سراج الحق کی سولو فلائیٹ

جمعہ 1 جنوری 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں دو بڑی جماعتوں کے وارثین کی بھٹو خاندان کی قبروں پر حاضری نے یہ تو ثابت کر دیا کہ عرض پاک کی سیاست کسی بھی وقت کوئی بھی موڑ لے سکتی ہے،ماضی کے بڑے حریف جب چاہیں حلیف بن سکتے ہیں، پرانے عہد کا اگر کوئی سیاسی کارکن قبر سے اُٹھ کر یہ منظر دیکھ لے تو گمان ہے کہ اُسی لمحہ پھر موت کی وادی میں ہاتھ ملتا چلا جائے کہ جن کی خاطر اِس نے اپنے پیاروں سے دُشمنی مول لی،دُوستوں سے ذَاتی جھگڑا کیا ،زمانے کی باتیں سنی، بڑَے دُکھ اُٹھائے،نظریاتی سیاست کو گلے لگائے رکھا،مخالفین کی جانب سے جھوٹے مقدمات کا سامنا کیا ، ہر جبر برداشت کیا، سیاسی مخالفت میں موت کو گلے لگایا، کیا علم تھا کہ سیاسی مخالفین اِس طرح با ہم شیرو شکر ہو جائیں گے، نجانے کتنے نظریاتی کارکنان کو یہ صدمہ برداشت کرنا پڑے ،اِس لئے ہی کہتے ہیں کہ سیاست کے سینہ میں دل نہیں ہوتا، کیا خبر تھی دائیں اور بائیں بازو کے نام پر کوچہ سیاست کے نظریات ہوا میں اِس طرح تحلیل ہو جائیں گے، بھلا اب کون نظریاتی سیاست پر اعتماد کرے گا؟
 لمحہ بھرکے لئے مان ہی لیا جائے کہ بحالی جمہوریت کے نام پر وہ یک جان دو قالب ہوئے ہیں، اِنکی کاوش سیاسی اداروں میں مداخلت سے نجات ہے، لیکن کون نہیں جانتا کہ دونوں بڑی جماعتوں کی آبیاری اِسی مداخلت کا ثمر ہے،جس کیاری میں پارٹیوں کے پھُول کھلے اِسکو وہی ادارے پانی دیتے رہے تھے جن کے خلاف یہ برسر پیکار ہیں، اس نو زائیدہ سیاسی قیادت کے بڑَے اِس وقت کرپشن، منی ٹریل کے الزمات کی زد میں ہیں،اِنکے مخالفین کا نقطہ نظر ہے کہ یہ موومنٹ اِن افراد کے تحفّظ کے لئے ہے جنہوں نے ناجائز دولت کے انبار لگائے ہیں، نسل نو کو دولت کی وآپسی میں اَپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے بالفاظ دیگر یہ اپنے ہی بچاؤ کے لئے سرگرم ہیں۔

(جاری ہے)


اَمیر جماعت اِسلامی بھی سرکار کے خلاف برَسر پیکار ہیں، اِنکا کیس ذرا مختلف ہے، کیونکہ نہ تو انکی جماعت نیب ذدہ ہے نہ ہی انکو اس نوع کے الزامات کا سامنا ہے،پی ڈی ایم کی قیادت بھی ِشکوہ کناُں ہے کہ وہ سلولو فلائٹ کا شوق فرماکر اپوزیشن کی طاقت کو کمزور کر رہے ہیں، سابق صدر نے لاڑکانہ میں وڈیو لنک کے ذریعہ خطاب میں کہا کہ تمام جماعتوں کو ایک ہی پیج پر ہونا چاہئے، مگر سراج الحق کا موقف ہے کہ پی ڈی ایم عوام کو دھوکہ دے رہی ہے، یہ پہلا موقع ہے کہ جماعت اسلامی اِتحادی سیاست سے الگ تھلگ ہو کر سرکار مخالف موقف اَپنائے ہوئے ہے،اور وہ بے روزگاری، مہنگائی،بیڈگورننس ،اداروں میں سیاسی مداخلت کے خلاف اپنا نقطہ نظر قوم کے سامنے رکھ رہی ہے،اِس کاوش کے باوجود الیکڑانک میڈیا کی بجائے سوُشل میڈیا پر اسے زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔


ماضی کی حریف اور موجودہ حلیف سیاسی جماعتیں ،جماعت اسلامی پر پرُو اسٹیبلیشمنٹ پارٹی ہونے کا الزام دھرتی رہی ہیں،حتیٰ کہ بعض عوامی حلقے متحدہ پاکستان کے لئے مشرقی پاکستان میں اس کی جانی ،مالی جدوجہد کو بھی اس تناظر میں دیکھتے ہیں،بنگلہ دیش میں جماعت ِاسلامی کی قیادت نے اِس پاداش میں پھانسی کے پھندَے پر جھوُل جانا تو قبول کیا مگر زبان پرَ شکوہ لانے کو گورا نہیں کیا۔


عہد ایوب میں جب بانی جماعت سید مودودی حیات تھے ،مارشل لاء کے خلاف جماعت اسلامی نے صف اول میں رہ کرجدوجہد کی،تمام جمہوری قوتوں اور علماء کرام کو اکھٹا کر کے دستوری سفارشات مرتب کیں،مولانا مودودی نے پورے ملک کا دورہ کر کے ایوب خاں کو چارج شیٹ کیا جبکہ کوئی آواز اٹھانے والا نہ تھا،جب پہلی دستور ساز اسمبلی کوتوڑاگیاتو اس وقت کے سپیکر موُلوی تمیزالدین نے جماعت اِسلامی کی مدد سے عدالت عالیہ سے رجوع کیا، اس طرح پہلی عدالتی جنگ جماعت کے تعاون سے لڑی گئی،جب ضیاء الحق برسر اقتدار آئے تو جماعت کی امارت میاں طفیل محمد مرحوم کے ہاتھ میں تھی وہ بھٹو مرحوم کی فسطائی ہتھکنڈوں کے ڈسے ہوئے تھے،اس خوف سے انھوں نے ضیاء الحق کی مشروط حمایت کی،اگرچہ مولانا مودودی نے اس کو بھی نا پسند کیا، اس کے باوجود بحثیت جماعت انکی کبھی بھی حمایت نہیں کی گئی، قاضی حسین احمد اپنی کتاب”اسلام ،مسلمان اور پاکستان “ میں لکھتے ہیں کہ ضیاء الحق نے نامزد شوریٰ کے ذریعہ ملک کو چلانا چاہا،اس کے لئے جماعت کے۶۰ آدمیوں کی ایک فہرست طلب کی تو جماعت کی مرکزی شوریٰ نے اس کو مسترد کر دیا،تحریری کہا کہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر منتخب پارلیمینٹ کے علاوہ ہمارے لئے کوئی چیز قابل قبول نہیں، جماعت کی شوریٰ کی قرار دادیں اس کی شاہد ہیں، جماعت اسلا می جب آئی جے آئی کا حصہ تھی جس میں ایم کیو ایم بھی شامل تھی یہ اینٹی بھٹو ازم اتحاد تھا اس وقت بھی جماعت کی قیادت نے کراچی کے علاوہ پورے ملک میں ایک پلیٹ فارم پر الیکشن لڑا تھا لیکن کراچی میں ایم کیو ایم کے خلاف الگ نشان پر انتخاب میں حصہ لیا تھا۔


 جماعت کے پاس نہ تو الیکٹیبل کی بڑی تعداد ہے نہ ہی سرمایہ دار، جاگیر دار اس جماعت کا حصہ ہیں،یہ کسی سردار،وڈیرے کی بھی ملکیت نہیں نہ ہی اس میں مورثیت ہے، لیکن اس کے نظریات ،تنظیم، صلاحیت اور سٹریٹ پاور کے سب معترف ہیں، اس میں شامل تعلیم یافتہ افراد کا تعلق عام زندگی سے ہے،جس وقت اس کا قیام عمل میں آیا اس وقت بانی جماعت مسلم لیگ بھی قائم تھی،لیکن بانی پاکستان کی وفات اور لیاقت علی کی شہادت کے بعد مسلم لیگ حصوں بخروں میں بٹ گئی،ایمان، عقیدہ،ایک زبان جو تحریک پاکستان کی اصل روح تھے وہ پس منظر میں چلے گئے،دلوں سے قناعت اٹھ گئی اس کی جگہ مال ودولت اور ُدنیا کی ہوس نے لے لی،حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کے مترجم طارق اسماعیل ساگر نے لکھا کہ مشرقی پاکستان میں نورالامین کے علاوہ مسلم لیگی لیڈروں، وزیروں اور کارکنان کا کردار بڑا داغدار تھا ان میں ہمت نہ تھی کہ پاکستان کی حمایت میں بات کرتے، مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں دیگر اسباب کے علاوہ قیادت کا اخلاقی، مالی طور پر کرپٹ ہونا بھی تھا،متبادل قیادت کے طور پر سراج الحق عوامی اجتماعات کی وساطت سے قوم کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ ایماندار قیادت ہی سے مملکت کو ، خوشحالی ،امن اورتحفظ مل سکتا ہے، بھٹوخاندان کے مزاروں پر جواں سال قیادت کی حاضری میں کون کون سے مفادات پنہاں ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا ، کیاجزوقتی سیاسی اتحاد کو اسٹیبلیشمنٹ کی مخالفت سمجھا جائے یا نظریاتی سیاست کی تدفین گردانا جائے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :