بدلے بدلے طالبان نظر آتے ہیں

جمعہ 20 اگست 2021

Javed Malik

جاوید ملک

 کیا کسی کے وہم و گمان میں بھی تھا- طالبان اتنا جلدی کابل پر قبضہ کر لیں گے- اور وہ بھی بغیر ایک گولی چلائے ہوئے- کبھی کبھی گماں ہوتا ہے-جیسے یہ سب کچھ دوہا سکرپٹ کا حصہ تھا- گزشتہ بیس سالوں میں چار امریکی صدور ٹریلین ڈالر, ہزاروں جانوں کی قربانی مگر نتیجہ پھر طالبان- یہ بات طاقتور حلقوں کو سمجھ لینی چاہیے-آپ اپنی طاقت سے کسی کو دبا تو سکتے ہیں-مگر اس کی اہمیت ختم نہیں کرسکتے-اسی کا اظہار امریکی صدرجوزف بائڈن نے امریکی عوام کو اعتماد میں لیتے ہوئے کیا ہے-انہوں نے کہا امریکی فوج کی واپسی کا فیصلہ درست تھا فیصلے پر شرمندگی نہیں- انہوں نے کہا جو لڑائی افغان فوج نہیں لڑنا چاہتی وہ امریکی فوج کیوں لڑے- افغان فورسز کو تنخواہ ہم دیتے تھے-ان پر اربوں ڈالر خرچ کیے ان کو بہترین جنگی سامان مہیا کیا-ان کی تربیت کی- جو ہم نہ دے سکے وہ لڑنے کی جرات تھی-اپنی گفتگو کےاس آخری جملے میں انہوں نے بیس سال کی کاغذی جدوجہد کو اس ایک فقرے میں سمو دیا-امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مقابلے میں طالبان کے پاس شاید جدید وسائل نہیں ہوں گے-لیکن ان کے پاس ایمان کی طاقت اور لڑنے کی جرات تھی- لڑائی ہمیشہ اپنے وطن اور نظریےکی خاطر لڑی جاتی ہے- اور یہ دونوں چیزیں طالبان کے پاس موجودتھیں اور اسی کی بنیاد پر ان کو کامیابی ملی- کٹھ پتلی صدر اشرف غنی جدھر سے آئے تھے ادھر چلے گئے- ایسے لوگوں کے حصے میں عزت کبھی نہیں آتی ایسے لوگوں کا مقدر ہمیشہ ذلت ہی بنتی ہے-میڈیا رپورٹس کے مطابق بہت زیادہ دولت اپنے ساتھ لے کر گئے ہیں- لیکن ابھی تک یہ نہیں پتا وہ ہیں کدھر-بیس سال پہلے کے طالبان اور موجودہ طالبان میں واضح فرق دیکھنے کو ملا ہے-موجودہ طالبان عصر حاضر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں- سوشل میڈیا کا استعمال بھرپور کرتے ہیں- اور انٹرنیشنل میڈیا کا سامنا کرنے کے لیے انتہائی پڑھی لکھی ٹیم موجود ہے- کابل پر قبضہ کرنے کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں اس کی ایک جھلک دیکھنے کو ملی- دنیا بھر کے میڈیا نے اس کانفرنس کو بڑی اہمیت دی-طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغانستان پر کنٹرول سنبھالنے کے بعد ایک مرتبہ پھر اپنے مخالفین کو معاف کرنے کا اعلان کیا-جبکہ بین الاقوامی تعلقات استوار کرنے کی پیشکش کی-انہوں نے مزید کہا آزادی افغان قوم کا حق ہےاور یہ بیس سال کی مسلسل محنت کے بعد حاصل ہوئی ہے-افغان سرزمین کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے- کابل کے تمام شہری مطمئن رہیں- وہ محفوظ ہیں- کابل میں غیر ملکی سفارت خانوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا اور یہ ہماری ترجیحات میں شامل ہے- خواتین کے حوالے سے انہوں نے کہا خواتین کو شرعی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کی اجازت ہے- خواتین ہمارے معاشرے کا معزز حصہ ہیں- ہماری بہنوں اور ہماری عورتوں یکساں حقوق حاصل ہیں- تعلیم صحت اور دیگر شعبوں میں وہ ہمارے کندھے سے کندھا ملا کر کام کرنے والی خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہوگا- لیکن یہ سب اسلامی اصولوں کے مطابق ہوگا-دنیا کے ہر ملک کے اپنے قوانین ہوتے ہیں- دنیا ہمارے شرعی قوانین کا احترام کرے- جو نوجوان ملک چھوڑ کر گئے ہیں واپس آجائیں وہ ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں-میڈیا کی آزادی کے حوالے سے کہا افغانستان میں میڈیا آزاد ہے اور تمام ادارے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں- انہوں نے تین تجاویز پیش کیں- ان کی پہلی تجویز میڈیا کی نشریات اسلامی اقتدار سے متصادم نہیں ہونی چاہیے- دوسری تجویز میڈیا نشریات غیر جانبدرانہ ہونی چاہیے-اگر ہم پر تنقید ہوتی ہے تو ہم خوش آمدید کہیں گے-تیسری تجویز قومی مفادات کے خلاف کوئی چیز  on airنہیں جانی چاہیے- افغانستان میڈیا قومی بھائی چارے کو فروغ دے-اپنی پریس کانفرنس میں کہا ملک میں منشیات کی سمگلنگ اور اسلحےپرپابندی ہوگی- اسلامی حکومت تشکیل دی جائے گی-اس پریس کانفرنس کی عالمی میڈیا میں کتنی اہمیت تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے- اس کو انگریزی زبان میں ترجمہ کرکے پیش کیا گیا-اسی دوران طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر بیس سال کی جلاوطنی کے بعد قطر ایئر فورس کے جدید ترین طیارے میں افغانستان واپس آئے-ان کا حامد کرزئی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر والہانہ استقبال کیا گیا-جب ان کا طیارہLHOB 247 لینڈنگ کر رہا تھا تو اس وقت امریکی ایئر فورس کا ایک طیارہ کابل کی فضائی حدود میں محو پرواز تھا- جو مسلسل چار گھنٹے کابل کے اطراف گھومتا رہا-تاریخ بھی بڑی ظالم چیز ہے- کبھی آپ جن کے موسٹ وانٹڈ کے اشتہارات چھپواتے تھے اور ان کے سر کی قیمتیں لگاتے تھے اور پھر یہی تاریخ آپ کو ان سے مذاکرات کرنے پر مجبور کرتی ہے- پھر ان کا دوہا میں ہیڈ کوارٹر بن جاتا ہے- افغانستان سے نکلنے کے لئے باعزت راستہ تلاش کیا جاتا ہے- پھر ایک طرف وہی طالبان کابل پر قبضہ کر رہے ہوتے ہیں- اور دوسری طرف امریکی اور نیٹو فورسز کے طیارے اپنے شہریوں کو باعزت وطن واپس لے جا رہے ہوتے ہیں- اسی ایئرپورٹ پر ملا عبدالغنی برادر لینڈ کرتے ہیں اور آپ کا طیارہ ان کی حفاظت کے لیے مسلسل چار گھنٹے کابل کی حدود میں محوپرواز رہتا ہے-کیا یہ سب کچھ محض اتفاق ہے یا آنے والے وقت کاپہلے سے طے شدہ اسکرپٹ  ہے- اس مرتبہ دنیا کی بہت سی عالمگیر طاقتیں طالبان کی حکومت کو تسلیم کریں گی- کچھ ممالک نے واضح اشارے دیے ہیں- لیکن اس خطے میں پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کا بڑا عمل دخل ہے- لیکن پاکستان کی پالیسی ہمیشہ کی طرح واضح نہیں ہے-ایک آزاد خودمختار اور جوہری صلاحیت رکھنےوالے ملک کے وزیر اطلاعات جب یہ فرما رہے ہوں ہم دنیا کی پالیسی کو دیکھ کر اپنی پالیسی بنائیں گے-تو اس پر کیا کہا جا سکتا ہے-ایک آزاد خودمختار ملک کی اپنی پالیسی ہوتی ہے-آنے والے چند دنوں میں سب کچھ واضح ہو جائے گا- لیکن طالبان کی پریس کانفرنس نے یہ ثابت کر دیا طالبان عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق بدل چکے ہیں-اور طالبان نے بال دنیا کی کورٹ میں پھینک دی ہے-اب دنیا فیصلہ کریں گی وہ طالبان کے مثبت رویے اور سوچ کا کیا جواب دیتی ہے-

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :