ذمہ دار ریاست

منگل 2 مارچ 2021

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

روایت ہے کہ ستمبر 1931 میں علامہ اقبال جب گول کانفرنس کے لئے برطانیہ گئے تو اِنکو وہاں اطالوی حکومت کی طرف سے ایک پیغام ملا جس میں میسولینی نے اِن سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا،اَطالوی سربراہ مملکت کی اس خواہش پر علامہ اقبال نے 27 نومبر کو اس سے ملاقات کی، رسمی مزاج پرسی کے بعد اِس نے پوچھا کہ میری فاشسٹ تحریک کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے،علامہ اقبال نے فرمایا کہ آپ نے ڈسپلن کے اُصول کا بڑا حصہ اپنا لیا ہے، جسے اِسلام، نظام حیات کے لئے ضروری سمجھتا ہے،اگر آپ اِسلام کا نظریہ حیات اپنا لیں تو پھر سارا یورپ آپ کے تابع ہو سکتا ہے۔


میسولینی نے علامہ اقبال سے اچھا سا مشورہ طلب کیا جو ان کے حالات کے لئے موزوں ہو،اِسکے جواب میں علامہ اقبال نے فرمایا کہ” ہر شہر کی آبادی مقرر کر کے اسکو خاص حد سے آگے بڑھنے نہ دیں،اس سے زیادہ آبادی کے لئے نئی بستیاں بنائیں،میسولینی نے وجہ پوچھی تو اقبال نے کہا کہ شہر کی آبادی جس قدر بڑھتی ہے اِسکی تہذیب، اقتصادی توانائی بھی اتنی ہی کم ہوتی ہے،ثقافتی توانائی کی جگہ محرکات شر لے لیتے ہیں،علامہ اقبال  نے کہا کہ یہ میرا ذاتی نظریہ نہیں میرے رسول نے تیرہ سو سال قبل یہ مصلحت آمیز ہدایت جاری کی تھی،یہ حدیث سنتے ہی میسولینی کُرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے میز پر دونوں ہاتھوں مارتے ہوئے کہا کتنا خوبصورت خیال ہے۔

(جاری ہے)


کہا جاتا ہے ، کہ آپ کی حیات مبارکہ میں اِس اُصول کی سخت پابندی کی گئی مدینہ کی آبادی کوخاص حد سے زیادہ بڑھنے نہ دیا گیا، عالمی ادارہ صحت کی حالیہ رپورٹ میں بھی شہر مدینہ کو دُنیا کا صحت اَفزاء شہر قرار دیا ہے۔
یہ کیسا تضاد ہے کہ وہ شہر جس میں شاعر مشرق آسودہ خاک ہیں اِسکا شمار دُنیا کے بدترین آلودگی والے شہروں میں ہوتاہے، یہاں دن میں سانس لینا اتنا ہی دشوار ہے جتنا رات کی تاریکی میں،سموگ کے حوالہ سے یہ اپنی خاص شہرت رکھتا ہے،علامہ اقبال کے سنہری مشورہ پر تو اٹلی میں آج تک عمل ہو رہا ہے لیکن ہمارے مقتدر طبقہ نے علامہ کے خوبصورت تصور کو در خوداعتناء ہی نہیں سمجھا ہے، اہل لاہو کی حیاتی کا آدھا حصہ تو شاہراہوں پر گذرجاتا ہے جو سکون کی تلاش میں گھر کا سفر کرتے ہیں وہ بھی سانس اور سینے کی بیماریاں ساتھ لے کر جاتے ہیں، دیگر شہروں سے جانے والے بھی اَپنے حصہ کی آلودگی جذب کرتے ہیں ،اِس کا اندازہ راقم کو شادیوں میں شرکت کی بدولت ہوا، پیارے کزن پروفیسر ڈاکٹر معروف سرجن محمد ممتاز کے فرزندسالار اور انکے بھائی مشتاق کے بیٹے ارسلان کی شادی اگرچہ ہفتہ بھر کے وقفہ سے لاہور میں تھی، اِس میں شرکت نے آدھے لاہور کا جغرافیہ سمجھا دیا۔


 ہمیں معترف ہونا ہے ان سیاست دانوں کا جنہوں نے موٹر وے کی تعمیر سے سفر کو سہل بنا دیا ہے، ورنہ کون سوچ سکتا تھا کہ کراچی سے لاہور کی مسافت صرف چند گھنٹے پر مشتمل ہوگی، مسافر کا اگلا امتحان تب شروع ہوتا ہے جب وہ لاہور کی سرزمین پر قدم رکھتا
 ہے، کراچی اور پشاور سے چلنے والی گاڑیاں جب ٹول پلازہ پہنچتی ہیں تو سارے ٹارگٹ دَھرے کے َدھرے رہ جاتے ہیں، نئے خدشات جنم لیتے ہیں،گاڑیوں کی لمبی قطاریں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ موٹر وے بنانے والوں نے اِس ذہنی کوفت کو کیلکو لیٹ نہیں کیا ، ڈالر میں منگوایا گیا پٹرول ہماری نگاہوں کے سامنے ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے ، یہ اذیت ہر ٹال پلازہ پر اٹھانا پڑتی ہے ،ایک ہی مقام پر دوٹکٹ کے اَجراء میں کیا مصلحت ہے یہ تو موٹر وے کی انتظامیہ ہی بتا سکتی ہے مسافر کو ذہنی پریشانی سے بچا کر اگر خوشگوار مسافت پیش نظر ہو تو موٹر وے پر داخل ہونے کے مقام سے آخری ٹال پلازہ تک واجبات کی وصولی سے وقت اور پیسہ دونوں کی بچت ممکن ہے۔


 اِس انتظار سے اگر خلاصی ہو بھی جائے تو شہر کی بے ہنگھم ٹریفک آپ کا استقبال کرتی ہے، چند میل کا فاصلہ صدیوں پر محیط ہو جاتا ہے، رنگ روڈ بھی اِس غم کا مداوہ کرنے میں ناکام نظر آتی ہے، غیر منظم ڈرائیور اِس مشکل کو ہل من مزید کے مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں ،بچوں کے ساتھ گاڑی سے باہر جانے کا رسک تو لیا ہی نہیں جاسکتا ہے قریباً ہر حکمران نے بڑے شہر کو ”پیرس “بنانے کے دعوے تو بڑے کئے ہیں، زمینی حقائق یہ ہیں ، اب ہر بڑا شہر وبال جان بنا ہوا ہے ،بقول منیر نیازی، وڈے شہر وساں بیٹھے آں۔

سوچی پے آں ہون کی کریے۔
 لاہور کو چونکہ مرکزی حثیت حاصل ہے اس لئے پنجاب بھر سے کسی نہ کسی شہری کو یہاں آنا ہی پڑتا ہے،بے ہنگم ٹریفک، بڑھتی آلودگی نے وہاں کے باشندوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے،وہ شہر جو کبھی پھولوں، باغات ، پارکوں کی پہچان رکھتا ہے آج دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے کچی آبادیاں جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ ہیں،اعدادو شمار کا ناقص انتظام بنیادی سہولیات کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ ہے، شہری حکومت کے تعطل نے صاف پانی، ٹرانسپورٹ، سیوریج،پختہ سڑکوں اور پارکوں کی تزین آسائیش،شجر کاری جیسے مسائل کو نمایاں کیا ہے، پنجاب سرکار کے آرڈیننس کی منظوری کے بعد یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ ایل ڈی اے، واسا بھی شہری حکومتوں کی زیر نگرانی کام کرتے ہوئے شہریوں کی زندگی کو آسودہ بنائیں گے، ماس ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ کے قیام سے کسی حد تک سڑکوں پر ٹریفک کا بوجھ کم کرنے مدد ملی ہے،تاہم ان ضمن میں بڑی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، جفت اور طاق کی بنیاد پر ذاتی گاڑیوں کی آمدورفت سے بھی آلودگی میں کمی کا امکان ہو سکتا ہے۔


عوامی نمایندگان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کتنے شہری آلودگی کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، کتنے سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، بھاری بھر ریونیو سرکار کو فراہم کرنے کے بعد بھی اگر شہری اذیت ناک ماحول میں جی رہے ہیں تو اس سے بڑی کوئی غلامی نہیں، کیا وقت کا تقاضہ نہیں کہ بڑے شہروں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی بابت قانون سازی کی جائے، شہری اور مقامی حکومتوں کو انتظامی اور معاشی طور پر خود مختیار بنایا جائے۔

اس بڑھ کر ہماری اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ نبی آخر زماں کی ہدایت کے باوجود ہم نے شہری آبادیوں کو کنڑول نہ کر کے مجرمانہ غفلت کی ہے او ر زندہ انسانوں کو صاف فضا میں سانس لینے سے محروم کر کے بد اخلاقی کا ارتکاب کیا ہے، دنیا کے بڑے شہر وں کی منصوبہ بندی کو ماڈل بنا کر ہم اپنے شہریوں کو آلودگی سے نجات دلاسکتے تھے ،لیکن شائد ہماری ترجیح انسان نہیں مفادات ہیں۔کیا ایسا رویہ کسی ذمہ دار ریاست کا ہو سکتاہے؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :