غیر جماعتی بلدیاتی الیکشن ایک نیا لالی پاپ

جمعرات 17 اکتوبر 2019

Hussain Jan

حُسین جان

وزیر خارجہ جناب شاہ محمود قریشی صاحب نے اعلان کیا ہے کہ کے پی کے اور پنجاب میں فروری تک بلدیاتی الیکشن کروا دیے جائیں گے اور یہ غیر جماعتی الیکشن ہوں گے۔ شاہ صاحب کو لگتا ہے کراچی کے الیکشن بھول گئے ہیں جو انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑئے تھے اور بری طرح ناکام ہوئے تھا۔ کیا اس وقت ملک میں قومی حکومت چل رہی ہے۔ ویسے خان صاحب نے جتنی جماعتوں کے لوگ اکھٹے کر رکھے ہیں لگتا تو یہی ہے کہ واقعی قومی حکومت ہی ملک کو چلا رہی ہے۔

خیر جب ملک میں ایک سیاسی جماعت حکومت کر رہی ہے تو پھر بلدیاتی الیکشن غیر جماعتی کیوں کروائے جارہے ہیں۔ کسی بھی جماعت کے ورکرز یا کارکنان جب تک سیاسی جماعت سے وابستہ رہتے ہیں اس کی بہتری کے لیے کام کرتے رہتے ہیں۔
خان صاحب ایک جمہوری بندے ہیں ان کے ہر اقدام سے جمہوریت ٹپکنی چاہیے۔

(جاری ہے)

مفاد کی سیاست تو ہر سیاست دان کرتا ہے۔ لیکن ملکی مفاد کی سیاست کرنے والے کو لوگ لیڈر مانتے ہیں۔

آپ دوسرے ممالک میں مصالحت کروا رہے ہیں اور دوسری طرف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کا حق بھی چھین رہے ہیں۔ ایک بات کا اور بھی خیال رکھا جائے کہ بلدیاتی الیکشن صوبے کے تمام علاقوں میں ایک سا ہونا چاہیے ۔ ہمارے ہاں یہ ہوتا ہے کہ کنٹونمنٹ کا علاقہ اپنا الگ آئین بنا کر بیٹھا ہوتا ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہونا چاہیے ۔ طریقہ کار بھی ایک سا ہی ہو۔

اس طرح ملک میں آمریت کا گمان ہوتا ہے۔ لوگ کھلے بندوں کہتے ہیں کہ آرمی کسی سیاسی جماعت کو نہیں مانتی جو اس کا دل کرتا ہے وہی کرتی ہے۔ اسی وجہ سے آج پاکستان آرمی کو پی ٹی ایم کی شکل میں دشمن کا سامنا ہے۔ لہذا ہماری پاک فوج کے ذمہ داران سے بھی درخواست ہے کہ جس طریقہ کار کے الیکشنز کارپویشن کے علاقوں میں ہوں ویسے ہی کنٹونمنٹ علاقوں میں بھی ہونے چاہیے۔

 
 2018کے الیکشن جماعتی الیکشن تھے اور جماعتی الیکشن ہی جمہوریت کا حسن ہوتے ہیں۔ سیاسی سائنسدان تو یہاں تک کہتے ہیں کہ غیر جماعتی الیکشن ووٹروں اور کارکنوں کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ سیاسی ورکرز کسی بھی جماعت کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنی سیاسی جماعت کے لیے رائے عامہ ہموار کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ نا ہوں تو کسی بھی سیاسی جماعت کو اپنا وجود قائم رکھنا مشکل ہوجائے۔

غیر جماعتی یا آزاد الیکشن میں کوئی فرق نہیں۔ یہ ایک طرح سے جان چھڑانے والی بات ہوجاتی ہے۔ فرض کریں الف نا م کا ایک بندہ ہے جس نے اپنی ساری زندگی ایک سیاسی جماعت کے لیے وقف کردی ۔ کیا اس کا حق نہیں کہ وہ کم ازکم اپنی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر بلدیاتی الیکشن ہی لڑسکے۔ یہی صورت حال ب نامی فرد کی لگا لیں اس نے بھی پارٹی کے لیے بہت سا کام کر رکھا ہوتا ہے اور بلدیاتی الیکشن میں ٹکٹ کی آس لگائے بیٹھا ہوتا ہے۔

 
اس موقع پر لیڈرشپ کا پتا چلتا ہے کہ وہ کیسے بیسٹ امیدوار میدان میں اتارتی ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ایک کو ٹکٹ دے دیاجائے تو دوسرا ناراض ہوجاتا ہے ۔ اب یا تو وہ گھر بیٹھ جاتا ہے یا پھر آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیتا ہے اور دونوں صورتوں میں پارٹی کو نقصان ہوتا ہے۔ بات پھر وہی ہے یہیں پر آپ کی آزمائش ہوتی ہے۔ جب آپ الیکشن لڑ رہے ہوتے ہیں تو ہر ایک کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں۔

اور جب کارکنان کی باری آتی ہے تو ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ جس سے ورکرز میں ناامیدی پھیلتی ہے۔ اگر کوئی ورکر پارٹی فیصلے سے مطمئن نہیں تو اسے مطمئن کرنے کا کام کسی بھی بندے کو سونپا جاسکتا ہے۔ اتنے لیڈر تو بھرتی کر رکھے ہوتے ہیں سیاسی جماعتوں نے۔ اس کے باوجود بھی اگر ورکرآزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑنا چاہتا ہے تو اسے پوری اجازت ہو اور یہ اس کا حق بھی ہے۔

لیکن پارٹی صرف اسے ہی سپورٹ کرے جسے ٹکٹ ملا ہو۔ کیا سیاسی جماعتوں میں اتنا دم خم بھی نہیں کہ وہ چھوٹے موٹے فیصلے کر سکیں اور فیصلہ سازی کی قوت موجود نہیں تو کسی بھی سیاسی جماعت کو ملک میں حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اور ایک ایسی سیاسی جماعت جو برسر اقتدارا بھی ہو جسے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا ہوتا بروقت فیصلے لینے ہوتے تو یہ فیصلہ اس کے لیے چیلنچ کیسے بن سکتا ہے۔

 
اب غیر جماعتی الیکشن میں کیا ہوگا ۔ جتنے کارکنان بھی الیکشن میں حصہ لیں گے ان سب کو حمایت کا یقین دلائے جائے گا۔ اگر ایک وارڈ میں دس پارٹی ورکر الیکشن لڑ رہے ہوں گے تو لیڈران یا اس حلقے کے ٹکٹ ہولڈر سب کو کہیں گے فکر مت کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں تم اپنے فلیکس اور بینر میں ہماری تصویر لگا لو۔ اگر دوسرا بندہ پوچھے گا تو ہم کہیں گے اس نے یہ کام اپنی مرضی سے کیا ہے۔

یہی بات ہر بندے سے کہی جائے گی۔ ایسے کام نہیں ہوتا بھائی صاحب جب کارکنان نے آپ کو جنرل الیکشنز میں سپورٹ کی ہے تو ا ب آپ کی باری ہے کہ بردباری سے کام لیتے ہوتے جماعتی الیکشن کروائیں اور اپنے ورکرز کو بھرپور حمایت کے ساتھ ساتھ اچھے امیدواروں کو ٹکٹ دیں۔ 
تمام سیاسی ورکرز کے بارے میں اہل علاقہ کو پتا ہوتا ہے کہ یہ فلاں سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہے۔

اور بلدیاتی الیکشن ہوتے ہی محلے کی سطح پر ہیں۔ اب جب آپ ووٹ لینے جائیں گے تو ووٹرز بھی کنفیوژ ہوجائیں گے کہ اگر اس نے آزاد ہی لڑنا تھا تو پھر اپنی جماعت کو ہم سے ووٹ کیوں ڈلوائے۔ دوسری طرف عالمی سطح پر بھی غیر جماعتی الیکشن کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ غیر جماعتی الیکشن ملک میں انارکی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں جنرل ضیاء صاحب نے غیر جماعتی الیکشن کروائے تھے جس کے نتیجے میں جنیجو صاحب ملک کے وزیر آعظم بنے تھے۔ اور جب ضیاء صاحب کا ان سے د ل بھر گیا تو کھڑئے پیر ان کی وزارت عظمی ان سے چھین لی گی۔ اگر آئین میں غیر جماعتی الیکشن کی چھوٹ موجود بھی ہے تو اسے فی الفور ختم کرنا چاہیے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :