ہر شے مسافر

جمعرات 19 مارچ 2020

Javed Iqbal Bhatti

جاوید اقبال بھٹی

اس دُنیا کی ہر شے فانی ہے ، ہر شے کو فنا ہو جانا ہے۔جو چیز بھی ایک بار بنتی ہے اُسے ایک نہ ایک دن ضرور ٹوٹنا ہوتا ہے ، جس میں جان ہے اُس شے کو ایک دن بے جان ضرور ہونا ہوتا ہے ۔حتٰی کہ درخت، انسان، جانور، حیوان، چرند ،پرند خواہ دنیا میں جو چیز بھی بنی ہے ایک بار اُس کو فنا ہونا ہے گویا کہ اس دُنیا کی ہر شے مسافر ہے ۔ کوئی بھی چیز نئی لی جائے تو اُس کو بھی خراب ضرور ہونا ہوتا ہے، ہر شے کی ایک مدت معین کر دی گئی ہے ،ہم اگر موبائل فون بھی یا کمپیوٹر یا الیکٹرونکس کی کوئی چیز، خواہ دُنیا میں کوئی شے بھی لے لیں اُس نے خراب ضرور ہونا ہوتا ہے اسی طرح زندگی بھی فانی ہے اور ہر شے کو فنا ہونا ہے تو اس کا مطلب ہر شے ہی مسافر ہے جو کہ ایک مقررہ وقت اور مدت کے لیے بنی ہوئی ہے ۔

(جاری ہے)

کہنے کو دم قدم کا فاصلہ ہے ،لیکن عمر کٹ جاتی ہے فاصلہ نہیں کٹتا۔ ہم چل رہے ہیں، مسلسل صبح کو چلتے ہیں، شام کو چلتے ہیں، خوابوں میں سفر کرتے ہیں۔ہم ہی کیا، ہمارے ساتھ راستے بھی سفر میں ہیں۔منزل ملے، تو منزل سفر میں ہوتی ہے ۔ یہ کائنات بھی مسافر ہے ۔ہر شے راہی ہے ۔ہر شے سفر میں ہے ۔ نا معلوم سفر، بے خبر مسافر، نا آشنا منزلیں۔کوئی وجود ہمیشہ ایک جگہ موجود نہیں رہ سکتا۔

سفر ہی سفر ہے ۔ سفر کا آغاز سفر ہے ، سفر کا آغاز سفر سے ہوااور سفر کا انجام ایک نئے سفر سے ہو گا۔ مسافرت بے بس ہے، مسافت کے سامنے۔ صدیوں قاور قرنوں سے یہ سفر جاری ہے۔ یہ سفر کٹ نہیں سکتا۔ جیسے کسی کی نگاہ سے گر کر رسائی کا سفر طے نہیں ہو سکتا۔ کبھی نہیں۔ یہ سفر بے جہت و بے سمت ہے ، بلکہ لا محدود جہت و لامحدود و سمت کا سفر ہے ، کیسے کٹے۔

ہمارے ساتھ کائنات چل رہی ہے ۔سورج، چاند ، ستارے،سیارے،کہکشائیں، نظام شمسی ،بلکہ خلائیں اس سفر میں شریک ہیں ۔ سب کے سب گردش میں ہیں۔جمیل و جسیم سیارے، مدار خود متحرک ہیں۔ گردش در گردش،حرکت در حرکت، سفر در سفر جاری ہے۔ لمحات سفر میں ہیں۔ وقت ہمہ وقت سفر میں ہے۔ کیا ہم لوگ گھر میں غریب الدیار ہیں؟ ہمیں کہاں جانا ہے ؟ ہم کہاں سے آئے ہیں؟ خیال بدل جاتا ہے ۔

خیال رخصت ہو جاتا ہے ،سانس سفر میں ہے ، آتا ہے ، جاتا ہے، رگوں میں شریانوں میں خون مسافر ہے۔ نظر مسافر ہے، منظر اور پس منظر مسافر ہیں۔ یہ سب کیا ہے ؟ کیوں ہے ؟ کب سے ہے ؟ کب تک ہے ؟ ہم بوجھ اُٹھائے پھرتے ہیں۔اپنا بوجھ ،دوسروں کا وزن ،آخر کہاں جانا ہے ہمیں؟ ہمیں اتنا معلوم ہے کہ ہم جلدی میں ہیں۔ ہم تیزی میں ہیں۔ہم عجلت میں ہیں۔ ہمیں فوراً جانا ہے، لیکن کہاں؟ بس یہی تو معلوم نہیں۔

ہم بہت مصروف ترین ہیں۔سفر ضروری ہے، مقصد سفر سے آگاہی ضروری نہیں ہے۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ آخر ہمیں کیا کرناہے۔ سفر سے کیا حاصل ہے ۔ سفر مسافروں کو کھا رہا ہے ۔راستہ راہ نوردوں کو نگل جاتا ہے۔منزلیں راستوں کو نگل جاتی ہیں اور خود راستہ بھول جاتی ہیں۔ معلوم نہیں کس نے ہمیں گردشیں، بلکہ غلام گردشیں ، دی ہیں۔ سفر پر روانہ کرنے والی فطرت ہم سے کیا چاہتی ہے۔

ہم بچارے دے ہی کیا سکتے ہیں۔محدود کا لامحدود سفر کیا رنگ لائے گا۔ پرندے اڑتے ہی چلے جاتے ہیں،فضائیں ختم نہیں ہوتیں۔ مچھلیاں تیریتی ہی چلی جاتی ہیں، سمندر ختم ہی نہیں ہوتا۔یہ سفر کب سے ہے۔نہ ابتداء کی خبر ہے اور نہ ہی انتہا کا کوئی پت۔ قطرے قلزم بنتے جاتے ہیں اور قلزم قطروں میں بٹتا جاتا ہے،لیکن کسی کو کچھ خبر نہیں۔ بسی، گاڑیاں،خلائی اور فضائی گاڑیاں ،جہاز، ہوائی اور بحری سب متحرک ہیں۔

لوگ آرہے ہیں، جا رہے ہیں۔ آنسوؤں سے الوداع ہے، خشی کے ساتھ خوش آمدید ہے ۔جانے والے بھی مسافر اور بھیجنے والے بھی مسافر۔ سب مسافر ہیں، آہستہ چلنے والے، تیز چلنے والے ہمیشہ سفر ہی سفر۔ کارواں درکارواں لوگ آئے ۔اس زمین پر بڑے عمل کرتے رہے۔ بڑی محنتیں کرتے رہے ایک دوسرے کو ہلاک کرتے رہے،لیکن پھر وہی سکوت، وہی بے مائیگی، وہی بے نشان منزلیں،وہی گمنام انجام۔

یہ ناموری کیا ہے ؟ یہ غرور کیا ہے ؟ یہ تاج و کلاء کیا ہے ؟ یہ لشکر و سپاہ کیا ہے ؟ یہ حرکت وجود کیا ہے ؟ یہ مستقل عذاب مسافرت کیا ہے ؟ یہ دل بھی بھونچال ہے ۔ہر شخص بھاگ رہا ہے ۔ شاہ و گدا بھاگ رہے ہیں ۔ شاید خطرہ ہے ۔ کس کو کس سے خطرہ ہے؟ زندگی کو خطرہ ہے ؟ کس کا ؟ موت کا خطرہ؟ زندگی ختم ہو رہی ہے ، لیکن زندگی تو ختم نہیں ہوتی۔ہم مر جاتے ہیں۔

ہم کب سے مر رہے ہیں۔ لیکن ہم زندہ ہیں۔ کب تک زندہ ہیں؟ یہی تومعلوم نہیں۔اسے معلوم کرنے کیلئے ہم بھاگ رہے ہیں۔ موت کے ڈر سے نہیں ،راز جاننے کیلئے کہ یہ سب کیا ہے ؟ ہم خواہشات اور بے معنی خواہشات کی خوبصورت تتلیاں پکرنے نکلے ہیں۔ تتلیاں اُڑ جاتی ہیں اور ہم بچھڑ جاتے ہیں ایک دوسرے سے۔ ہم ویرانیوں میں کھو جاتے ہیں۔ تتلیاں واہمہ ہیں۔

کبھی ہم ماضی کی طرف بھاگتے ہیں کبھی مستقبل کی طرف۔ کبھی ہم اپنے اندر کو دوڑتے ہیں ،کبھی ہم اپنے سے فرار کرتے ہیں اور خلاؤں کی تسخیر کو نکل جاتے ہیں۔ہم جو کچھ حاصل کرتے ہیں، اسے چھوڑ دیتے ہیں۔ تمنا، نیا حاصل، نئی آرزو ،نئی منزل، نیا انتشار ہمارا مقدر ہے ۔ یہ مقدر کیا ہے ؟ مقدر کی چابک ہمیں ہانک رہی ہے ۔ ہم خوف اور شوق کے درمیان رہتے ہیں۔

یہی چکی ہمیں پیس رہی ہے۔ شوق حاصل نہیں ہوتا۔ خوف نظر نہیں آتا۔ بس ہم دوڑتے ہیں۔ سفر کرتے ہیں۔ واپسی کا عودہ کر کے ہم رخصت ہو تے ہیں۔ واپس آنا ہے تو جانا ہی کیوں ہے۔ ہم ایک دوسرے کو انتظار کی منزل عطا کرتے ہیں۔ انتظار اس فاصلے کا نام ہے جس کے کٹ جانے کی اُمید ہو، لیکن جو کبھی نہ کٹے، یہ فاصلے ہم نے خود پیدا کئے ہیں۔ ہم ایسے سفر میں مبتلا ہیں، جو انجام سے بے نیاز ے۔

یک موہوم اُمید ہے کہ شاید اگلے موڑ پر ہ سب کچھ جان لیں، لیکن سانس کا سفر ختم ہو جاتا ہے ، آ س کا سفر باقی رہتا ہے۔ ہم نے سوچناچھوڑ دیا ۔ بس دوڑ لگا رہے ہیں، میرا تھن دوڑ جس میں سارا زمانہ شریک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سبھ کو اپنی منزل تک پہنچا دے اور نیکی کا راستہ دیکھا کر ہماری اصلاح فرما دیں تاکہ ہم کامیاب زندگی گزاریں اور اس کامیاب زندگی سے اپنی آخرت کو سنواریں جس میں ہم نے ہمیشہ رہنا ہے ۔

کیونکہ جتنا بھی بھاگ کر سفر کر لیں آخر کار موت ہے ہم سبھ نے مرنا ہے تو ہمیں آخرت کیلئے بھی تیاری کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ اس پر عمل کرنے کی سب کو توفیق عطا فرمائے اور ہر طرح سے ہماری مدد فرمائے تاکہ ہمارے درمیان نفرت ختم ہو جائے اور ہم ایک قوم بن کر زندگی میں دین و دنیا کی کامیابی حاصل کریں۔ آمین۔ ثم آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :