مولانا ڈاکٹرائن

جمعہ 15 نومبر 2019

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

مولانا فضل الرحمن صاحب کا آزادی مارچ 27 اکتوبر 2019 کو کراچی سے براستہ لاہور، اسلام آباد کی جانب رخ کرتا ہے۔کراچی سے لاہور تک مارچ کا مقصد یکجہتی کشمیر ہوتا ہے۔اچانک لاہور آتے ہی حکومت خاص طور پر وزیراعظم عمران خان صاحب کا استعفیٰ مانگا جاتا ہے۔مارچ 31 اکتوبر کی رات اسلام آباد سے ٹکرا جاتا ہے اور مولانا 48 گھنٹوں کا حکومت کو الٹی میٹم بھی دیتے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں مولانا پشاور روڈ سے ڈی چوک کی جانب حرکت نہیں کرتے۔

اگر تجزیاتی طریقے سے بیان  کرنا چاہوں تو کچھ یوں ہوگا کہ مولانا خود اسلام آباد میں اپنے گھر قیام کرتے ہیں اور کارکنان ادھر شاہراہوں پر سخت سردی و بارش کا سامنا کرتے ہیں۔ قائد محترم ملکی اہم اداروں پر بھی الفاظ کے نشتر چلاتے ہیں۔

(جاری ہے)

میڈیا کی توجہ مسلہ کشمیر سے ہٹ جاتی ہے اور آزادی مارچ اہم خبر بن جاتا ہے۔ ادھر ظلم و بربریت کا راج ہوتا ہے تو ادھر مولانا جو 10 سال کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے وہ آج اس کشمیر کاز کو نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔

اسی طرح مولانا کا اصل مقصد اور بننے والی اصل ڈاکٹرائن کے مطابق میاں نواز شریف صاحب کو ملک سے باہر بھیجنا اور ڈیل کروانا تھا۔ذرائع کے مطابق مولانا کو فنڈ بھی ن لیگ ہی فراہم کرتی رہی۔ مولانا کے کارکنان ریس، ہاکی و کرکٹ کھیل سے دل بہلاتے ہیں تو مولانا اپنی کرسی اور میاں صاحب کی جنگ میں مصروف رهتے ہیں۔
جب پریشر حکومت پر جاتا ہے تو عدالت ضمانت تو فراہم کرتی ہے مگر میاں صاحب کو باہر کے ملک جانے اور علاج کے لیے نام ای۔

سی۔ایل سے نکلوانا ہوتا ہے۔ حکومت گیند نیب کے حوالے کرتی ہے مگر چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال بھی سمجھدار ہیں اور عدالتی معاملات کو بہتری سے سمجھتے ہیں اور آپ حکومت کو ہی فیصلہ کرنے کا کہتے ہیں کہ کل ان کا گریبان نا پکڑا جاۓ۔ گزشتہ دو روز سے میاں صاحب کا نام ای۔سی۔ایل سے نکالنے کا مسلہ بنا ہوا ہے ادھر حکومت نام نہیں نکالتی تو ادھر نیب نام نکالنے کا مشورہ نہیں دیتی۔

اس صورت حال میں وزیر اعظم عمران خان صاحب اپنی قانونی ٹیم سے مشاورت کے بعد وفاقی وزیر قانون برسٹر فروخ نسیم اور ذیلی کمیٹی کو اختیارات سونپتے ہیں اور طے ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف صاحب 7 ارب روپے کا بانڈ دے کر چار ہفتوں کے لیے باہر جاسکتے ہیں۔ اس مشروط حکمت عملی پر بھی ن لیگ بانڈ دینے کو تیار نہیں ہے۔حیران کن ہے کہ شہباز شریف ہیں یا حسن و حسین نواز کوئی بھی میاں نواز شریف کے اعلاج کے لیے بانڈ نہیں جمع کروا رہے۔

ادھر ڈاکٹر میاں صاحب کو 24 گھنٹوں میں لندن بھیجنے کا مشورہ دے چکے ہیں۔ایسے میں مولانا فضل الرحمن صاحب اپنا مارچ ختم کرکہ پلان بی کا اعلان فرماتے ہیں۔مولانا صاحب جس طرح جارہے ہیں اور پلان بی میں حکومت کی دھمکی دی ہے کہ ہم پورے ملک کی اہم شاہراہوں کو بند کریں گے خواہ وہ جی۔ٹی روڈ ہے یا موٹروے ہے! جیسا میں نے پچھلے متعدد کالم میں تجزیہ کیا تھا کہ فضل الرحمن صاحب کم و بیش 2 ہفتوں کی تیاری سے آے ہیں ویسے ہی میرا ذاتی تجزیہ ہے کہ مولانا تب تک حکومت کے گلے کی ہڈی بنے رہیں گے جب تک میاں نواز شریف صاحب علاج کے لیے لندن روانہ نہیں ہوتے، رہی بات 7 ارب روپے بانڈ کی تو یہ معاملہ بھی عدالت جاتا نظر آتا ہے اور میاں صاحب کو بڑا رلیف ملتا نظر آتا ہے۔

اسی طرح اور کچھ حاصل ھو نا ھو مگر مولانا اس وقت اپوزیشن لیڈر کے طور ابھرے ہیں اور کے۔پی۔کے کی سیاست میں مولانا کو کافی فائدہ پہنچا ہے۔
دھرنا سیاست کی بات کی جاۓ تو 2013 و 2014 میں عمران خان و ڈاکٹر طاہر القادری بھی حکومت کا استعفیٰ نہیں لے سکے تھے خواہ وہ دھرنا 72 دنوں کا تھا یا پھر 126 دنوں کا مگر وقت کے ساتھ ساتھ حکومت کی ساکھ خراب ہوتی رہی اور بلآخر حکومت کو جانا پڑا۔

اگر پچھلے اور اس دھرنے کا موازنہ کرنا شروع کروں تو پچھلے دھرنا میں اداروں کے حق اور اس میں مخالف نعرے لگے۔پچھلے دھرنا میں پولیس سے تشدد بھی کیا کارکنان زخمی بھی ہوے مگر یہاں کھلی آزادی تھی۔اس دھرنے کو 24/7 کوریج ملی مگر اس کو اتنی کوریج نہیں ملی۔2014 کا دھرنا ضرور پرتشدت تھا مگر یہ دھرنا پرامن تھا مگر طالبان کے جھنڈے لہراے گئے۔اس میں کارکنان 126 دن بیٹھے رہے مگر اس دھرنا میں قائد محترم کو اٹھنا پڑ جاتا ہے۔

دوسری طرف وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب کو صرف یو۔این۔اؤ میں کشمیر پر خطاب کر کہ خاموش نہیں ہونا چاہئیے۔کشمیر پر لاک ڈاؤن کو 102 سے زیادہ دن ہونے کو ہیں اور ہم ادھر سیاسی کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ مولانا کو دشمن کا آلہ کار بننے کی بجاے دنیا کی نظر کشمیر کی جانب مرکوز کروانی چاہئیے نا کہ دھرنے میں افغان طالبان کے جھنڈے لہرا کر ایف۔اے۔ٹی۔ایف میں پاکستان کو بلیک لسٹ کروانے کی کوشش کو فوقیت دینے کی جانب نہیں بڑھنا چاہئیے۔مولانا کو سیاست کے نام پر کشمیر محاذ کو پیچھے نہیں آگے کرنا چاہئیے تاکہ ہر طبقہ سے لوگ آپ کا ساتھ دیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :