"فرانس میں بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی اور اس کے دنیا پر اثرات"

منگل 11 مئی 2021

Imran Khan Shinwari

عمران خان شنواری

فرانس میں آج کل انتہائی دائیں بازوں سے تعلق رکھنے والی سیاستدان مارین لا پین کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو اگر اقتدار میں آجاتی ہیں تو اس کے دنیا پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ فرانسیسی صدر امانوئل مکخوان جنہیں نسبتاً اعتدال پسند سیاستدان سمجھا جاتا تھا اب انہیں دنیا اور بالخصوص مسلمان ممالک میں دائیں بازوں کا سیاستدان تصور کیا جاتا ہے جبکہ حقیقتاً وہ اپنے ملک میں اسلامائزیشن کے روکنے اور مسلمانوں کے خلاف کاروائی کرنے کے لئے بنیاد پرستوں کی جانب سے شدید دباؤ کا شکار ہیں ۔

حالات اسقدر سنگین ہوچکے کہ فرانس کے ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی جرنیلوں نے مکخوان کا تختہ الٹ کر بغاوت تک کی دھمکی دے دی اور ان جرنیلوں کو مارین لا پین کی مکمل حمایت حاصل تھی جن کا تعلق نیشنل پارٹی سے ہے۔

(جاری ہے)

لا پین ہی وہی سیاستدان ہے جو سابقہ صدارتی انتخابات میں 33 فیصد ووٹوں کے ساتھ فرانس کی دوسری مقبول ترین سیاستدان بن چکی تھی ۔ ان حالات کو دیکھ کر اب مکخوان نے بھی مسلمانوں کو نشانہ بناکر لا پین کو کاؤنٹر کرنے کا طریقہ اختیار کرلیا ہے تاکہ اسے 2022 کے انتخابات میں جیتنے سے روکا جاسکے۔


فرانسیسی عوام میں بنیاد پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان دراصل یورپین یونین کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ جنگ عظیم دوئم سے قبل ایڈولف ہٹلر نے بھی اسی طرح یہودی اور غیر کاکیشائی نسل کے لوگوں کے خلاف نفرت کا پرچار کرکے فہرور کی کرسی تک رسائی حاصل کی تھی۔ اس کے برعکس لا پین میں مسلمانوں سے نفرت کے علامات زیادہ ہیں۔ ہٹلر نے تو اول میں یہودیوں پر کھل کر تنقید نہیں کی تھی جب نازی پارٹی 1928 میں صرف 2.6 فیصد ووٹ لے سکی تھی۔

اس نے بتدریج جرمنوں کے دماغ می زہر بھرا اور بالآخر یہودیوں کے خلاف ہٹلر کا زہر 1932 کے انتخابات میں سامنے آیا جب وہ ایک بڑی جیت کے ساتھ جرمنی پر مسلط ہوا۔
دنیا پر اس کے اثرات کی بات کریں تو یہ بات واضح ہے کہ لا پین کاکیشائی نسل سے تعلق رکھنے والے فرانسیسیوں کے علاؤہ کسی اور طبقے کے بارے میں مثبت رائے نہیں رکھتی۔ انہوں نے تو ایک مرتبہ یہ بیان تک دے دیا تھا کہ سکھوں کو عوامی مقامات پر تربان پہننے کی اجازت نا دی جائے۔

اقتدار میں آتے ہی وہ دیگر اقوام سے تعلق رکھنے والے افراد کے فرانس آنے پر پابندی عائد کریں گی بالکل ویسے ہی جیسے ٹرمپ نے مخصوص ممالک کے شہریوں کا امریکہ میں داخلے پر سفری پابندی عائد کی تھی۔ اس کے علاوہ لاپین کا اقتدار میں آنے سے دیگر یورپین ممالک میں بھی انتہاپسند جماعتوں کی جانب ووٹنگ رجحان بڑھے گا۔ مسلم ممالک میں بھی بنیاد پرستانہ سیاست کی حمایت میں اضافہ ہوگا جو پاکستان میں ٹی ایل پی کی اچانک بڑھتی ہوئی مقبولیت سے پہلے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اسی طرح ترکی میں اردوگان نے اسلام پرست اور عثمانیہ سلطنت کا کھویا ہوا وقار واپس قائم کرنے کے وعدے کرکے اور یورپ مخالف نعرے لگاکر اپنی مقبولیت میں اضافہ کیا جس کا ثبوت حال ہی میں اردوگان کا آیا صوفیا کتھیڈرل کو مسجد میں تبدیل کرنے کا اعلان کرنا ہے۔ دوسری جانب لاپین کی انتہائی مسلمان مخالف پالیساں مسلم اور مغربی دنیا کے درمیان مزید فاصلے پیدا کردے گی اور ممکن ہے کہ او آئی سی بھی اس کے خلاف کھل کر سامنے آجائے گا کیونکہ اب مسلم دنیا کی دو بڑی طاقتیں ایران اور سعودی عرب امریکہ یا یورپ نہیں بلکہ چین کے اثرورسوخ میں آچکی ہیں۔

مختصر یہ کہ سیموئل پی ہنٹنگٹن کی سب پیشینگوئیاں اب ایک ایک کر کے حقیقت ثابت ہورہی ہیں جو انہوں نے سرد جنگ کے بعد قائم ہونے والی دنیا کے بارے میں اپنی کتاب "کلیش آف سویلائزیشنز" میں بیان کی تھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :