محبت و عزت اور تعریف و توصیف

منگل 26 مئی 2020

Javed Ali

جاوید علی

ہمارے معاشرے میں کچھ لوگوں کو دوسروں کی عزت کرنا, تعریف کرنا اور شکریہ ادا کرنے کی دولت نصیب ہے وہ اس پر بہت خوش ہیں- بدقسمتی سے اسی معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں یہ دولت نصیب نہیں ہے- یہ دوسروں کی عزت و تکریم کرنے میں تھوڑا سا ہچکچاتے ہیں لیکن ان میں مطلب نکالنے کے لیے خوشامد کرنے کا کلچر عام ہے- اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگوں کی اہمیت کو سمجھتے نہیں یا پھر اگنور کرتے ہیں- ہمارا دوسروں کو اس معاملے میں اگنور کرنا بہت بری بات ہے لیکن ہم ایسا کرتے ہیں پتہ نہیں ہم دوسروں کو انسان نہیں سمجھتے یا کیا بات ہے-
ہمارے معاشرے کی بہت سی اقدار ایسی ہیں جو ہندو کلچر پر بیس کرتی ہیں ذات پات کا نظام جس سے ہم ابھی تک جان چھڑوا نہیں سکے- ہمیں کسی بھی طریقہ سے ان بری روایات سے جان چڑوانا ہے جو اونچ نیچ کی بنیاد بنتی ہیں- اگر ہم دوسروں کی عزت کرنا سیکھ لیں تو بہت سی برائیوں سے ہم بچ سکتے ہیں- ہمارا حال یہ ہے کہ پاک فوج کو سلام پیش کرتے ہیں ہمیں بلکل ایسا کرنا چاہیے بہت اچھی بات ہے کیونکہ وہ ہمارے محافظ ہیں لیکن ہمیں اپنی پولیس کو بھی سلام کرنا چاہیے کیونکہ وہ بھی ہمارے محافظ ہیں- ہم اس کی برعکس انہیں گالی دیتے ہیں کہ پولیس کرپٹ ہے وہ ہے یہ ہے ایسا نہیں کرنا چاہیے بلکہ انہیں بھی وہی عزت دینی چاہیے جو ہم پاک فوج کو دیتے ہیں- 
یہ وہ لوگ ہیں جو بہت کم تنخواہ لے کر بھی ہماری سیکورٹی کرتے ہیں کوئی جلوس ہو, کوئی محفل ہو, کوئی مجلس ہو یا پھر کوئی عوامی اجتماع ہو پولیس وہاں پر محافظ بن کر کھڑی ہے کوئی حادثہ ہو یا چوری, ڈکیٹی ہو, دن ہو یا رات یہ لوگ حاضر ہیں- ملک کے اندر ہر قسم کی سیکورٹی مہیا کرتے ہیں ہمارے جان و مال کی حفاظت کرتے ہیں- ہم انہیں حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں تو انہیں بھی اس سے تکلیف ہوتی ہے ہم نے پولیس اور اپنے درمیان اپک گیپ پیدا کر لیا ہوا ہے ہمیں اس خلاء کو فل کرنے کی ضرورت ہے-
 ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ایک سپاہی جو روڈ پر ہماری حفاظت کے لیے کھڑا ہے کہ اسے صبح سرکاری گاڑی اتار جاتی ہے اور واپس لینے نہیں آتی- اس دوران کیا انہوں نے پانی پیا اور کھانا کھایا ہے پیاس اور بھوک تو ان کو بھی لگتی ہے آخر وہ بھی انسان ہیں- وہ بھی تھک جاتے ہیں ڈیوٹی کرتے ہوئے لیکن ہم نے کبھی اس پر غور ہی نہیں کیا- ان کا بھی دل چاہتا ہے کہ عید وہ بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ منائیں اپنے بچوں کو ساتھ عید منائیں- انہیں ہنستا مسکراتا اور کھیلتا دیکھیں لیکن ہماری سیکورٹی کی خاطر اکثر وہ عید گھر نہیں منا سکتے- ہم عید پڑھ رہے ہیں, جمعہ پڑھ ہیں یا کرسمس منا رہے ہیں وہ دروازہ پر کھڑے ہیں ہم جب مسجد, مندر یا گرجا گھر سے باہر نکلتے ہیں۔

(جاری ہے)

عزیزوں اور دوستوں کو گلے ملتے ہیں کبھی ان سے گلے ملے ہیں یقینا نہیں ملے ہوں گے-
 ہم نے کبھی ان لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کیا جبکہ وہ جان کی بازی لگا کر ہماری جان بچاتے ہیں- اشفاق احمد زوایہ میں لکھتے ہیں کہ اگر ہم ان کو عزت دیں یہ کرپشن نہیں کریں گے- آجکل عزت کا میرٹ تبدیل کر دیا گیا ہے لوگوں کا معیار کام, قابلیت اور امانتداری نہیں رہا بلکہ دولت عزت کا میعار بن چکی ہے سو وہ غیر قانونی طریقہ سے دولت حاصل کر کے عزت خریدتے ہیں جب ان کے پاس اچھی گاڑی, برانڈڈ لباس زیب تن کیا ہو اور ہاتھ میں اچھا موبائل ہاتھ میں ہو تو ہم بھی عزت کرتے ہیں- ہمیں ان لوگوں کی قدر,عزت اور تعریف کے ساتھ ساتھ شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے-
جب ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ان کا شکریہ نہیں ادا کرتے- ہمیں یہ بات معلوم بھی ہے کہ وہ ہمارے لیے چوبیس گھنٹے بیٹھے ہیں- ہم نے کبھی صفائی کرنے والے کا شکریہ ادا نہیں بلکہ ہم اسے کوڑے والا کہتے ہیں جو ہمارا کوڑا اٹھاتے ہیں حالانکہ ہم کوڑا پھینکنے والے ہیں وہ تو صفائی کرنے والا ہے اور نبی دوعالم نے فرمایا
 '' صفائی نصف ایمان ہے''
اس سے تو ہم بہت سی بیماریوں سے بچ جاتے ہیں- جب ہم خاکروب کے پاس سے گزرتے ہیں ہاتھ یا رومال منہ اور ناک پر رکھ لیتے ہیں وہ ہمارے گزرنے کے لیے جھاڑو کو روک لیتا ہے تاکہ ہم پر گرد نہ پڑے- بزرگ کہتے ہیں کہ آپ ان کو انسان نہیں سمجھتے کہ منہ پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں وہ فرماتے ہیں آپ ایسا کر کے ان کی تذلیل کرتے ہیں آپ کو اتنی ہی کوئی دشواری ہو تو سانس روک لیں- کہتے ہیں ان کی عزت اور شکریہ ادا کیا کرو-
 ہم نے کبھی اپنی فیکٹری میں کام کرنے والوں کا شکریہ ادا نہیں کیا حالانکہ ہماری فیکٹری کا چلنا انہی کے مرہون منت ہے وہ ہمیں منافع کما دیتے ہیں- جب ہم اپنی گاڑی میں تیل ڈلواتے ہیں کبھی اس کا شکریہ ادا نہیں کیا کیونکہ ہمیں سیکھایا ہی نہیں گیا- ہم جس طرح سلام کرتے ہیں اسی طرح ہمیں شکریہ ادا کرنا چاہیے- میں نے اسی معاشرے کے لوگوں کو دیکھا ہے جو جب پل کراس کرتے ہیں تو پل کا شکریہ ادا کرتے ہیں وہ ہر چیز کا شکریہ ادا کرتے ہیں جاندار ہو یا بے جان- اکثر کسان جب گائے یا بھینس کا دودھ نکالتے ہیں اسے دھپکی دے کر شکریہ ادا کرتے ہیں اس سے ان کی حوصلہ افزائی ہو جاتی ہے ان کی زندگی میں شکریہ ادا کرنا ایک رسم بن چکا ہے- جو لوگ انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتے وہ خدا کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتے- ہم اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کا شکریہ ادا نہیں کرتے جب ہم ان کے یا وہ ہمارے مہمان بنتے ہیں حالانکہ ہمیں شکریہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے- رب العزت نے ہمیں کتنی نعمتوں سے نوازا ہے ہم اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتے اسی لیے رب العزت قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ
''بیشک انسان بڑا نا شکرا ہے''
ہم نے کبھی اپنی زندگی میں 'عزت دو, عزت لو' والا اصول لاگو ہی نہیں کیا- ہم جس طرح دوسروں سے چاہتے ہیں کہ ہماری عزت کریں اسی طرح وہ بھی ہم سے عزت چاہتے ہیں- ہم اس اصول کو نہ اپنانے کی وجہ سے اپنے رشتوں کی ساخت کو کمزور کر بیٹھتے ہیں اور اپنے قیمتی دوستوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں- ہم اپنے معاشرے میں مزید اونچ نیچ کے نظام کو مضبوط کرتے جا رہے ہیں حالانکہ ہمیں تو یہ بتایا گیا ہے کسی عربی کو عجمی پر, عجمی کو عربی پر, گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں-
ہمیں تو سکھایا گیا کہ قبیلے اور ذاتیں بنائی گئی تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو اور اچھے ہونے, عزت والا ہونے کا معیار صرف تقوی ہے جس کو صرف اور صرف اللہ جانتے ہیں- بدقسمتی سے ہم ان اصولوں کو بھول گئی- ہمیں ان اصولوں کو اپنی زندگی میں دوبارہ لانے کی اشد ضرورت ہے- ہمیں دوسروں کی عزت کرنا,شکریہ کرنا اور خوشامد کی بجائے تعریف,حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :