خفیہ تدبیر سے یوم تکبیر تک

جمعرات 28 مئی 2020

Javed Ali

جاوید علی

پاکستان نے ایٹامک انرجی کمیٹی 1953 میں قائم کی جس میں بہت سے سائنسدان شامل تھے- اس نے 1965 میں باقاعدہ کام کرنا شروع کیا- ہمارے لیڈروں کو 1970 تک ملک کو نیوکلئیر پاور بنانے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن اس کے بعد جب اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کیا گیا تو انہوں نے تہیہ کر لیا کہ مجھے ملک خداداد کو ایٹمی طاقت بنانا ہے- 
اس کی بہت سی وجوہات تھیں جن میں ایک 1974 کے انڈین دھماکے بھی تھے جسے بیلنس کرنا بہت ضروری تھا کیونکہ ہمیں انڈیا کی اس علاقہ میں غنڈاگردی برداشت نہیں تھی تو انہوں نے اس پر بہت توجہ دی- ذوالفقار علی بھٹو نے عوام سے کہا اگر انڈیا بم بناتا ہے تو ہم گھاس کھا لیں گے بھوکے رہے لیں گے لیکن ہم اپنا ایک بم ضرور بنائیں گے- ہمارے پاس کوئی دوسرا رستہ نہیں ہے- 
وہ ڈاکٹر عبدالقادیر خان کو وطن واپس لائے- پاکستان کو اپنے ایٹمی پروگرام کو پایا تکمیل تک پہنچنے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا- وہ بھی چیزیں بین کر دی گئی جن کا ڈائریکٹ اس پروگرام سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا لیکن پاکستان اس قابل صلاحیت حاصل کی کہ یورینیم کی بجائے پلوٹونیم سے اسے بنا دیا- اس وجہ سے پاکستان پر ستر کی دہائی میں پابندیاں لگائی گئیں اور پھر نوے کی دہائی میں لگائی گئیں لیکن پاکستان نے اپنے پروگرام کو روکا نہیں جاری رکھا-
غلام اسحاق خان کا ایٹمی پروگرام میں بہت اہم کردار ہے جو اس وقت سیکرٹری فائنانس تھے- امریکہ کی پابندیوں سے بچنے کے لیے اس پروگرام کو خفیہ رکھنا ضروری تھا- اب بجٹ میں فنڈ بھی الوکیٹ نہیں کیا جاسکتا تھا تو اسحاق خان نے کہا یہ میری ذمہ داری ہے فنڈ میں دوں گا چاہے مجھے مانگنا پڑے یا ادھار لوں, جہاں سے بھی لوں- جب برتھلمیو (امریکن سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ) آیا تو ان دونوں کی آپس پریزیڈینسی میں ایک طویل ملاقات ہوئی تو برتھلمیو کہا کہ آپ پر پابندیاں لگائی جائیں گئی (you are the subject of USA sanctions) اسحاق خان نے کہا ہمارے پاس یہ کپیسٹی ہے لیکن ہم نے ابھی تک بنایا نہیں, وہ کیسا نیوکلئیر بم ہے جس کا ایک حصہ سندھ میں دو تین حصے پنجاب میں پڑے ہیں اسے ویپن بنانے کے لیے اکٹھے کرنے کی ضرورت ہے- اس لفظ ویپن کو سمجھنے کے لیے ڈکشنری نکالی گئی کہ یہ ویپن کسے کہتے ہیں- برتھلمیو غصہ ہو کر چلے گئے تو بریسل ترمیم بھی آ گئی اور بھی پاکستان پر بہت سی پابندیاں لگ گئی, امداد روک لی گئی لیکن پاکستان نے اپنا مشن جاری رکھا اور یہ کپیسٹی اسی کی دہائی میں حاصل کر لی-
جب 11 اور 13 مئی 1998 کو انڈیا ایٹمی دھماکے کئے تو پاکستان کے لیے ضروری ہو گیا کہ اب پاکستان بھی اپنی طاقت کا پوری دنیا میں لوہا منوائے-پاکستانی وزیراعظم کو بہت پریشرائز کیا گیا- ایک طرف عوامی پریشر تھا کہ دھماکے کئے جائیں اور بھارت کا غرور خاک میں ملایا جائے تو دوسری طرف امریکہ اور دوسرے غیر مسلم ممالک جو دھماکوں سے روکنے کی کوششیں کر رہے تھے اسی دوران امیرکن سیکرٹری آف سٹیٹ سٹروب ٹالباٹ اسلام آباد پہنچے تاکہ پاکستان کو ان ٹیسٹوں سے روکا جا سکے- 
صدر کلنٹن بار بار وزیراعظم نواز شریف کو فون کال کر رہے تھے اور وہ اپنی پالیسیوں کو نظر ثانی کرنے کا کہہ رہا تھا لیکن کوئی ڈیل نہ ہو سکی تو وزیراعظم نے ایٹمی دھماکوں کی اجازت دے دی- 28 مئی 1998(جمعرات) کی سہ پہر کو پاکستان ایٹامک انرجی کمیشن اور خان ریسرچ لیبارٹری کے سائنسدانوں نے مل کر ٹیسٹ کئے تو چاغی کی پہاڑیوں سے آسمان پہلی دفعہ دھواں سے ابرآلود ہوا اور پاکستان کے ہر شہر, ہر گلی, ہر محلہ, ہر گاؤں اللہ اکبر کی صداؤں سے گونج اٹھا- مٹھائیاں تقسیم کی گئیں جلوس نکالے گئے جن میں بچے, نوجوان اور بوڑھے سب شامل تھے- وہ سب کچھ کیا گیا جو ایک قومی خوشی کے موقع پر کیا جاتا ہے- ان نعروں نے امت مسلمہ کی نظریں پاکستان کی طرف لگا دیں- پاکستان واحد اسلامی ملک ہے جو نیوکلئیر پاور رکھتا ہے- مجھے اسی حوالے سے اپنے دو شعر یاد آ رہے ہیں کہ
اٹھائیس مئی کیا دن ہے سبحان اللہ
گونج اٹھا ہے پاکستان نعرہ تکبیر سے
میں نے ملا دیا خاک میں غرور اسکا
واقف نہیں وہ میری خفیہ تدبیر سے
پوری امت مسلمہ کو ہم پر فخر ہے کہ ہمارے پاس نیوکلئیر ویپنز ہیں- ہمیں اس پر کتنا فخر ہے ایک واقعہ پیش کرتا ہوں جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا اشفاق صاحب نے زاویہ پروگرام میں ایک واقعہ سنایا کہ میں جدہ ائیرپورٹ پر کھڑا تھا کہ ایک خاتون آئی جو شکل وصورت سے پاکستانی تھی- اس نے عربی میں کچھ کھڑے سپاہی کو کہا اور اپنا بیگ چیک کروائے بنا چلی گئی میں حیران ہوا کہ ہم سب کی تو تلاشی لیتے وقت جوتے بھی اتروا دیئے جاتے ہیں یہ تلاشی کے بغیر جا رہی ہے وہ کہتے ہیں میں نے اس خاتون سے پوچھا تو اس نے بتایا میں پاکستانی ہوں اور یہاں درزن ہوں- تو نے عربی میں اسے کیا کہا تھا اس نے بتایا بھائی جی میں نے انہیں بتایا ہے کہ میں نیوکلئیر پاور ملک کی شہری ہوں مجھے مت روکو-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :