پی ڈی ایم نظریات کا ٹکراؤ

جمعہ 4 دسمبر 2020

Hussain Jan

حُسین جان

وہ آپ نے ایک کہاوت سنی ہوگی کھسیانی بلی کھمبہ نوچے تو آج کل یہی حال ہمارے ملک میں اپوزیشن میں موجود سیاسی جماعتوں کا ہورہا ہے۔ جب کوئی سیاسی جماعت بنائی جاتی ہے تو سب سے پہلے اس کا سیاسی منشور اور نظریہ ترتیب دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد باقاعدہ سیاست کا آغاز ہوجاتا ہے۔ سیاسی جماعت اپنے نظریے اور منشور کو لے کر آگے بڑھتی ہے۔

اس سیاسی جماعت کے راہنما اور کارکنان اس نظریے یا نعرے کی ترویع کے لیے دن رات محنت کرتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو بتائیں کہ ہمارا منشور اور نظریہ ملک کے لیے کتنا اہم ہے۔ یہ لوگوں کی بھلائی کے لیے۔ ملک کی ترقی اسی میں چھپی ہوئی ہے۔ اس کی مثال ہم یوں لے لیتے ہیں کہ پاکستان کے سابقہ کھلاڑی اور موجودہ وزیر آعظم صاحب جناب عمران خان نے ایک سیاسی جماعت بنائی، تبدیلی کا نعرہ ،انصاف اور احتساب کا نظریہ پیش کیا۔

(جاری ہے)

وہ اور ان کی سیاسی جماعت اس نظریے کو لے کر چلتے رہے اور اب ان کی سیاسی جماعت برسر اقتدار ہے۔ یعنی ہم کہ سکتے ہیں کہ نظریے پر اگر آپ نے سمجھوتا کر لیا تو آپ سیاسی موت مر جاتے ہیں۔
اب آتے ہیں ملک میں موجودہ اپوزیشن کی طرف۔ اپوزیشن نے حکومت کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کررکھا ہے۔ اس تحریک میں کم و پیش گیارہ سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ اس تحریک کا نام پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ رکھا گیا ہے۔

مزئے کی بات تو یہ ہے کہ اس میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کا نظریہ ایک دوسرئے سے مختلف ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی دائیں بازو کی جماعت ہے۔ اس کا منشور ملک کو لبرل بنانے کے ساتھ ساتھ بہت سے ایسے کام کرنا ہے جن کا تعلق مغربی ممالک سے ہے۔ دوسری طرف دیکھیں تو پاکستان مسلم لیگ ن خود کو بائیں بازو کی جماعت گردانتی ہے۔ اس کا منشور ملک کو مذہب کے ساتھ ساتھ لبرل بنانابھی ہے۔

اب آتے ہیں جناب مولانا فضل الرحمن صاحب کی طرف ان کا تعلق ایک ایسی سیاسی جماعت سے ہے جو ملک میں اسلامی نظام لانا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پی ڈی ایم میں جو دیگر سیاسی جماعتیں ہیں ان سب کا منشور بھی ایک دوسرئے سے الگ الگ ہے مگر ذاتی مفاد کے لیے ایک پلیٹ فارم پر اکھٹی ہوچکی ہے۔
تو کیا یہ نظریات کا ٹکراؤ نہیں وہی لوگ جو کل کو ایک دوسرئے کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتے ہیں آج کل ایک ساتھ نظر آرہے ہیں۔

اور ایک بات مزید یاد رکھنے کی ہے کہ جیسے ہی ان میں تھوڑا سا کھنچاؤ پیدا ہوا انہوں نے ایک دوسرئے کے خلاف بھی محاز کھول دینا ہے۔ پاکستان نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ کرونا کی دوسری لہر کافی شدید ہے۔ مریضوں کی تعداد بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں پی ڈی ایم کی طرف سے جلسے جلسوں کی بھرمار صورتحال کو مزید خطرناک کرسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ سوچنے کی بھی ضرورت ہے کہ آخر برسراقتدار پارٹی کے خلاف یہ محاز کیوں کھولا گیا ہے۔

کیا یہ محاز عوامی مفاد میں ہے یا ذاتی۔ اس کا جواب ہم چند باتوں سے اخذکرسکتے ہیں۔ اس وقت پی ڈی ایم میں تین سیاسی جماعتیں زیادہ متحرک ہیں۔یعنی مولانا صاحب کی جے یو ایف، زرداری صاحب کی پی پی پی اور نواز صاحب صاحب کی ن لیگ۔ اس تحریک کا سربراہ مولانا صاحب کو بنایا گیا ہے۔ اور مولانا صاحب عمران خان کے خلاف کافی سخت الفاظ کا استعمال بھی کرتے ہیں۔

بات یہ ہے کہ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مولانا صاحب کسی نا کسی سیٹ پر نا بیٹھے ہوں مگر عوام نے دوہزار اٹھارہ کے الیکشنز میں ان کو مسترد کردیا۔ اب ہونا تو یہ چاہئے کہ مولانا عوا م کو برا بھلا کہیں کیونکہ انہوں نے ہی مولانا کو ووٹ نہیں دیئے۔ جبکہ ہو یہ رہا ہے کہ مولانا عوام کی بجائے لٹھ لے کر عمران خان صاحب کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔

کشمیر کمیٹی کی سربراہی ایک عرصے تک مولانا صاحب کے پاس رہی ہے مگر وہ آج تک کوئی بہتر کام نہیں کرسکے۔ اب جب ان کے پاس وہ پروٹوکول نہیں رہا جس کے وہ متمہنی تھے تو وہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف اٹھ کھڑئے ہوئے ہیں۔
اب آتے ہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف جو ہمیشہ خود کو سوشلزم کی پیروکار تصور کرتی رہی ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے سندھ کی بھاگ دوڑ بھی ان کے پاس ہے۔

اس کے باواجود سندھ کی حالت دن بدن بدتر ہوتی جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی ایک صوبائی جماعت بن کر راہ گئی ہے۔ زرداری صاحب پر نیب میں کئی کیس چل رہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان کو کوئی ریلیف نہیں دیا جارہا ہے۔ لہذا انہوں نے یہی سوچا کے جو حکومت ہمیں ریلیف نا دے اس کے خلاف تحریک کا حصہ بن جائیں۔ یعنی یہ بھی ہمیں سراسر زاتی مفاد کا شاخسانہ دیکھائی دے رہا ہے۔


پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ جناب نواز شریف صاحب کو پانامہ کیس کی پاداش میں وزارت اعظمی سے ہاتھ دھونا پڑئے۔ جبکہ حکومت پھر بھی ان کی جماعت کے پاس ہی رہی۔ انہوں نے مجھے کیوں نکالا کا نعرہ لگایا اور عوام کو حکومت کے خلاف کرنے کی کوششوں میں لگ گئے۔
آپ لوگ دیکھ رہے ہوں گے کہ سیاسی جماعتوں کے لیڈرز تو کونے کھدروں میں گھس گئے ہیں اور اپنے بچوں کو آئے کر دیا ہے۔

تو کیا یہ اس ملک کو اپنی اگلی نسل کا غلام بنانا چاہتے ہیں۔ کیا یہ لوگ پیڑی در پیٹری اس ملک پر راج کرنا چاہتے ہیں۔ یقینا اب ایسا ممکن نہیں کیونکہ پاکستان لوگ آہستہ آہستہ باشعور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ تو کہنے کی بات یہ ہے پی ڈی ایم کی تحریک زاتی مفاد پر مبنی ہے اس میں ہمیں کہیں عوامی مفاد نظر نہیں آتا۔ دوسرا تمام سیاسی جماعتیں اپنا اپنا نظریہ ایک طرف رکھ چکی ہیں اور زاتی مفاد کے لیے اکھٹی ہوچکی ہے۔ اس سے ملک کا کچھ بھلا نہیں ہوگا بلکہ اس سے انتشار پھیلے گا اور یہ ملک اب کسی بھی انتشار کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اسے سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔ لہذا پی ڈی ایم کو فورا اپنی تحریک کو روکنا چاہئے اور حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر معاملات کو سلجھانا چاہئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :