تم بدلو گے تب بدلے گا پاکستان

پیر 22 مارچ 2021

Maisha Aslam

معیشہ اسلم

میں بڑے افسوس کے ساتھ اس تحریر کو لکھ رہی ہوں کہ ہمارے ملک کو وجود میں آئے 74 سال ہو گئے ہیں لیکن آج بھی میرا ملک بیساکھیوں پر کھڑا ہے۔
میں نے ہمیشہ لوگوں کو یہی کہتےسنا ہے کہ ملک نے ہمیں کیا دیا؟ آج میں اپنے تمام پاکستانیوں سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ ہم نے پاکستان کو کیا دیاہے؟ ہم نے پاکستان کے لیے ایسا کیا کیا کہ ہمارا وطن دوسرے ممالک کی نسبت مضبوط ہو سکے؟ اگر اپنے ضمیر سے پوچھیں تو آواز آئے گی نہیں کہ ایسا کوئی کارنامہ ہم نے سر انجام نہیں دیا جس سے ہماراوطن دن دگنی رات چوگنی ترقی کر سکتا۔


یہاں میرے ذہن میں چند سوالوں نے جنم لیا ہے کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ اتنے سال گزر جانے کے بعد ہمارا ملک کمزور کیا ہے؟ میں اس نتیجے میں پہنچی ہوں کہ اسکی سب سے بڑی وجہ ہم خود ہیں۔

(جاری ہے)

ہم نےنا توکبھی خودکو بدلنے کی کوشش کی اور نہ اپنے اس خوبصورت وطن کو بدلنے کی کوشش کی۔
سورۃالرعد کی آیت نمبر 10 میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ”بےشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے“۔


اس آیت سے صاف واضح ہے کہ جب تک ہم خود کی حالت کو نہ بدلیں تب تک ہماری ساخت کمزور رہے گی۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے محترم قائد محمد علی جناح نے کتنی محنت اور کوششوں  کے بعد اس ملک کو حاصل کیا کتنے ہی لوگوں کا خون اس زمین میں شامل ہے۔ اس ملک کو حاصل کرنے کی سب سے بڑی وجہ مسلمانوں کا ایک قوم بن کر تمام دشمنوں کا بہادری سے مقابلہ کرنا تھا ۔

لیکن اس ملک کو حاصل کرنے کے بعد قوم میں نااتفاقی نے جنم لیا اور آج میرے زمین کے لوگ چند حکومتی جماعتوں اور فرقوں  میں بٹ کر رہ گئے ہیں جس کی وجہ سے ہم لوگوں نے اپنے طرزِ زندگی پر توجہ تو دی لیکن اس جنت جیسی وادی کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا۔
یہاں ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنے ملک میں بنائے جانے والے قوانین کی ہمیشہ خلاف ورزی کی اور ہمارے بعد وجود میں آنے والے ممالک نے اپنا لوہا منوایا اور آج یہی ممالک اس قدر ترقی کر چکے ہیں صرف اس وجہ سے کہ انھوں نے اپنے ممالک کے بنائے ہوئے قوانین کی پاسداری کی۔


آج تک ہم نے کتنے ہی قوانین کی پاسداری کی ہے حال ہی میں حکومت کی طرف سے کرونا جیسی خطرناک بیماری سے بچنے کیلئے ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا لیکن مجال ہے کہ اس قوم کے کان پر جُوں رینگی ہو۔ الٹا حکومت کا مزاق بنایا گیا اور یہ کہا جاتا رہا کہ ایسی کوئی بیماری موجود ہے ہی نہیں تو سبحان اللہ سہرا ہے اس قوم کے سر۔
ذرا سوچیے ہم اپنے وطن کو صاف ستھرا رکھنے کے لیےکیا کیا آپ کے سامنے اس کی سب سے واضح مثال کراچی ہے جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا آج وہ شہر گندگی کی وجہ سے جانا جانے لگا ہے ۔

راہ چلتے کھانے پینے کی اشیاء کھا کر ان کے ریپرز کو باہر سڑکوں پر پھینک دینا کبھی راہ چلتے سڑک پر تھوک دینا جگہ جگہ پان کی پیک کے نشان دیکھنے کو ملتے ہیں اور کتنے ہی لوگوں نے اس ملک کی سڑکوں کو اپنا واش روم بنایا ہوا ہے کتنے ہی لوگ ٹریفک اشارہ بند ہونے کی وجہ سے اس ملک کے نظام کو گالیاں نکالتے ہیں اور پھر اسی اشارے کو توڑ کر فخر محسوس کرنا میرے پاکستانیوں کی تمام خوبیوں میں سے ایک ہے۔

ہماری بےایمانیوں کی وجہ سے آج بیرون ممالک میں پاکستان کو وہ حیثیت نہیں ملتی جو اس کو ملنی چاہیئے۔
ایک چھوٹا سا خطہ بھی اپنے لوگوں سے پہچانا جاتا ہے اس طرح پاکستان کی پہچان بھی ہم ہی سے بنےگی۔
میرے ذہن میں ایک اور اہم سوال نے جنم لیا ہے کہ میں نے بچوں سے صرف یہی کہتے سنا کہ میں بڑا ہو کر ڈاکٹر بنوں گا یا بنوں گی, کوئی انجینئر بننا چاہتا ہے تو کوئی ماہرفلکیات, لیکن آج تک کسی بچے کو یہ کہتے نہیں سنا کہ میں بڑا ہو کر وزیراعظم بنوں گا اس ملک کو ترقی کی راہ پر لانے کے لیےمحنت کروں گا, وزیر اعظم بننا کوئی آسان کام نہیں اگرچہ اس پر غور کیا جائے تو نا ممکن بھی نہیں ہے۔


والدین اپنے بچوں کی پرورش کرنے  میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے ان کو اچھی سے اچھی تعلیم دینے کی کوشش کرتے ہیں کچھ والدین اپنے بچوں کو تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک بھیجتے ہیں اور کچھ وہاں جا کر نوکریاں کرتے ہیں البتہ اس میں کوئی برائی نہیں لیکن اپنے ملک کی اس خستہ صورتحال پر افسوس ہوتا ہے ہمارے حکمران جب جب اس ملک پر حکومت کرنے براجمان ہوئے انہوں نے صرف اپنے مفادات کو ترجیح دی اور اس ملک کی حیثیت کو نقصان پہنچایا اور اس میں بھی سب سے بڑی غلطی ہماری ہے کہ  ایسے ناکارہ اور unprofessional لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں اور اپنا مستقبل ان کے ہاتھوں میں تھما دیتے ہیں۔


ایسے اور بھی بہت سے پہلوؤں پر تفصیلی بات چیت ہو سکتی ہے اگر میں لکھتی چلی جاؤں تو شاید بات کہیں سے کہیں جلی جائے گی اور قلم بھی رکنے کا نام نہیں لے گا ۔
آخر میں اپنے تمام پاکستانیوں سے درخواست کرتی ہوں کہ خدارا اپنے ملک کو کوسنے کے بجائے اس بات پر غور کریں کہ ہم کس طرح ہم اپنے ملک کو سدھار سکتے ہیں۔ اپنے ملک کے بنائے گئے قوانین پر عمل پیرا ہوں۔

والدین سے بھی گزارش ہے کہ اپنے بچوں کو اس ملک کی عزت کرنا سکھائیں, اپنے بچوں کو تاریخ کے بارے میں بتائیں ۔
صرف 14 اگست کو ہی آزادی  کا دن سمجھ کر  خوشیاں نہ منائیں بلکہ ہر روز اپنے روشن خیالات کے پیش نظر اپنے ملک کو بھی روشن کرنے کے لیے خدمات انجام دیں, بیرون ملک کے بجائے اپنے ملک کو ترجیح دیں۔ اس ملک نوجوان نسل سے صرف یہی کہنا چاہونگی کہ اگر ہر کوئی ڈاکٹر, انجینئر جیسی تعلیم حاصل کرے گا تو اس ملک کی حالت کون سدھارے گا۔ اس ملک کے نوجوانوں کو سیاست میں بھی قدم جمانے چاہیے تا کہ اس قوم کا مستقبل روشن ہو سکے۔ اس تحریر کو لکھنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اس ملک کو بدلنے کے لیے سب سے پہلے ہم خود کو بدلنا ہو گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :