سینٹ الیکشن:ڈر کس بات کا ہے؟

ہفتہ 20 فروری 2021

Junaid Nawaz Chaudhry

جنید نوازچوہدری (سویڈن)

اگر آپ وہ کام کر جاتے جس کے آپ ماضی میں دعوے کرتے رہے ہیں تو آپ کو اس طرح کا ڈر نا ہوتا جس نے آپکی راتوں کی نیند اور دِن کا چین اْڑا کے رکھ دیا ہے۔ جوں جوں سینٹ کے الیکشن نزدیک آرہے ہیں ویسے ویسے ہی عمران خان سمیت پوری پارٹی کی بوکھلاہٹ میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سینٹ الیکشنوں کے نزدیک آتے ہی عمران خان اور اْن کی کابینہ کے وزرا کی طرف سے سینیٹ الیکشن میں خریدو فروخت کا واویلا ہو یا سیکرٹ بیلٹ کے بجائے اوپن بیلٹ پر زور، یہ سب درحقیقت اس سیاسی نقصان سے بچنے کی کوشش ہے جو ممکنہ طور پر پاکستان تحریک انصاف کو سینیٹ الیکشن میں ہو سکتا ہے۔

اچانک تحریک انصاف اور عمران خان کی یہ اْصول پسندی کیسے جاگ پڑی اسکی ایک بڑی وجہ ماضی کے وہ کھیل ہیں جو پی ٹی آئی نے ن لیگ کے کچھ ناراض ارکان اور کچھ دوسرے ارکانِ اسمبلی کے ساتھ مل کر کھیلا تھا اور موجودہ گورنر پنجاب چوہدری سرور کو سینیٹر منتخب کروایا تھا اور بعد میں اْن پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے گئے تھے کہ اْنہوں نے دوسری جماعتوں سے ووٹ حاصل کیئے تھے۔

(جاری ہے)

کوئی پی ٹی آئی سے پوچھے کہ اْس وقت اْنہیں اوپن بیلٹ کا خیال کیوں نہیں آیا تھا؟ اب اچانک اْصول پسندی کا یہ روپ کیوں دھارا جا رہا ہے؟حقیت یہ ہے کہ اگر سیاسی اصول پسندی ہو تو فیصلے سود و زیاں اور نفع نقصان سے اوپر اٹھ کر کیے جاتے ہیں مگر تلخ ترین پہلو یہ ہے کہ پی ٹی آئی کواصو ل صرف اپنانقصان ہوتے دیکھ کر کیوں یاد آرہے ہیں؟
اب سینٹ کے الیکشنز کے نزدیک آتے ہی خیبر پختونخوا میں ووٹوں کی خریدو فروخت کی وڈیو وائرل کی گئی ہے۔

صاف ظاہر ہے کہ یہ ویڈیو حکومت کی طرف سے ریلیز ہوئی ہے اور اس کی ٹائمنگ بھی سیاسی طور پر مقررکی گئی ہے تاکہ سیکرٹ بیلٹ کے خلاف فضا بنے اور عدالت عظمیٰ پر بھی یہ دباوٴ پڑے کہ وہ حکومتی ریفرنس پر حکومتی مرضی کا ہی فیصلہ سنائیں۔حکومت اچانک یہ سب کچھ کیوں کر رہی ہے اور اْس کے اس ڈر کی وجہ کیا ہے؟ اسکی بہت سی وجوہات ہیں مثلاً سابق سینئیر صوبائی وزیر خیبر پختونخواہ عاطف خان جو کہ ایک سال قبل اپنی وزارت سے بیدخل کئے گئے اْن کی وجہ سے پارٹی میں کافی دراڑیں پڑیں کیونکہ خود عمران خان اور پارٹی قیادت کی نظر میں کسی بھی موقع پر خیبر پختونخوا کی وزارت اعلی کے لیے موزوں امیدوار ہو سکتے ہیں۔

اس کا ثبوت سنہ 2018 کے انتخابات کے دوران ملا بھی۔ جب عاطف خان کو وزیر اعلیٰ بنانے کی کوشش کی گئی، مگر اس کوشش کے ردعمل میں پارٹی کے اندر سے ہی سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اور ان کے گروپ کی جانب سے سخت اعتراض آیا۔ جس کے بعد ایک تیسرے امیدوار محمود خان کو وزیراعلی بنا کر مسئلے کا حل نکالا گیا مگر اس سے عاطف خان کے حمایتیوں کے دل میں دراڑ پڑ گئی لہذ اسینٹ کے انتخابات کے لیے پارٹی کے اندرونی انتشار یا دباوٴ سے پریشان پارٹی قیادت کو اس وقت ہر اس شخص کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے جو کسی بھی موقع پرکچھ بھی کر کے پارٹی کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔

جس کی وجہ سے اب اچانک عاطف خان اور عمران خان میں قربتیں بڑھ گئی ہیں۔ مگر پرویز خٹک اس وقت سینٹ کے انتخابات کی منصوبہ بندی کے کسی سیشن میں نظر نہیں آ رہے جسکی وجہ سے پارٹی میں کسی نا کسی لیول پر شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔ 31 اکتوبر 2011 کے پی ٹی آئی کے جلسے کے بعد پارٹی میں شامل ہونے والے پرویز خٹک جن کے سر پر 2013 میں جب پارٹی کو خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع ملا تو وزارت اعلیٰ کا تاج سجایا گیا، انہیں کی کارکردگی کے حوالے دے دے کر عمران خان نے ملک بھر سے ووٹ حاصل کیے لیکن بہت کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ پرویز خٹک کی وزارت اعلیٰ کے دنوں میں عمران خان کو بھی بعض فیصلے منوانے میں مشکل پیش آئی۔

اسی تجربے کے بعد عمران خان کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں “تابعدار”وزرائے اعلیٰ لگانے پڑے تاکہ مستقبل میں انہیں کسی فیصلے کو منوانے میں مشکل پیش نا آئے۔ اگر سینیٹ انتخابات کے حوالے سے پنجاب کا جائزہ لیا جائے تو عثمان بزدار کی ڈھیلی ڈھالی حکومت سے بہت سے اراکین اسمبلی شکوہ کناں ہیں۔ دوسرے عمران خان ذاتی طور پر بیشتر افراد کو نہ جانتے ہیں نہ ان کا ان سے مسلسل کوئی رابطہ ہے۔

اس لیے پنجاب میں کئی ارکان اسمبلی اپنی مرضی کر سکتے ہیں، جس سے یہ تاثر ابھرے گا کہ تحریک انصاف کے اندر بہت سے لوگ ناراض ہیں۔ ایک ڈر تحریک انصاف کو بلوچستان کی طرف سے بھی ہے کیونکہ سینٹ الیکشنز میں گڑ بڑ یا روپے پیسے کا سب سے زیادہ استعمال بلوچستان اسمبلی میں ہوتا ہے جیسا کے ماضی میں ہوتا رہا ہے۔
ارکان اسمبلی کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے بلوچستان سے جنرل نشست پر نو یا دس اراکین صوبائی اسمبلی ایک سینیٹر منتخب کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ جہانگیر ترین بھی آوٹ ہیں، ان کے بیٹے کو بھی ٹکٹ نہیں مل سکا۔ ایسے میں کون ہے جو عمران خان کے دائیں اور بائیں رہ کر انھیں احساس دلائے کہ پارٹی سینیٹ انتخابات سے سرخرو ہو کر ہی نکلے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پارٹی کے اقتدار کا عرصہ شروع ہونے کے بعد سے اب تک ہر انتخابات کے دوران ٹکٹوں کے حصول کا بْخار مسلسل بڑھ رہا ہے اور وہ جو کہتے تھے ہم صرف تبدیلی کے لیے پارٹی میں ہیں وہ بھی اب شرطوں پر اْتر آئے ہیں، حالت یہ ہے کہ ایک کو مناوٴں تو دوجا روٹھ جاتا ہے۔

پارٹی قیادت کی حالت جاننی ہو تو یہ بات بالکل صادق آتی ہے کہ وہ اس وقت مینڈک تول رہے ہیں، دو کو پکڑ کر پلڑے میں ڈالتے ہیں تو تین کود کر بھاگ چکے ہوتے ہیں۔ کبھی ٹکٹ دے کر نامزد کیئے جانے والے سے ایک دم ٹکٹ واپس لے لی جاتی ہے تو کبھی بوکھلاہٹ میں ایک دم کسی دوسرے کو ٹکٹ دینے کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ رہی سہی کسر پیپلز پارٹی اور مریم نواز کی طرف سے عین سینیٹ انتخابات کے دوران عدم اعتماد کی تحریک لائے جانے کے بیانات نے نکال دی ہے۔

مسلم لیگ ن کے ایک رہنما کا ایک بیان کہ جس میں وہ کہہ چکے ہیں کہ نظرنہ آنے والی کچھ قوتیں جو عمران خان کی پشت پر تھیں تو وہ اب ان کا ساتھ بھی دے سکتی ہیں نے تحریکِ انصاف کے اوسان مزید خطا کر دئیے ہیں۔ اس بیان کے بعد تحریک انصاف کی رہی سہی دانش اس چیلنج کو بھی حل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے کہ آخر وہ کون ہو سکتا ہے جن کے ساتھ رابطوں کی بدولت یہ اپوزیشن جماعتیں بظاہر اتنی پْراعتماد ہیں اور کہیں سینیٹ میں ٹکٹوں کے معاملے پر ناراض ہونے والے اور سائیڈ لائن کیے جانے والے اپنے لوگ اپوزیشن کے ان نعروں کو تقویت دینے کا باعث نہ بن جائیں۔

درحقیقت یہ وہ تمام معاملات ہیں جسکی وجہ سے حکومت ڈری ہوئی ہے اور سینٹ الیکشنز اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانا چاہتی ہے کیونکہ اگر سینیٹ الیکشن سیکرٹ بیلٹ سے ہوا تو خصوصاً پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کے اندر کی کئی ناراضیاں کھل کر سامنے آئیں گی اور پی ٹی آئی الیکشن سے طاقتور ہونے کے بجائے کمزور ہو کر سامنے آئے گی۔ اسی لیئے پی ٹی آئی کا یہ خیال ہے کہ سینٹ الیکشن اگر اوپن بیلٹ ہو تو لوگ بغاوت کے خوف سے کھل کر سامنے نہیں آئیں گے اور یوں پی ٹی آئی اپنے زیادہ تر لوگ اپنی نئی پالیسی کی وجہ سے جتوا لے گی۔

ان سب معاملات میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پی ٹی آئی سینٹ انتخابات میں کوئی شفافیت چاہتی ہے تو یہ اْس کی خام خیالی ہے کیونکہ اگر پی ٹی آئی واقعی شفافیت چاہتی ہوتی تو ماضی میں پنجاب میں ن لیگ کے ووٹ توڑنے کو بھی غلط قدم گردانتی اور اس معاملے میں بھی انکوائر ی کرواتی۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ ان کے فائدے میں نہیں تھا اس لیے اس وقت سیکرٹ بیلٹ ٹھیک تھا۔

آج جب پی ٹی آئی خود اندرونی اختلاف کا شکار ہے تو ووٹوں کی خرید و فروخت کی دْھائی دے کر اوپن بیلٹ کے ذریعے سینٹ الیکشن چاہتی ہے۔ ان سب باتوں سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے اور وہ یہ کہ عمران خان کی طرف سے یہ کوئی سینٹ الیکشن میں شفافیت کی کوشش نہیں ہے بلکہ پنجاب اور خیبر پنختونخواہ میں شکست کا ڈر ہے اسی لیئے وہ اور اْن کی پارٹی اوپن بیلٹ کا راگ الاپ رہی ہے!۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :