“شیخ جراح صیہونیت کی زد میں اور بین الاقوامی خاموشی”

جمعرات 6 مئی 2021

Imran Khan Shinwari

عمران خان شنواری

مقبوضہ مشرقی یروشلم کے علاقے شیخ جرٌاح میں اسرائیلی سپریم کورٹ کی جانب سے لئے گئے فیصلے کے تحت وہاں کی مقامی فلسطینی آبادی کو پہلے جبراً ان کے گھروں سے نکالنا اور پھر ان کا مذاق بناکر انہیں ہراساں کرنا کوئی پہلا واقعہ نہیں جو وہاں فلسطینیوں کے خلاف ہوا ہو بلکہ یہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور ان کی دائیں بازوں کی صیہونی نظریات رکھنے والی جماعت لیکود کا 1973 سے یہی طریقہ رہا ہے کہ یہودی نوجوانوں کو بنیاد پرستی کی جانب راغب کیا جائے۔


 لیکود جماعت دراصل 1973 میں ترمیم پسند صیہونی (Revisionist Zoinism) نظریہ کے بانی میناچیم بیگن نے اسرائیل کی دائیں بازوں کی جماعتوں کو ایک ہی جماعت میں ضم کرکے قائم کی تھی جن کا نظریہ صیہونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل کے نظرے سے بھی خاصہ مختلف اور سخت گیر تھا۔

(جاری ہے)

یہ چاہتے تھے کہ اسرائیل کے اردگرد عرب ممالک پر قبضہ کرکے وہاں ریڈیکل طریقے سے مقامی آبادیوں کو نکال کر وہاں یہودی آبادکاریا کی جائے۔

اس کی قریبی مثال یہ ہے کہ بنیامین نیتن یاہوں نے بھی اپنے انتخابی منشور میں شام سے قبضہ کیئے گئے گولان ہائیٹس باقاعدہ اسرائیل کا حصہ بنانے کا وعدہ کیا تھا جبکہ شیخ جرٌٕاح اس کی تازہ مثال ہے۔
شیخ جرٌاح جو کہ بین الاقوامی قوانین کی رو سے مقبوضہ علاقے میں آتا ہے یہ مشرقی یروشلم میں شامل ہے جسے 1949 میں اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں آرمسٹس معاہدے ( Armistice Agreement)  کے ذریعے اسرائیل نے خود فلسطین کا حصہ تسلیم کرلیا تھا اور اس بات پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ اسرائیل آرمسٹس ایگریمنٹ کے تحت جو گرین لائن ان دونوں فریقین ریاستوں کے درمیان بچھائی تھی اس کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔

مگر 1967 کی اسرائیل عرب جنگ کے دوران پہلے اردن اور پھر اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کرلیا تھا۔ لہذا ان تاریخی قانونی حقائق کی بنیاد پر کسی طور سے بھی یہاں اسرائیلی عدالتِ عظمیٰ کے قوانین لاگو نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ جس تنظیم نے سپریم کورٹ کے ذریعے اپنے حق میں فیصلہ کروایا اس تنظیم کو امریکہ کی جانب سے فنڈنگ ہونے کا بھی الزام لگایا گیا ہے جبکہ امریکہ برطانیہ اور فرانس نے ہی 1950 میں سہ ملکی ڈیکلریشن (Tripartite Declaration 1950) پر دستخط کرکے اس بات کا عہد کیا تھا کہ یہ تینوں ممالک اسرائیل یا فلسطین میں سے کسی کو بھی آرمسٹس ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کرنے نہیں دیں گے مگر آج امریکہ ہی سب سے آگے پیش پیش ہے اسرائیل کی غیر قانونی سرگرمیوں کی حمایت میں۔

جبکہ دیگر یورپی ممالک جو مسلمان ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تو خوب سیخ پا ہوتے ہیں اب سب نے بھی چپ کا روزہ سادھ لیا ہے۔ دوسری جانب متحدہ عرب عمارات اور بحرین جنہوں نے ابراہیم اکورڈ  )Abraham Achord) پر دستخط کرکے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا جواز ہی یہی پیش کیا تھا کہ وہ فلسطین کے مسئلے پر اسرائیل سے بات کریں گے وہ بھی اب خاموش ہیں جو بین الاقوامی برادری اور بالخصوص مسلمان برادری کی بے حسی کو عیاں کرتی ہے۔


اب جبکہ شیخ جرٌاح کے مکینوں کو بین الاقوامی برادری سے کوئی امید نہیں تو انہیں چاہیے کہ اسرائیل کے لبرل اور ترقی پسند طبقے سے اتحاد قائم کرکے صیہونیوں کی بربریت کا مقابلہ کرے۔ اس امر میں وہ اسرائیل کی لبرل پارٹی جنہیں میراو میکائیلی لیڈ کر رہی ہیں ان سے تعلقات قائم کرکے بہترین حکمتِ عملی بنا سکتے ہیں۔چونکہ لبرل پارٹی کا منشور ہی دو ریاستی حل نکال کر فلسطین کے ساتھ دیرپا امن قائم کرنا ہے اور انکا اسرائیل میں ووٹ بینک بھی خاصہ بڑا ہے لہذا فلسطینی ان آزاد خیال یہودیوں کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پر مظاہرے اود جلسوں کے ذریعے صیہونیوں پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ بین الاقوامی سطح پر بھی یہ تاثر جائے گا کہ اسرائیلی خود بھی اپنی صیہونی حکومت سے بیزار ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :