پاکستان میں عوام کی اوقات

جمعرات 21 نومبر 2019

Hussain Jan

حُسین جان

جب عوامی نمائندہ ووٹ کی بجائے روپے خرچ کرکے اسمبلی میں پہنچے گا تو سوچیں کیا وہ کبھی ایسے لوگوں کے لیے کوئی کام کرپائے گا جن کے ووٹ اس نے خریدے ہوں۔ پاکستان دُنیا کا واحد جمہوری ملک ہے جس میں عوام کی اوقات زیرو سے بھی کم۔ کہنے کو جموریت عوام کی حکومت ہوتی ہے جو عوام کے منتخب نمائندوں کے توسط سے عوامی مسائل کا حل ڈھونڈتی ہے۔

ہمارے ملک میں فیصلے ہمیشہ عوامی منشاء کے برعکس کیے گئے۔ بدقسمتی سے ہمیں بتایا یہی جاتا ہے کہ سارے فیصلے عوامی مفاد میں کیے جارہے ہیں۔ مگر ساری دُنیا جانتی ہے کہ ہمارے بڑوں کے فیصلے خالصتاً ذاتی مفاد پر مبنی ہوتے ہیں۔
7اکتوبر 1958کو سکندر مرزا صاحب نے پاکستان کی تاریخ کا پہلا مارشل لاء لگایا۔ تب عوام کو یہی بتایا گیا کہ بیڈ گورننس اور کرپشن کی وجہ سے یہ مارشل لاء لگایا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

اس سے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں شروع سے ہی کرپشن عام تھی۔ یعنی مملکت خداداد کو کرپشن ورثے میں ملی تھی۔ اور یہ کرپٹ کون تھے کسی دوسری دُنیا کے باسی تھے ۔ نہیں جناب یہ ہمارے اپنے سرکردہ لوگ تھے۔ آج بھی کرپشن عروج پر ہے اس ملک میں اور آج بھی پاکستانی ہی کرپشن کر رہے پاکستان میں ہی کر رہے لیکن پاکستانیوں کے لیے نہیں بلکہ اپنے بال بچوں کے لیے کر رہے۔


پھر جنرل ایوب صاحب نے بھی مارشل لاء لگا دیا۔ عوام کو ایک دفعہ پھر یہی کہا گیا کہ یہ مارشل لاء آپ کے مفاد میں لگایا گیا ہے۔ ایوب صاحب نے عوام کو بتایا کہ اگر میں حکومت کی بھاگ دوڑ نا سمبھالتا تو انڈیا نے ہمارے ملک پر قبضہ کر لینا تھا۔ یعنی عوام سے ایک اور جھوٹ بولا گیا۔ مزئے کی بات یہ جھوٹ بھی عوام نے خوشی خوشی قبول کرلیا اسی سے اس عوام کی ذہنی پسماندگی کا اندازہ لگا لیں۔

آج کل ایران میں پٹرول کی قیمتوں کو لے کر شدید احتجاج ہو رہا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب تک 110لوگ اس احتجاج کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ ہوتی ہے عوام جیسے ہی اس عوام کو لگا کہ ان کی مرضی کے خلاف فیصلہ کیا جارہا ہے انہوں نے حکومت کے خلاف ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ہماری قوم سو جوتے کھا کر بھی نعرئے لگانے سے باز نہیں آتی۔ ویسے بھی ہمارے ایک استاد محترم نے فرمایا تھا بیٹا برصغیر کے خمیر میں انقلاب نام کی کوئی چیز نہیں۔


ضیاء کے دور حکومت کو دیکھ لیں، اس کے بعد بے نظیر مرحومہ اور نواز شریف کا دور حکومت دیکھیں ایسے ایسے فیصلے کیے گئے جو قعتا عوامی مفاد میں نہیں تھے۔ مگر مجال ہے جو اس ملک کے عوام نے تھوڑا سا بھی احتجاج کیا ہو۔ ہمارے ہاں احتجاج ہمیشہ سیاسی جماعتیں ہی کرتی ہیں مگر وہ بھی صرف حکومتی جماعت کو کمزور کرنے کے لیے ۔ اس کی حالیہ مثال مولانا فضل الرحمان صاحب کا دھرنا ہے۔

ان کا مقصد صرف عمران خان صاحب سے استفیٰ لینا تھا۔ اور کچھ نہیں۔ پورئے دھرنے میں انہوں نے ایک بات بھی عوامی مفاد میں نہیں کی۔ اور آخر میں اُن کو خالی ہاتھ واپس جانا پڑا۔
جنرل مشرف نے پاکستان پر ایک ایسا وزیرآعظم مسلط کردیا جس کے پاس شائد پاکستان کا شناختی کارڈتک بھی نہیں تھا۔ وہ چار پانچ سال حکومت کرکے اچھا خاصا ملک کو چونا لگا کر پھر فرار ہوگیا۔

کیا آج تک کسی نے اس شخص کا پیچھا کرنے کی کوشش کی۔ ہاں مشرف کے خلاف مقدمات ضرور بنائے گئے۔ اور اب تو عدالت عالیا نے ان کے کیس کا فیصلہ بھی محفوظ کرلیا ہے۔ لیکن کیا فائدہ فیصلہ بھلے ان کے خلاف آئے مگر اُن کو کیا فرق پڑئے گا وہ کون سا پاکستان میں موجود ہیں۔ کل کو حالات سازگار ہو جائیں گے تو وہ بھی میاں محمد نواز شریف اور بے نظیر کی طرح واپس آجائیں گے۔

لیکن شوکت عزیر کو آج تک کسی نے نہیں پوچھا کیا ہماری ریاست اتنی کمزور ہے کہ قومی مجرموں کے واپس نہیں لاسکتی۔ الطاف حسین نے ہمارے روشنیوں کے شہر کوخون کی ندی بنا دیا مگر وہ آج بھی آرام سے باہر بیٹھا ہمارے ملک کے خلاف بیان دے رہا ہے۔ بہت سے لوگوں کو افواج پاکستان سے بھی شکایات ہیں۔ افواج کو ان کی شکایات کا بھی ازالہ کرنا چاہیے اور ان شکایات کا جو ملک مخالف نا ہوں۔


بات صرف عوام پر آکر ختم ہوتی ہے جب تک عوام میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا شعور نہیں آتا تب تک حکمران من مانیاں کرتے رہیں گے۔ ایک پلیٹ بریانی پر جب ووٹ کاسٹ کیا جائے گا تو حکمران بھی کھانے والے ہی آئیں گے۔ عوام کو اپنے فیصلے خود کرنے کی طاقت پیدا کرنا ہوگی۔ ورنہ جیسے ہماری گزشتہ نسلیں گزر گئی ہیں ہم بھی لگے جائیں گے اور آنے والی نسل کا مستقبل بھی تاریک ہوگا۔

لہذا ہمیں چاہیے کہ ہر فیصلے پر نظر رکھیں اور پھر اس پر اپنا ردعمل دیں۔ اگر فیصلہ اچھا ہو تو شاباشی دیں اور اگر فیصلہ ملکی یا عوامی مفاد کے منافی ہو تو شدید احتجاج کریں۔
عمران خان سے عوام کی بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ لوگوں نے تبدیلی کے نام پر ان کو ووٹ دیا تھا۔ اور لوگ اب چاہتے ہیں کہ ان کے دریرنا مسائل حل ہوں۔ عمران خان کو سب سے پہلے تو بیوروکریسی کو نکیل ڈالنی ہوگی۔

کیونکہ ملک کی بربادی میں سب سے بڑا ہاتھ انہی لوگوں کا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آج ہمارے ملک میں مہنگائی کی شرح چیک کریں عام آدمی کی زندگی کافی مشکل ہو چکی ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ حکمران چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ لیکن سخت اقدامات ابھی تک نہیں اُٹھائے جارہے۔ حکمرانوں کویہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ مہنگائی سے عوامی حمایت کم ہوتی ہے۔ بے روزگاری اور اس جیسے دیگر مسائل کو جلد ازجلد حل کرنا ہوگا۔ اسی سے ملک ترقی کی طرف گامزن ہوسکتا ہے۔ ورنہ پاکستان کی ترقی دیوانے کا خواب بن کر راہ جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :