کہاں عورت اور کہاں عورت مارچ؟

منگل 10 مارچ 2020

Hassan Bin Sajid

حسان بن ساجد

تخلیق انسانی میں اللہ رب العزت نے انسان کو احسن بنایا۔ مالک کائنات نے جب انسان کو بنایا تو فرشتوں سے کہا کہ اسے سجدہ کرو تب ابلیس کی بغاوت نے اسے شیطان بنا دیا۔ اللہ نے انسان کو زمین پر نا صرف اپنا نائب بنا کر بھیجا بلکہ خاندان و نسل آدم علہ کو چلانے کے لیے اماں حوا کو بھی زمین پر اتارا۔
ظہور اسلام سے قبل بچیوں کی پیدائش پر انہیں زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔

عورت ذات کو نہوست کی علامت سمجھا جاتا تھا اور بیوہ ہونے پر عورت شوہر کے بھائی کی وراثت میں جاتی تھی۔ باپ و شوہر کی جائیداد میں عورت کا کوئی حق نہیں تھا۔ یہ دین اسلام (سلامتی و امن) والے دین کی ہی آمد تھی کہ عورتوں کو زندگی، وراثت، ماں، بہن، بیٹی و بیوی کے حقوق ملے۔ یہ اسلام ہی ہے جو کہتا ہے کہ جب تم کوئی چیز بازار سے لاؤ تو پہلے بیٹی کو دو پھر بیٹوں کو۔

(جاری ہے)

ظہور اسلام ہی ہے جس نے عورت کو مرضی کی شادی و خلع کا حق دیا۔ ہمارے آقا ﷺ اپنی صاحبزادی کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاتے اور اپنی جگہ اپنی صاحبزادی کو عطا فرماتے۔ یہ ہمارا مذہب ہی ہے جس نے بیٹی کو زحمت نہیں رحمت کہا، تو پھر آج چند لبرل عورتیں کس آزادی؟ کس مقام و وقار کی بات کرتی ہیں؟ کس مرضی کی بات کرتی ہیں؟ کیا انکا مقام دین وضع نہیں ہے؟ کیا انکو معاشرہ میں عزت و جائز شناخت حاصل نہیں ہے؟
آج کی اس اکیسیویں صدی میں جس قدر جدت پسندی و ٹیکنالوجی کا رجحان ہے ہر شخص مصروف عمل نظر آتا ہے۔

آج جہاں ہمارے رسم و رواج کو انٹرنیٹ و گلوبلائزیشن نے بدلا ہے وہیں آہستہ آہستہ خاندانی نظام کو بھی تباہ و برباد کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ شرح طلاق میں ہر دہائی میں اضافہ بھی گلوبلائیزیشن کے مرہوں منت ہے۔ پچھلی دہائیوں میں بچے والدین کے خوف سے انکے سامنے ڈرامہ یا فلم نہیں دیکھتے بلکہ چھپ چھپ کر دیکھا کرتے تھے۔لوگ تہجد گزار تھے۔ تعلقات و رشتوں میں الفت تھی مگر آج ماں باپ و بہن بھائی سب بیٹھ کر ڈرامہ و فلم بھی دیکھتے ہیں اور بے حیائی کے کلچر کو بلکل عام کردیا گیا۔

اسکول، کالجز و یونیورسٹیز میں مغربی کلچر عام ہے۔بچیاں ہیں یا بچے کب گھر آتے ہیں؟ کہاں سے آتے ہیں؟ نا والدین کو علم اور نا وہ پوچھ سکتے ہیں۔
 لفظ عورت کی طرف جاؤں تو عورت کا مطلب ہے چھپی ہوئی یا پردے میں رہنے والی چیزہے ۔ بے شک پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور یہاں پردگی اہم حصہ ہے۔ ہمارے ہاں عورت اہم مقام رکھتی ہے، اسکا ایک روپ بیوی کی شکل میں ہے تو ایک روپ ماں کی شکل میں۔

ایک روپ بہن کی شکل میں ہے تو دوسرا روپ بیٹی کی شکل میں ہے۔ ہر روپ کا اپنا مقام و مرتبہ ہے۔ اگر اس میں پردگی کا رنگ آجائے تو حسن میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
 آج یورپ میں مسلمان عورتیں پردے کے لیے رورہی ہیں تو ادھر ایک 30، 40 عورتوں کا ٹولہ ''میرا جسم میری مرضی'' جیسے گھٹیا نعروں کو پروموٹ کررہا ہے۔ ایک خاص طبقہ مغربی ایجنڈا اس ملک پر نافظ کرنے کی کاوش میں ہے۔

آج مغرب میں ماہر عمرانیات خاندان اور خاندانی نظام کو بچانے کی تحقیق کررہے ہیں جوکہ وہاں مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق ٹیکنالوجی و دیگر اثرات کی وجہ سے پاکستان میں شرح طلاق میں اضافہ ہورہا ہے۔مغرب کا یہی ایجنڈا ہے کہ اس ملک میں خاندانی نظام کو تہس نہس کر دیا جائے مگر دین حق کبھی ایسا نہیں ہونے دے گا۔ آج نام نہاد عورت مارچ نے عورت کو بھی شرمندہ کردیا ہے۔

2019 میں عورت مارچ کے نام پر اسلام آباد میں جس قسم کے گھٹیا بینرز، پوسٹرز و کارڈز لاے گئے تھے انکو پڑھ کر عزت دار شخص کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ انہیں فنڈنگ کون کررہا ہے؟ انکے سلوگن و نعروں کا مطلب و خالق کون ہے؟ انکا ایجنڈا کیا ہے؟ یہ وحدت اور یکجا کرنے کی بات کیوں نہیں کرتے؟ یہ کشمیر، فلسطین و بھارت کی مسلمان ماؤں، بہنوں و بیٹیوں کے حق و سپورٹ میں عورت مارچ کیوں نہیں کرتے؟ یہ ان ماؤں بہنوں کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتیں جن کو 17 جون 2014 ماڈل ٹاؤن میں گولیاں مار کر شہید کیا۔

یہ زینب و دیگر بچیوں کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتیں؟
ایک مرتبہ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے دوست نے مجھ سے کہا کہ ہمارے مذہب میں دوپٹہ کرنا یا پردہ کرنا فرض نہیں ہے پھر بھی ہماری عورتیں پاکستان میں دوپٹہ کرتی ہیں جانتے ہو کیوں؟ میں نے کہا؛ نہیں تو مجھے کہنے لگا کیونکہ تمہارے دین میں پردے کا حکم ہے، اس لیے کہ کہیں تم لوگوں کے مرد نا بھٹک جائیں اور معاشرہ بے پردگی کی طرف نا بڑھ جائے۔

 
جس ملک میں مسیحی برادری کی خواتین بھی دوپٹہ لیں وہاں بے حیائی کا کلچر کیسے عام ہوسکتا ہے۔ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ نے منہاج ویمن لیگ کی درخواست پر ''میرا جسم میری مرضی'' والے مارچ میں غیر شرعی اور غیر اخلاقی کارڈز و بینرز بنانے پر پابندی لگادی تھی جو کہ بہترین فیصلہ ہے۔ میری تحریر کا مقصد تھا کہ اس بڑھتے ہوے مرض کا سد باب کیا جائے۔

ایک طرف ایک عورت، عورتوں کی نمائندہ و لیڈر بن گئی ہے تو دوسری طرف ایک خاص مرد و ڈرامہ نگار مردوں کا لیڈر، مسیحا بن چکا ہے۔دونوں نجی چینلز پر جاکر توں تکار کرتے ہیں جوکہ طلبہ و نوجوان قبول کررہے ہیں جس سے معاشرہ تقسیم در تقسیم ہوگا۔ نسلیں پہلے والدین، مذہب سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ اب مزید انہیں تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عالم دین ہیں یا لکھاری، کالم نگار ہیں یا اینکرپرسن، استاد ہے یا والدین سب کا فرض ہے کہ اٹھتے ہوے فتنے کو جڑ سے ختم کرنے کی جدوجہد کی جائے۔

ہمیں اس بڑھتے ہوئے مرض کو ادھر ہی دفن کرنا ہوگا تاکہ معاشرہ بھی قائم رہے اور اسلامی ریاست میں اسلامی اقدار بھی قائم رہیں۔ خواتین کو انکے جائز حقوق ملنے چاہیں اور الحمدللہ ریاست، معاشرہ و دین نے انہیں جائز حقوق دیے بھی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :