
ہم اور ہمارے منفی رویے!
جمعہ 25 جون 2021

میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ)
اس قسم کی بچگانہ حرکات ہمارے ایوانوں میں آج پہلی مرتبہ نہیں ہوٸیں۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسی حرکات مہزب دنیا کے ایوانوں میں بھی ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن ہمارا معاملہ دوسروں کی نسبت کچھ مختلف ہے۔ وہ اس طرح کہ دنیاے اسلام کی ایک مضبوط اور نمایاں مسلم مملکت ہوتے ہوے اور دنیا کہ سامنے یہ پرچار کرتے ہوے کہ ہمارا مزہب امن و آشتی کا علمبردار ہے اور ہمارے مزہب کی تعلیم دینے والے عظیم پیغمبر نے ہمیں ہر معاملہ صلح رحمی اور صبر و تحمل کے ساتھ سلجھانے کی تلقین کی ہے ہمارے یہ رویے ان تعلیمات اور اس پرچار کی عملاً نفی کرتے ہیں۔
(جاری ہے)
یہاں ایک غور طلب بات یہ بھی ہے کہ مغرب اور دیگر ممالک میں بالخصوص پاکستانیوں اور مزہب اسلام کے متعلق جو منفی جزبات اور احساسات پاے جاتے ہیں ان کی پشت پر ہمارے ایسے ہی رویے ہیں جو آج کے اس ترقی یافتہ ذرایع ابلاغ کے دور میں منٹوں سیکنڈوں میں ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔ جس طرح ہم یہودی۔ ہندو ۔ عیسای اور دیگر اقوام کی حرکات کو ان کے مزہب کے حوالے سے جنونی اور انتہا پسند ہونے کے القابات سے نوازتے ہیں اسی طرح وہ اقوام بھی ہمارے مزہب ہی کا نام لے کر ان حرکات کی وجہ سے اپنے منفی جزبات کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتے ہیں۔ جس میں کبھی وہ توہین آمیز کارٹون بناتے ہیں۔ تو کبھی ہمارے اسلاف کو برے القابات سے نوازتے ہیں۔ کیا ان کی اس نفرت کے پیچھے ہمارے ان منفی رویوں کا ھاتھ نہیں جو ہم آپس میں روا رکھتے ہیں۔ میری ناقص راے میں اس قسم کی صورتحال کو کنٹرول کرنے میں حکومتی ارکان کا کردار زیادہ اہم ہے۔ ان کے اندر تحمل۔ برداشت۔ صبر اور دوسرے کے بات سننے اور اعتراض برداشت کرنے کاحوصلہ ہونا چاہیے۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ آے دن ان میں سے کسی نہ کسی کی جانب سے انتہا پسندی کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔ کبھی تو کسی میڈیا ٹاک شو میں اور کبھی کسی عوامی جگہ پر عدم برداشت کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ حزب اختلاف کی جانب سے مثبت رویے دکھاے جاتے ہوں۔ بلکہ وہاں بھی اسی قسم کے رویے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن چونکہ حکومت امن عامہ اور معاملات کو سلجھانے کی زمہ دار ہوتی ہے لہٰزہ ان کے نمایندوں پر زیادہ زمہ داری عاید ہوتی ہے۔
ہمارے سیاستدانوں کے ایسے بچگانہ رویوں کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں سیاست و قیادت کے شعبے سے منسلک خواتین و حضرات کے لیے پیشہ وارانہ تعلیم و تربیت کا کوی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے۔ ہمارے سیاستدانوں میں سے بیشتر تو اپنے خاندان کے بڑوں کے زیر سایہ اس ہنر کی تعلیم کے مراحل طے کرتے ہیں اور یا پھر بزرگ سیاستدانوں کی رہنمای کے مطابق آگے بڑھتے ہیں۔ ماضی میں چونکہ اس شعبے میں آنے والوں کے لیے تعلیم کی کوی قید نہیں تھی اس لیےبیشتر پرانے سیاستدان معمولی تعلیم کی وجہ سے اس دور اندیشی اور سیاسی بصیرت سے بےبہرہ تھے جس کی موجودگی میں معاملات باہمی گفت و شنید کے ذریعے حل کیے جا سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے نوجوان سیاستدانوں کے طرز عمل بھی پرانے لوگوں سے کچھ مختلف نہیں۔ یہاں تک کہ بعض ایسے لوگ جو متعدد مرتبہ وزارت کا تجربہ بھی حاصل کرچکے ہیں ان سے بھی بچگانہ اور غیر سنجیدہ حرکات سرزد ہو جاتی ہیں۔
ایسے موقع پر سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت وہ اپنی جماعت میں شامل ایسے عناصر کی سرزنش بھی کریں اور ان کی درست سمت میں رہنمای بھی کریں۔ اس کےساتھ ہی ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ملک میں ایک ایسا تربیتی ادارہ بنایا جاے جو سیاسی نمایندوں کی تربیت اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کر سکے۔ ہم اپنے مثبت رویوں اور طرز عمل سے ہی دنیا کے سامنے اپنے مزہب اور اپنے ملک کی بہتر تصویر پیش کر سکتے ہیں۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ) کے کالمز
-
لشکری زبان کا قتل عام
منگل 8 فروری 2022
-
ہم سادگی کیوں نہیں اپناتے ؟
جمعہ 28 جنوری 2022
-
ہمارا میڈیا
پیر 30 اگست 2021
-
جمہوریت اور کھمبا !
جمعہ 27 اگست 2021
-
وزیر اعظم صاحب توجہ فرمایٸے
بدھ 25 اگست 2021
-
مفاد پرستی تباہی کی وجہ
بدھ 18 اگست 2021
-
تیاری جاری رکھیں !
جمعہ 23 جولائی 2021
-
ہم حاضر ہیں۔۔
پیر 12 جولائی 2021
میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ) کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.