ہم اور ہمارے منفی رویے!

جمعہ 25 جون 2021

Masud Siddiqui

میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ)

قومی اسمبلی میں ہونے والی تازہ ہلڑبازی نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کیا کہ ہمارے وہ نماٸندے جنہیں ہم ووٹ دے کر ایوانوں میں لاتے ہیں اور جو پوری دنیا کے سامنے ہمارے ملک کی تصویر پیش کرتے ہیں ان میں سے بیشتر ذہنی طور ہر کتنے نابالغ سیاسی طور پر کتنے ناپختہ اور غیر سنجیدہ ہیں۔ اس ناپختگی اور نابالغی میں حکومتی جماعت یا حکومت مخالف جماعتوں کے نماٸندے بالکل ایک جیسے ہیں۔

یا یوں کہا جاے تو غلط نہ ہو گا کہ ایک اگر سیر ہے تو دوسرا سوا سیر۔
اس قسم کی بچگانہ حرکات ہمارے ایوانوں میں آج پہلی مرتبہ نہیں ہوٸیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی حرکات مہزب دنیا کے ایوانوں میں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن ہمارا معاملہ دوسروں کی نسبت کچھ مختلف ہے۔ وہ اس طرح کہ دنیاے اسلام کی ایک مضبوط اور نمایاں مسلم مملکت ہوتے ہوے اور دنیا کہ سامنے یہ پرچار کرتے ہوے کہ ہمارا مزہب امن و آشتی کا علمبردار ہے اور ہمارے مزہب کی تعلیم دینے والے عظیم پیغمبر نے ہمیں ہر معاملہ صلح رحمی اور صبر و تحمل کے ساتھ سلجھانے کی تلقین کی ہے ہمارے یہ رویے ان تعلیمات اور اس پرچار کی عملاً نفی کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہمارے آقاﷺ نے تو افہام و تفہیم کی انتہا صلح حدیبیہ کے موقع پر عملاً کر کے دکھادی تھی اور امت کو یہی درس دیا تھا کہ جھگڑے اور فساد کی فضا قاٸم کر کے کبھی معاملات سلجھاے نہیں جا سکتے۔ مدینہ کی ریاست کے قیام کے دعوے داروں کو زہن میں رکھنا نہایت ضروری ہے کہ جب اصل میں ریاست مدینہ قاٸم ہوی تو اس وقت جو حکومت کے مخالفین تھے وہ غیر مسلم اور یہودی تھےجو مدینہ میں اور مدینہ کے آس پاس آباد تھے۔

نبی رحمت نے ان سے جھگڑنے کی بجاے بزات خود ان کے ساتھ تمام معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ طے فرمایا اور اپنےنماٸندوں کو بھی یہی حکمت عملی اختیار کرنے کی تلقین کی۔ کیونکہ یہی ایک مہزب اور اخلاقی طرز عمل ہے۔ اور آپﷺ نے مدینہ کے اندر امن و سکون کی خاطر ان سے معاہدے کیے تاکہ اندرونی حالات سے مطمن ہو کر بیرونی معاملات نبٹاے جا سکیں۔

  جبکہ ہمارے ہاں تو اپنے ہم مزہب اور ہم وطنوں کے ساتھ معاملات میں افہام و تفہیم کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اختلاف راے اور اس کا اظہار ہی جمہوریت کا حسن ہے لیکن یہ اظہار تہزیب و اخلاق کے دایروں میں رہ کر ہی کیا جاے تو جمہوریت کا حسن برقرار رہتا ہے۔ دوسری صورت میں مقدس ایوانوں میں مچھلی منڈی جیسا ماحول قایم ہوتا ہے۔
یہاں ایک غور طلب بات یہ بھی ہے کہ مغرب اور دیگر ممالک میں بالخصوص پاکستانیوں اور مزہب اسلام کے متعلق جو منفی جزبات اور احساسات پاے جاتے ہیں ان کی پشت پر ہمارے ایسے ہی رویے ہیں جو آج کے اس ترقی یافتہ ذرایع ابلاغ کے دور میں منٹوں سیکنڈوں میں ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔

جس طرح ہم یہودی۔ ہندو ۔ عیسای اور دیگر اقوام کی حرکات کو ان کے مزہب کے حوالے سے جنونی اور انتہا پسند ہونے کے القابات سے نوازتے ہیں اسی طرح وہ اقوام بھی ہمارے مزہب ہی کا نام لے کر ان حرکات کی وجہ سے اپنے منفی جزبات کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتے ہیں۔ جس میں کبھی وہ توہین آمیز کارٹون بناتے ہیں۔ تو کبھی ہمارے اسلاف کو برے القابات سے نوازتے ہیں۔

کیا ان کی اس نفرت کے پیچھے ہمارے ان منفی رویوں کا ھاتھ نہیں جو ہم آپس میں روا رکھتے ہیں۔ میری ناقص راے میں اس قسم کی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں حکومتی ارکان کا کردار زیادہ اہم ہے۔ ان کے اندر تحمل۔ برداشت۔ صبر اور دوسرے کے بات سننے اور اعتراض برداشت کرنے کاحوصلہ ہونا چاہیے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آے دن ان میں سے کسی نہ کسی کی جانب سے انتہا پسندی کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔

کبھی تو کسی میڈیا ٹاک شو میں اور کبھی کسی عوامی جگہ پر عدم برداشت کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔ ایسا ہرگز  نہیں ہے کہ حزب اختلاف کی جانب سے مثبت رویے دکھاے جاتے ہوں۔ بلکہ وہاں بھی اسی قسم کے رویے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن چونکہ حکومت امن عامہ اور معاملات کو سلجھانے کی زمہ دار ہوتی ہے لہٰزہ ان کے نمایندوں پر زیادہ زمہ داری عاید ہوتی ہے۔


ہمارے سیاستدانوں کے ایسے بچگانہ رویوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں سیاست و قیادت کے  شعبے سے منسلک خواتین و حضرات کے لیے پیشہ وارانہ تعلیم و تربیت کا کوی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے۔ ہمارے سیاستدانوں میں سے بیشتر تو اپنے خاندان کے بڑوں کے زیر سایہ اس ہنر کی تعلیم کے مراحل طے کرتے ہیں اور یا پھر بزرگ سیاستدانوں کی رہنمای کے مطابق آگے بڑھتے ہیں۔

ماضی میں چونکہ اس شعبے میں آنے والوں کے لیے تعلیم کی کوی قید نہیں تھی اس لیےبیشتر پرانے سیاستدان معمولی تعلیم کی وجہ سے اس دور اندیشی اور سیاسی بصیرت سے بےبہرہ تھے جس کی موجودگی میں معاملات باہمی گفت و شنید کے ذریعے  حل کیے جا سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے نوجوان سیاستدانوں کے طرز عمل بھی پرانے لوگوں سے کچھ مختلف نہیں۔ یہاں تک کہ بعض ایسے لوگ جو متعدد مرتبہ وزارت کا تجربہ بھی حاصل کرچکے ہیں ان سے بھی بچگانہ اور غیر سنجیدہ حرکات سرزد ہو جاتی ہیں۔


ایسے موقع پر سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت وہ اپنی جماعت میں شامل ایسے عناصر کی سرزنش بھی کریں اور ان کی درست سمت میں رہنمای بھی کریں۔ اس کےساتھ ہی ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں ایک ایسا تربیتی ادارہ بنایا جاے جو سیاسی نمایندوں کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کر سکے۔ ہم اپنے مثبت رویوں اور طرز عمل سے ہی دنیا کے سامنے اپنے مزہب اور اپنے ملک کی بہتر تصویر پیش کر سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :