کردار کی رخصتی

بدھ 3 فروری 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

جماعت اسلامی کے ایک اور کلیدی راہنماء، مزدور لیڈر اس جہان فانی سے رخصت ہوئے،انھوں نے ایک پولیس آفیسر اور دیندار گھر انے میں آنکھ کھولی،روایت ہے کہ وہ اپنے والد محترم کے ہمراہ سیّدمُودودی کی عصری مجالس میں جایا کرتے تھے، یہی ذوق و شوق انکو زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلباء میں لے آیا،گورنمنٹ کالج لاہور میں انھوں نے یونین کے الیکشن میں حصہ لیا تو سیکرٹری جنرل بن گئے،حافظ ہونے کی سعادت تو پہلے ہی حاصل کر چکے تھے اَب عملی طور پر نسل نو کی راہنمائی کے لئے میدان میں اُترے،ہمارا ان سے قلبی تعلق تھا،ایک دو بار شرف ملاقات بھی حاصل ہوا ،وہ ذاتی طور پر بڑے بہادر ،نڈر تھے،لیکن صلح جو اور معاملہ فہم بھی تھے۔


حافظ سلیمان بٹ مرحوم بتاتے ہیں کہ جب ستر کی دہائی میں انھوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں قدم رکھا تو عالمی سیاست میں جہاں سرد جنگ تھی وہاں سوشل ازم کا بھی خوب چرچا تھا،تعلیمی اداروں،صنعتوں میں ایسے سٹیج ڈرامے کرداروں کی صورت میں نوجوانان کو دکھائے جاتے تھے جو مذہب بیزاری کی فکر کو پروان چڑھاتے تھے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ سوشلسٹوں کا لکھا ڈرامہ دیکھنے کا موقع ملا ، جس میں ایک طالب علم کو چور کے کردار میں عدالت میں پیش کیا جاتا ہے،وکیل صفائی اس جرم کا جواز غربت بتاتا ہے،اور کہتا ہے کہ جرم تو پیدا کرنے والے کا ہے جس نے اسکو غریب پیدا کیا ہے،اگر اِسکو وسائل میسر آجائیں تو جرم سے باز آسکتا ہے،جج( نعوذ باللہ )پیدا کر نے والے کو اگلی پیشی پر گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم دیتا ہے حافظ مرحوم کے خیال میں یہ وہ حالات تھے جب اسلامی جمیعت طلباء نے نسل نو کی درست سمت میں ذہنی اور فکری تربیت کے لئے تعلیمی اداروں میں کام کیا،اور جب طلباء یونین پرضیائی مارشل لاء نے پابندیاں عائد کی ، یہ تنظیم نوئے فیصد اداورں کامیاب ہو رہی تھی ۔

(جاری ہے)


اِنکا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں سوشل ازم کے نفاذ کے لئے روس کی اس قدر مداخلت تھی، کہ ٹریڈ یونین جس کا آغاز ہندوستان میں محکمہ ریلوے سے ہوا تھا ،جب پاکستان بن گیا تو اس کے پہلے صدر مرزا ابراہیم تھے،اِنکو وزیر اعظم، صدر سے زیادہ پرُوٹوکول رُوس میں ملا کرتا تھا، وہاں تعلیمی اداروں میڈیکل، انجئنیرنگ میں ہمارے طلباء کواسکی سفارش پرداخلہ ملتا تھا،وہ شکوہ کناں تھے کہ فی زمانہ ٹریڈ یونین کی ڈاون سائزنگ کی جارہی ہے، پہلے اگر روس کی پشت پناہی سے اسکے ایجنڈا کی تکمیل میں مصروف عمل تھیں تو آج انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے بھاری بھر مراعات دے کر مزدوروں سے ان کے لیڈر چھین لیے ہیں،سرمایہ دارانہ نظام نے ان یونین کو فنڈز کے نام پر برائب کر کے ان کی اس آواز کو دبا دیا ہے جو کبھی مزدور کے حق میں بلند ہوتی تھی، اب مزدوروں کی قیادت بڑے مہنگے ہوٹلوں میں قیام کرتی ہے اسکے بڑے بینک بیلنس اور دفاتر ہیں، قیادتیں فنڈز دینے والوں کے گُن گاتی ہیں۔


ایک نشست میں ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ کشمیر ہو یا بلوچستان، افغانستان اس پر سیاست دان سیاست کرتے
 ہیں عوام نہیں اگر دیکھا جائے تو موجودہ کشمیر بھی تو عوام نے آزاد کروایا ہے، قبائل نے یہ جنگ لڑی تھی، بلوچستان کے مسئلہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے کہ اسکی قومی اسمبلی میں نمائندگی اتنی ہی ہے جتنی ضلع لاہور کی ہے، تو وہاں کے عوام کو اتنی سہولیات تو
ضرور میسر آنی چاہئے جتنی اہل لاہو ر کو دستیاب ہیں،جہاں تک سی پیک کا تعلق ہے تو اِسکی وساطت سے وہاں کے عوام کے لئے صحت ،تعلیم ٹرنسپورٹ کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہئے،انکے مطابق بلوچستان کے کوئی ایسے حقوق ہے ہی نہیں جو پورے نہ ہو سکیں،اگر آرمی وہاں کیڈٹ کالج بناسکتی ہے تو وہاں کی سرکار یہ کام کیوں نہیں کر سکتی، شائد حقوق کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ بدعنوانی ہے۔


وہ پُر شکوہ تھے کہ ہمارے ملک سے نظریاتی سیاست کا جان بوجھ کر خاتمہ کیا گیا ہے نتیجہ کے طور پر لسانیت، فرقہ واریت،نسل پرستی، برادری ازم پروان چڑھا ہے،نظریاتی کشمکش ختم ہوگئی ہے جس کا مقصد اُمت کو کاٹنا اور انسانوں کو تقسیم کر نا بے مقصد نظریات کو فروغ دینا ہے،اس لئے ٹریڈ اور طلباء یونین کا خاتمہ کیا گیا ہے۔
اِنکی رائے میں مغرب بھی بے مقصدیت کی جانب راغب ہے، وہاں بھی سماج کی واضع تقسیم نظر آتی ہے ایک وہ طبقہ ہے جس کو صبح و شام صرف دووقت کی روٹی کی فکر ہے،دوسرا وہ ہے جو دولت کمانے کی ہوس میں مبتلا ہے،اگر کوئی مزدور ہے تو نسل در نسل سے مزدور ہی ہے ۔


محترم حافظ سلیمان بٹ نسل نو کے رویہ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھیں بے مقصد زندگی گذارنے سے اجتناب کرنا چاہئے ، معاشرے میں امن ومحبت کو کیسے فروغ دینا ہے ،فلاح بہبود کے کام کیسے کرنے ہیں ،دین کا تصور محض رسومات نہیں بلکہ طرز حیات ہے اسلام مذہب نہیں دین ہے اللہ اور رسول کی خود بھی اطاعت کرنی ہے اور دوسروں کو بھی اس کا درس دینا ہوگا، ،تاہم وہ پر اُمید تھے کہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں تعلیمی شعور کی وساطت سے نو گو ائریاز کا خاتمہ ہوا ہے لیکن سندھ اور بلوچستان میں اب بھی وڈیروں اور سرداروں کا غلبہ ہے یہ بھی آہستہ آہستہ تعلیمی شعور سے کم ہو جائے گا، المیہ ہے کہ یہاں وڈیرہ شاہی، سرداری نظام نے قوم کو تعلیم یافتہ نہیں ہونے دیا خواندگی میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن تعلیم میں اِتنا نہیں ہوا ،وہ کہتے تھے کہ ہم دنیا اور خطہ کے لئے اہم ہیں اللہ تعالی نے ہر وہ نعمت اس سرزمین پر عطا کی جو ترقی یافتہ ملک کے لئے لازم ہے،بات صرف شعوری طور پر قیادت کے انتخاب کی ہے،اِنکا خیال ہے کہ نُوجوانان کا نظریہ، فکر،سوچ اور اسکا کوئی ہدف ہونا چاہئے تاکہ وہ بے مقصد زندگی گزار کر یہاں سے رخصت نہ ہو،تین بار ایم پی اے ایک بار رکن قومی اسمبلی اور اعلیٰ کلیدی عہدے رکھنے کے باوجود وہ صاف دامن کے ساتھ مادی دنیا سے چلے گئے ،ایک خوبصورت کردار کی رخصتی ہمارے لئے ایک سبق کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ اصل کامیابی تو آخرت کی کامیابی ہے، حافظ سلمان بٹ دین کی سر بلندی،اقامت دین کی کاوشوں میں اس کامیابی میں مصروف رہ کر اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔

اِپنی اس درویشانہ حیاتی کے لئے وہ سّیدمُودودی اور اِسلامی جمعیت طلباء کے ممنون تھے جس نے انھیں جرات ،بہادری اور دین کا صحیح فہم عطا کیا، اللہ تعالیٰ اِنکی خدمات کو شرف قبولیت عطا کرے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :