام کر رہے ہیں ۔ لہذا پاکستان کو عالمی سطح پر اس معاہدے پر اپنا موقف واضح ضرور کرنا چاہئے مگر اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنائے کہ امارات میں موجود پاکستانیوں کیلئے معاشی مشکلات پیدا نہ ہوں ، اس کیلئے پاکستان کو پہلے اقدامات کرنے ہونگے کہ وہاں پر مقیم پاکستانیوں کو اس ساری صورتحال اور سخت ردعمل سے متاثر ہونے سے بچائے ۔

کیونکہ ایک ذمہ دار ریاست سب سے پہلے اپنے شہریوں کے جانی ، مالی اور معاشی نفع و نقصان کے بارے میں سوچتی ہے ۔ بطور ریاست پاکستان کو پہلے اپنے شہریوں کو متبادل ذرائع یا متبادل راستہ دینا چاہئے پھر اس معاہدے پر شدید سخت موقف اختیار کرنا چاہئے کیونکہ اس وقت پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جو ایٹمی قوت کے حامل ہے لہذا پاکستان کا موقف عالمی سطح پر بہت اہم سمجھا جائے گا ۔

عربوں کی بغاوت کے بعد پاکستان ہی وہ واحد ملک رہ جاتا ہے جو عالم اسلام کی قیادت کی طاقت رکھتا ہے پاکستان کو ترکی کے ساتھ مل کر ایک نئے اسلامی بلاک کی تشکیل دینی چاہئے اور سارے اسلامی ممالک کو اکٹھا کر کے عربوں سے جان چھڑا لینی چاہئے کیونکہ وہ یہود کی گود میں جا بیٹھے ہیں اب ان سے مسلمانوں کی قیادت نہیں ہو سکتی ،اہل کفار کو اس وقت صرف دو مسلم قیادتوں سے خطرہ ہے اور وہ طیب اردگان اور عمران خان ہیں لہذا ان دونوں کو مل کر آگے بڑھنا چاہئے ۔

طیب اردگان کی شکل میں ایک نڈر اور بہادر مسلم لیڈر موجود ہے جبکہ عمران خان کے پاس ایٹمی طاقت کے ساتھ دنیا کی بہترین آرمی بھی موجود ہے اور اپنے بے باک لہجے سے جنرل اسمبلی میں ساری دنیا کو آنکھیں دکھا کر آیا اسلام اور مسلمانوں کا مقدمہ پیش کیا ۔ اللہ نے عربوں کو عجمیوں پر فوقیت دی اور انہیں مسلم دنیا کی سربراہی عطا کی لیکن تاریخ گواہ ہے جس نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کی ہو اللہ اس سے قیادت کا حق بھی چھین لیتا ہے ،عربوں کو قیادت دینے کی وجہ اور نسبت کچھ اور تھی لیکن عربوں نے اس کی قدر نہ کی ۔ جس ذمہ داری کو عربی نبھانے میں ناکام رہے اب عجمیوں کو آگے بڑھ کر اس ذمہ داری پورا کرنا ہو گا اور مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوا مقام دوبارہ دلانا ہو گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :