تم اکیلے نہیں

ہفتہ 25 اپریل 2020

Khalid Mahmood Faisal

خالد محمود فیصل

کہا جاتا ہے،جب غازی علم دین شہید نے گستاخ رسول کو جہنم واصل کیا، تو ہندو دین اسلام پر حملے کرنے لگے اور اعلانیہ کہا جانے لگا،اسلام تلوار اور تشدد کا مذہب ہے، محمد علی جوہر نے جامع مسجد دہلی میں بڑی درد مندی سے کہا !کاش کوئی شخص اسلام کے مسئلہ جہاد کی پوری وضاحت کر ے تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں،اس عہد میں صرف چوبیس سال کی عمر میں بیسویں صدی کے مجدد سید مودودی نے ”الجہاد فی اسلام“ شاہکار کتاب لکھی، جب یہ مسودہ علامہ اقبال کے ہاتھ لگا تو انہوں نے بہت پذیرائی کی،اقبال کی دعوت پر سید مودودی نے لاہور کا رخت سفر باندھا، اگرچہ جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آچکا تھا لیکن تقسیم ہند کے بعد نام کے ساتھ پاکستان کا اضافہ کردیا گیاتھا، لیکن سید کے وژن نے ہم عصرجما عتوں کے مقابلہ میں اسکی بنیاد دستور اور اصول پر رکھی تھی ،جن اداروں کے قیام کا مشورہ مسلم لیگ کے راہنماء خواجہ سعد رفیق اب سیاسی جماعتوں کو اب دے رہے ہیں، سید مودودی نے جماعت کے قیام کے ساتھ ہی اس پر عمل درآمد کر لیا تھا، انھوں نے قریبا تمام شعبہ زندگی سے تعلیم یافتہ افراد کو اپنی اپنی جگہ پر دعوت دین کے ساتھ ساتھ، بلا تعصب،جذبہ حب الوطنی سے فرائض انجام دینے کی ذمہ داری تفویض کی تھی ،ان میں اساتذہ، طلباء، وکلاء،ڈاکٹرز، علماء کسان ، تاجر، اور ٹریڈیونین، اور مزدوروں کا طبقہ شامل تھا۔

(جاری ہے)


قیام پاکستان کے وقت جب سب بھنگی لاہور چھوڑ گئے تھے تو تاریخ گواہ ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانان نے گند تک اپنے ہاتھوں سے اٹھایا تھا، اس طرح و الٹن میں جہاں مہاجرین مقیم تھے وہاں انکی خدمت میں بھی مصروف رہے، یہ خدمت خلق کا شعبہ تھا جو اس وقت محدو د پیمانے پر متحرک تھا،مگر ضرورت مندوں کی پذیرائی کی جاتی تھی،غالبا ستر کی دہائی میں ملتان میں ہیضہ کی وباء پھیلی جب سہولیات بھی محدود تھیں تو اس وقت ملتان کے معروف قانون دان وزیر خاں غازی، اور تاجر عقیل صدیقی مرحومین نے نشتر ہسپتال کے سامنے کیمپ لگایا اور متاثرین کی ہر ممکن مدد کی، جب ان دنوں سیلاب آیا تو اس وقت کے امیر جماعت اسلامی ملتان محمد اعظم مرحوم نے فوج کے ساتھ مل کر متاثرین کو محفوظ مقامات تک پہنچایا، انسانی خدمت کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنی خود جماعت، لیکن نوئے کی دہائی میں سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مرحوم نے ” خدمت خلق“ کے شعبہ کو سرکاری سطح پر رجسٹرڈ کروایا ، محترم لیاقت بلوچ اسکے پہلے صدر،اور احسان اللہ وقاص جنرل سیکرٹری بنے،اس کے بعد سے یہ تنظیم ” الخدمت فاونڈیشن پاکستان“ کے نام سے ملک بھر میں بلا امتیاز، رنگ ونسل، عقیدہ، مذہب سماجی خدمت انجام دے رہی ہے، عوامی اعتماد، پذیرائی، تعاون سے یہ آرگنائزیشن صحت، تعلیم، صاف پانی #ڈایئگناسٹک سنٹرز، ناگہانی آفات کے علاوہ غرباء کے لئے فوڈ کی فراہمی، مستحق طلباء کے لئے وظائف، بے روزگاروں کے لئے بلاسود قرض ، یتامیٰ کی پرورش، بے سہارا بچوں کی ترتبت ،انکی پناہ گاہوں کی تعمیر قابل ذکر شعبہ جات میں خدمات دے رہی ہے۔

قابل تحسین ہے اسکی قیادت نے اپنی سرزمین سے جنم لیا اس کا کوئی کنٹری منیجر نہیں، نہ ہی یہ کوئی خفیہ ایجنڈا رکھتی ہے،اس کو البتہ یہ ایج ضرور حاصل ہے وہ افرادی قوت جو ایک زمانے میں جماعت یا جمعیت سے وابستہ رہی اب ان میں جو کوئی بھی دیارغیر میں ہے، اسکا قلبی تعلق بھی
 ہے تو وہ اس کار خیر میں شریک ہے، نیز جماعت کی اصطلاح میں جو برادر تنظیمیں ہیں وہ بھی اپنا تعان انسانی خدمت کے لئے پیش کرتی ہیں، اسکی مثال الفلاح سکالر شپ کی ہے، امریکہ میں مقیم معروف تاجر محترم شکور عالم اپنے حلقہ احباب سے ارض وطن کے نادار طلباء کے لئے امریکی کمیونٹی سے فنڈز اکٹھا کر کے الخدمت کو دیتے ہیں،گذشتہ دنوں وہ جنوبی پنجاب تشریف لائے،انکے ہمراہ سنیئر نائب صدر احسان اللہ وقاص،اور پروگرام انچارج علی رضا بھی تھے،ایک تقریب جسکی نظامت کے فرائض راقم نے ادا کئے کم وبیش جنوبی پنجاب کے 162 طلباء طالبات کو اور پاکستان میں مجموعی طور پر 24کروڑ کے وظائف دیئے گئے،علاوہ ازیں اس کے زیر اہتمام دوسو سے زائد بستر پر مشتمل’ ’الخدمت ہسپتال ملتان“ تکمیل کے آخری مراحل میں، رحیم یار خاں، لیہ ، ودیگر مقامات پر شعبہ صحت میں گرانقدر خدمات اس کے ریکارڈ پر ہیں، اہل ملتان کے لئے ایک جدید جاپانی طرز کا ڈایئگناسٹک سنٹر انتہائی ارزاں نرخوں پر مریضوں کو ٹسٹ کی سہولیات فراہم کررہا ہے۔

دیگر سرگرمیاں بھی اسی طرح جاری و ساری ہیں۔
اس پس منظر کا مقصد یہ تھا کہ جماعت کی تاسیس سے صرف سیاسی مقاصد ہی سید مودودی کے پیش نظر نہیں تھے،کیونکہ وہ سیاست کو کاروبار کی بجائے خدمت کا درجہ دیتے تھے ۔
 کروناء وباء کے خلاف عصر حاضر میں الخدمت کی عوام کو ریلیف پہنچانے کی پذیرائی جوعوام، اہل علم وقلم ، سیاسی زعماء،مذہبی راہنماوں، دانشور طبقہ نے کی ہے وہ بھی مثالی ہے،اسکے امیر خود کارکنان کے ہمراہ رہے ،انھوں نے ہسپتالوں میں جاکر کروناء کے متاثرہ مریضوں کی اس وقت عیادت کی جب سب ڈر سے دبک کر کمروں میں بیٹھ گئے ، محتاط اندازے کے مطابق ایک ارب سے زائد مالیت کا راشن اور امدادی، حفاظتی سامان ضرورت مندوں میں تقسیم ہوچکا یہ سلسلہ تادم تحریر جاری ہے۔

دلچسپ یہ کہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو بھی سپرے سے محفوظ کیا گیا، جانوروں کو کھانا کھلایا گیا، قیدیوں کی خبر لی گئی، ڈاکٹرز، جیل اور پولیس کے عملہ کو حفاظتی لباس دیئے گئے، الخدمت کی مرکزی قیادت بھی امیر محترم کے شانہ بشانہ رہی۔
 اکیلی حکومت کبھی بھی اس نوع کی ناگہانی آفت سے نبردآزماء نہیں ہوسکتی، عوام،سماجی طبقات، این۔

جی۔ اوز کو ہی دست بازو بننا پڑتا ہے،تاہم الخدمت فاونڈیشن نے پہلے قدم اٹھا کر درخشاں روایت قائم کی ہے، جس کا کوئی سیاسی مقصد بھی نہ تھا، انسانی خدمت اور اس وطن کے باسی ہی انکے سامنے تھے۔نظریاتی طور پر جماعت سے وابستہ ڈاکٹرز کی تنظیم پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن بھی انکے ساتھ شبانہ روز محنت میں مصروف رہی،اور گراں قدر خدمات انجام دیں۔

حیرت انگیز یہ ہے کہ خوف کے اس ماحول میں جب سبکو اپنی جان کے لالے پڑے تھے، الخدمت کے کارکنان بلامعاوضہ دیر سے کراچی تک عوام کی دہلیز تک راشن دینے میں مگن تھے،یہ پیسہ اپنی جیب سے تو نہیں لگا رہے تھے ، عوام کا دیا تھا،طرفہ تماشہ یہ تھا، عوام نے مشکل وقت کے لئے اپنے سیاسی نمائندے چنے تھے وہ خود ان کے ساتھ گھروں میں بند تھے اور وہ ایلیٹ کلاس کا طبقہ جس کا دل صرف” صنف نازک“ کے حقوق کے لئے ہی دھڑکتا ہے، جو بھاری بھر فنڈ ”انسانی خدمت“ کے نام پر عالمی اداروں سے لیتی رہیں، وہ اس مرحلہ پر کہیں بھی دکھائی نہیں دیں۔

سابقہ سرکار نے اس طرز کی بہت سی این۔ جی۔اوز کو اس لئے دیس نکالا دیا تھا کہ انکے عزائم ہماری قومی پالیسی سے میل نہیں کھاتے تھے، اس قماش کے گروہ کو دیا جانے والا بجٹ ، اگر ہمارے خزانہ پر بوجھ ہے تو اس سے ہاتھ کھینچ لینے میں کوئی حرج نہیں اگر یہ مفاداتی گروہ ہمارے دکھوں پر مرہم نہیں رکھ سکا توآیندہ امید رکھنا ہی عبث ہے اس مشکل میں عوام کو تنہائی سے نکالنے کے لئے ”تم اکیلے نہیں “کا جو سلوگن الخدمت نے دیا ہے ہمارا یقین ہے، یہ قطعی عارضی نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :