سفاک ہلاکوخان کا بھیانک انجام

ہفتہ 23 جنوری 2021

Ma Gi Allah Walley

ماں جی اللہ والے

ہلاکو خان اپنے دادا چنگیز خان کی طرح تاریخ کا سب سے سفاک،ظالم، اور جابر منگول حکمران تھا۔منگول زبان میں ہلاکو خان کا مطلب ہے ''حد سے بڑا ہوا۔''اپنے نام کے معنی کے مطابق ہلاکو خان نے افریقہ کے صحراوں سے لے کر ایشیاء کی وادیوں تک اپنی حکمرانی قائم کرنے کے لئے بے گناہ انسانوں کے خون سے بھری جنگوں کی جو تاریخ لکھی وہ کبھی بھلائی نہ جاسکے گی۔

ہلاکو خان نے سب سے پہلا خون نو سال کی عمر میں ایک بکری کا شکار کرکے بہایا جس پر اسے اپنے دادا چنگیز خان کی طرف سے شاباش بھی ملی۔ہلاکو خان کی سفاکیت جس قدر مشہور ہے اسی قدر اس کی موت کا قصہ بھی مشہور ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ ہلاکو خان کے سامنے مسلمان قیدی تین صفوں میںکھڑے اپنی موت کا انتظار کررہے تھے،چاروں طرف سے وحشی تاتاری افواج نے انھیں اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا۔

(جاری ہے)

ہلاکو خان اپنے گھوڑے پر بیٹھاتکبرانہ انداز میں مسلمان قیدیوں کو دیکھ رہا تھا۔اس کے ہاتھ میں گرز(ایک وزنی جنگی ہتھیار) تھا جسے وہ ہوا اچھال کر اپنی طاقت کا مطاہرہ کررہا تھا۔ہلاکو خان نے روائتی انداز میں جلاد کو حکم دیا کہ''جلاد ، قیدیوں کے سراڑا دو۔''ہلاکوخان کاحکم ملتے ہی خوفناک شکل کا جلاداپنے ہاتھ میں کلہاڑے نما بڑی تلوار کے کر آگے بڑھا اور پہلی صف میں کھڑے قیدیوں کے سر تن سے جدا کرنے شروع کردیئے۔

پہلی صف کے آخر میں ایک بوڑھا غریب قیدی بھی کھڑا تھا جو اپنے گھر کا واحد کفیل تھا۔وہ موت کے ڈر سے آہستہ آہستہ سرکتا ہوا قیدیوں کی پچھلی صف میں جاکر کھڑا ہوگیا۔ہلاکو خان کی نظروں نے بوڑھے قیدی کو پچھلی صف میں جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا لیکن وہ خاموش رہا ۔ہلاکو خان اپنا وزنی جنگی ہتھیار ''گرز'' اچھالتے ہوئے قیدیوں کے سر قلم ہوتا دیکھ رہا تھا۔

جلاد جونہی ایک وار میں قیدی کا سر اڑاتا تو خون کے فوارے اچھل پڑتے جسے دیکھ کر تاتاری خوشی سے اپنی تلواریں اور نیزے لہرا لہرا کر شور مچانے لگتے۔اس خونی منظر سے ہلاکو خان بھی لطف اندوز ہورہا تھا۔جب پہلی صف کے قیدیوں کے سر تن سے جدا ہوگئے تو جلاد دوسری صف کی جانب بڑھا۔بوڑھا قیدی جو دوسری صف میں تھا،وہ پھر چپکے سے تیسری اور آخری صف میں جاکر کھڑا ہوگیا لیکن اسے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ ہلاکوخان کی نظریںاب بھی اس پر جمی ہوئی تھی۔

ہلاکوخان دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ یہ بے وقوف بوڑھا اب آخری صف سے نکل کر کہاں چھپے گا؟ میں نے لاکھوں انسان مار دیئے تو یہ بے وقوف قیدی بھلا کیسے بچ پائے گا؟
ادھر جلاد نے دوسری صف میں کھڑے قیدیوں کے بھی سرقلم کردیئے جب جلاد تیسری اور آخری صف کی جانب بڑھا تو بوڑھا قیدی خوف اور پریشانی میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔جلادآخری صف کے قیدیوں کی گردنیں اڑانے کے بعد بوڑھے قیدی کے پاس پہنچ گیا اور اس کی گردن اڑانے کے لئے تلوار ہوا میں بلند کی تو ہلاکو خان کی آواز گونجی''رک جاو،اس کی گردن ابھی مت اڑانا۔

''جلاد نے اپنی تلوار نیچے کرلی،سب خاموش ہوگئے کہ ماجرا کیا ہے۔ ہلاکو خان، بوڑھے قیدی سے مخاطب ہوکر ہولا''ارے بوڑھے تو اپنی موت سے بچتا ہوا پہلی صف سے دوسری صف میں اور پھر دوسری صف سے تیسری صف میں آگیا،اب پیچھے کوئی صف بھی نہیں بچی،اب بتا تجھے کون بچائے گا؟''بوڑھے مسلمان قیدی نے یک دم جذبہ ایمانی سے سرشار ہوکر جواب دیا''وہ اوپر والی ذات اگر چاہے توکچھ بھی کبھی بھی ممکن ہے ، اگر وہ چاہے تو ان حالات میں بھی مجھے ، تجھ سے بچا سکتا ہے۔

'' ہلاکو خان یہ سن کر غصے میں آگیااوربولا''کون بچا سکتا ہے؟کیسے بچا سکتا ہے؟'' ہلاکو خان ''گرز''کو تکبرانہ انداز میں ہوا میں لہرارہا تھا کہ وہ اس کے ہاتھ سے پھسل گیا۔ہلاکو خان نے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے تھوڑا سا آگے جھک کر''گرز'' کو پکڑنے کی کوشش کی تو اپنا توازن برقرار نہ رکھا سکا،اس کا ایک پاوں رکاب سے نکل گیاور وہ اپنے گھوڑے سے نیچے گرگیا جبکہ اس کا دوسرا پاؤں رکاب میں ہی پھنس کر رہ گیا۔

ہلاکو خان نے زور سے ہاتھ پاوں مارے تو اس کا گھوڑاڈر گیا اور سرپٹ بھاگنے لگا۔ہلاکوخان کو بچانے کے لئے اس کا لشکر بھی حرکت میں آگیا لیکن گھوڑا اتنا طاقتور تھا کہ کسی کے قابو میں نہ آسکا۔ گھوڑا چٹانوں کی جانب نکل گیا اور ہلاکوخان کو پتھروں پر گھسیٹنے لگا۔ہلاکو خان کا سر پتھروں سے ٹکرا کر لہولہان ہوگیا اور کچھ ہی لمحوں میں اس کی روح اپنے تکبرانہ وجود کو چھوڑ کر جہنم رسید ہوگئی۔

لشکر نے بے انتہا کوششوں کے بعد گھوڑے کو قابو کرلیا تو دیکھا ہلاکوخان کا سربری طرح کچل چکا تھا ۔ لشکرخوفزدہ ہوگیا اور جان بوجھ کربوڑھے قیدی کو نظر انداز کردیا۔بوڑھا مسلمان قیدی بڑے آرام او رسکون سے پیدل چلتا ہوااپنے گھر کی جانب روانہ ہوگیا جبکہ ایک سفاک ،درندہ صفت انسان اپنے بھیانک انجام کو پہنچ گیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :