
فوج ،سیاست اور لبرل طبقہ
بدھ 13 نومبر 2019

حُسین جان
بات چیت سے تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ لیکن تنقید مثبت ہونی چاہیے تنقید کی آڑ میں تذلیل کی کسی صورت بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اور ایک بات یاد رکھنے کی ہے ۔ جس سیاسی جماعت کو بھی عوام مسترد کردیتے ہیں۔ وہ سیاسی جماعت فوج کو بدنام کرنا شروع کردیتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فوج کی وجہ سے وہ الیکشن ہارئے ہیں۔ جبکہ ان کو یہ سوچنا چاہیے کہ آخر ہماری کہاں غلطی ہے کہ عوام ہمیں مسترد کررہے ہیں۔ لیکن ایسا سوچنے کی بجائے وہ توپوں کا رُخ فوج کی طرف موڑدیتے ہیں۔اور پھر نام نہاد لبرز بھی ان کے ساتھ مل جاتے ہیں۔
ایک دوست کہ رہا تھا یار کہیں پاکستان کا حال بھی لیبیا،شام، یمن،عراق اور افغانستان جیسا نہ ہوجائے۔ میں نے جواب دیا جب تک تمہاری فوج کا سیاست میں عمل دخل رہے گا تب تک تو تمہارا ملک انتشار کا شکار نہیں ہوسکتا۔
مزئے کی بات ہمارے ہاں لبرز کو ہی فوج سے زیادہ مسائل ہیں۔ لبرلز پوری دُنیا میں بستے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں لبرل کا مطلب غلط لیا جاتا ہے۔ ہمارے دیسی لبرل لبرازم کو صرف نیکر اور بکنی تک محدود سمجھتے ہیں۔ ایک مصیبت اور بھی ہے کہ لبرل حضرات مذہب بیزار لوگ تصور کیے جاتے ہیں۔ اور یہ صرف ہمارے ملک کے لبرلز کے ساتھ ہی مسئلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی لڑکیاں یورپ کی لڑکیوں جیسے لباس پہنیں۔ ویسے بھی پاکستان کے زیادہ تر لبرلز کا تعلق پوش گھرانوں سے ہے۔ تو ان کے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بھائی آپ کسی بھی مارکیٹ میں چلے جائیں آپ کو ہر لڑکی اور عورت مرضی کے لباس میں ملے گی۔ جن کو برقع پہننا ہے وہ برقعے میں نظر آئیں گی۔ جنہوں نے جین اور ہاف سلیو پہننی ہے وہ اسی میں دیکھائی دیں گے۔ کوئی ان کو کچھ نہیں کہے گا۔ باقی رہی بکنی کی تو میری جان یورپ میں بھی عورتیں سرعام بکنی میں نہیں پھرتی بلکہ صرف بیچ یا کلب وغیرہ میں ہی ایسا لباس پہنتی ہیں۔ تو ان صاحبان کے لیے عرض ہے کہ چلیں کسی بھی پوش علاقے کے کلب میں چلے جائیں آپ کو خواتین سوئمینگ کاسٹیوم میں ہی نظر آئیں گی۔ دوسرا کراچی کے بیچ کو جو حصہ اشرافیہ کے لیے مخصوص ہے وہاں بھی بکنی ہی چلتی ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں کبھی کسی کو سختی سے نہیں کہاجاتاکہ تم نماز کیوں نہیں پڑھتے ۔ جس کا دل کرتا ہے وہ مسجد میں جاتا ہے جس کانہیں کرتا کوئی اس کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا ۔ ہمارے ملک کے تو مولوی بھی کسی پر سختی نہیں کرتے۔ ہاں چند ایک شر پسند عناصر تو ہر معاشرئے میں موجود ہوتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ملک میں لوگوں کو کافی حد تک مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اکا دکا واقعیات نیوزی لینڈ جیسے پرامن ملک میں بھی ہوجاتے ہیں۔ جبکہ یورپ اور امریکہ کی تاریخ اور حال تو ایسے حادثات سے بھرئے پڑئے ہیں۔
مڈل ایسٹ کی جو موجودہ صورتحال ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ہی ان کی فوج کا مظبوط نا ہونا ہے۔ جب تک ملک کی فوج مظبوط نہیں ہوگی تب تک امن کی خوائش دیوانے کا خواب ہی رہے گی۔ دشمن ممالک کی سب سے بڑی خوائش ہی یہ ہے کہ پاکستان کی افواج کو کمزور کیا جائے اور اگر ایک بار فوج کمزور ہوگئی تو کسی پھر کسی بھی وقت ملک میں انتشار پھیلایاجاسکتا ہے۔ جن حضرات کو فوج سے کچھ مسئلہ ہے تو ہم نے دیکھا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بیٹھے بات چیت کریں۔ بات چیت سے تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ لیکن تنقید مثبت ہونی چاہیے تنقید کی آڑ میں تذلیل کی کسی صورت بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اور ایک بات یاد رکھنے کی ہے ۔ جس سیاسی جماعت کو بھی عوام مسترد کردیتے ہیں۔ وہ سیاسی جماعت فوج کو بدنام کرنا شروع کردیتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فوج کی وجہ سے وہ الیکشن ہارئے ہیں۔ جبکہ ان کو یہ سوچنا چاہیے کہ آخر ہماری کہاں غلطی ہے کہ عوام ہمیں مسترد کررہے ہیں۔ لیکن ایسا سوچنے کی بچائے وہ توپوں کا رُخ فوج کی طرف موڑدیتے ہیں۔اور پھر نام نہاد لبرز بھی ان کے ساتھ مل جاتے ہیں۔
ایک دوست کہ رہا تھا یار کہیں پاکستان کا حال بھی لیبیا،شام، یمن،عراق اور افغانستان جیسا نہ ہوجائے۔ میں نے جواب دیا جب تک تمہاری فوج کا سیاست میں عمل دخل رہے گا تب تک تو تمہارا ملک انتشار کا شکار نہیں ہوسکتا۔
(جاری ہے)
ایک بات یاد رکھیں فوج تب ہی کمزور ہوتی ہے جب کرپٹ سیاستدان اس کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تو میرے دوست نے کہا یار ترکی نے بھی تو فوج کو بیرکوں تک محدود کردیا ہے۔ تو اس کا جواب بڑا سیدھا سا ہے کہ ترکی کا موجودہ حکمران ایک ایماندار اور سچا لیڈر ہے۔ فوج کو بھی اندازہ ہے طیب اردوان ملک کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لیے کام ک رہا ہے۔ اورویسے بھی اس نے اپنے عوام کا معیار زندگی اتنا بلند کردیا ہے کہ انہیں اپنے لیڈر پر یقین ہے کہ برئے وقت میں ہمارا یہ لیڈرفوج کے ساتھ مل کر دشمن کا مقابلہ کرئے گا۔ بدقسمتی سے پاکستان کو گزشتہ تیس سالوں سے ایماندار قیادت نصیب نہیں ہوئی۔ اب عمران خان کی شکل میں ایک ایماندار سیاستدان ملک پر حکومت کر رہا ہے ۔ اور ہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں فوج حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ اس وجہ صاف ظاہر ہے کہ فوج کو اندازہ ہے کہ اب ملک میں کرپٹ عناصر کی حکومت نہیں۔ یہ جو لوگ ہمیشہ ملکی سیاست میں فوج کے کردار کی نفی کرتے ہیں ان کی سمجھ نہیں آتی کیا وہ فوج کو ملک سے الگ رکھ کر سوچتے ہیں۔ چلیں یہ بات بھی مان لیتے ہیں کہ مارشل لاء لگائے ۔ تو اس کی وجہ بھی سیاستدانوں کا کردار ہی تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ فوج میں سب فرشتے نہیں مگر کچھ لوگوں کی غلطی کے وجہ سے آپ پورئے ادارے کو بدنام کردیتے ہیں ۔کیا فوج کی ملک و قوم کے لیے دی گئی قربانیوں کو نظر انداز کیاجاسکتا ہے۔ اگر کسی کو کچھ تحفظات ہیں تو ملک بیٹھ کر بات چیت کی جاسکتی ہے ۔مزئے کی بات ہمارے ہاں لبرز کو ہی فوج سے زیادہ مسائل ہیں۔ لبرلز پوری دُنیا میں بستے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں لبرل کا مطلب غلط لیا جاتا ہے۔ ہمارے دیسی لبرل لبرازم کو صرف نیکر اور بکنی تک محدود سمجھتے ہیں۔ ایک مصیبت اور بھی ہے کہ لبرل حضرات مذہب بیزار لوگ تصور کیے جاتے ہیں۔ اور یہ صرف ہمارے ملک کے لبرلز کے ساتھ ہی مسئلہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی لڑکیاں یورپ کی لڑکیوں جیسے لباس پہنیں۔ ویسے بھی پاکستان کے زیادہ تر لبرلز کا تعلق پوش گھرانوں سے ہے۔ تو ان کے اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بھائی آپ کسی بھی مارکیٹ میں چلے جائیں آپ کو ہر لڑکی اور عورت مرضی کے لباس میں ملے گی۔ جن کو برقع پہننا ہے وہ برقعے میں نظر آئیں گی۔ جنہوں نے جین اور ہاف سلیو پہننی ہے وہ اسی میں دیکھائی دیں گے۔ کوئی ان کو کچھ نہیں کہے گا۔ باقی رہی بکنی کی تو میری جان یورپ میں بھی عورتیں سرعام بکنی میں نہیں پھرتی بلکہ صرف بیچ یا کلب وغیرہ میں ہی ایسا لباس پہنتی ہیں۔ تو ان صاحبان کے لیے عرض ہے کہ چلیں کسی بھی پوش علاقے کے کلب میں چلے جائیں آپ کو خواتین سوئمینگ کاسٹیوم میں ہی نظر آئیں گی۔ دوسرا کراچی کے بیچ کو جو حصہ اشرافیہ کے لیے مخصوص ہے وہاں بھی بکنی ہی چلتی ہے ۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں کبھی کسی کو سختی سے نہیں کہاجاتاکہ تم نماز کیوں نہیں پڑھتے ۔ جس کا دل کرتا ہے وہ مسجد میں جاتا ہے جس کانہیں کرتا کوئی اس کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا ۔ ہمارے ملک کے تو مولوی بھی کسی پر سختی نہیں کرتے۔ ہاں چند ایک شر پسند عناصر تو ہر معاشرئے میں موجود ہوتے ہیں۔ جبکہ ہمارے ملک میں لوگوں کو کافی حد تک مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اکا دکا واقعیات نیوزی لینڈ جیسے پرامن ملک میں بھی ہوجاتے ہیں۔ جبکہ یورپ اور امریکہ کی تاریخ اور حال تو ایسے حادثات سے بھرئے پڑئے ہیں۔
مڈل ایسٹ کی جو موجودہ صورتحال ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ہی ان کی فوج کا مظبوط نا ہونا ہے۔ جب تک ملک کی فوج مظبوط نہیں ہوگی تب تک امن کی خوائش دیوانے کا خواب ہی رہے گی۔ دشمن ممالک کی سب سے بڑی خوائش ہی یہ ہے کہ پاکستان کی افواج کو کمزور کیا جائے اور اگر ایک بار فوج کمزور ہوگئی تو کسی پھر کسی بھی وقت ملک میں انتشار پھیلایاجاسکتا ہے۔ جن حضرات کو فوج سے کچھ مسئلہ ہے تو ہم نے دیکھا ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بیٹھے بات چیت کریں۔ بات چیت سے تمام مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔ لیکن تنقید مثبت ہونی چاہیے تنقید کی آڑ میں تذلیل کی کسی صورت بھی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اور ایک بات یاد رکھنے کی ہے ۔ جس سیاسی جماعت کو بھی عوام مسترد کردیتے ہیں۔ وہ سیاسی جماعت فوج کو بدنام کرنا شروع کردیتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فوج کی وجہ سے وہ الیکشن ہارئے ہیں۔ جبکہ ان کو یہ سوچنا چاہیے کہ آخر ہماری کہاں غلطی ہے کہ عوام ہمیں مسترد کررہے ہیں۔ لیکن ایسا سوچنے کی بچائے وہ توپوں کا رُخ فوج کی طرف موڑدیتے ہیں۔اور پھر نام نہاد لبرز بھی ان کے ساتھ مل جاتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.