آمریت زدہ جمہوری نظام !

ہفتہ 10 جولائی 2021

Masud Siddiqui

میجر مسعود الحسن صدیقی (ریٹاٸرڈ)

ہمارے ھاں ایک عرصے سے یہ راگ الاپا جارہا ہے کہ ملک میں ایک طویل عرصہ آمریت راٸج رہی جس کی وجہ سے جمہوری ادارے نہیں پنپ سکے۔ جب بھی آمرانہ دور کا تزکرہ کیا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ حکمران ہوتے ہیں جنہوں نے وردی میں اقتدار سنبھالا اور حکومت کی۔ وردی والوں کے یہ دور تین دھایٸوں سے کچھ اوپر پر مشتمل ہیں۔ ہمارے اکثر سیاستدان، جن میں سے چند نے اقتدار کے مزے بھی لوٹے، اپنی تقاریر میں ملک میں ترقی کی رفتار کم ہونے کی وجہ آمریت کے ادوار ہی گنواتے ہیں۔

کیونکہ ان کے خیال میں آمرانہ ادوار حکومت میں ترقی کا پہیہ جام ہی رہا۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ صنعت۔ زراعت۔ توانای حاصل کرنے کے ذرایع۔ امن و امان۔ مہنگای پر کنٹرول۔ تجارت اور دیگر شعبوں میں جتنی ترقی ان آمرانہ ادوار میں ہوی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔

(جاری ہے)

ہاں یہ ضرور ہے کہ ایسےادوار میں ملک و قوم اور قومی اداروں کے خلاف منہ پھاڑ کر ہرزہ سرای کی اجازت نہیں تھی۔


آمرانہ ادوار کی مثبت اور منفی باتوں کا تزکرہ یہاں مقصود نہیں بلکہ اس بات کی وضاحت کرنا مقصد ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت کس حال میں ہے اور جمہوریت کی بدحالی کا ذمہ دار کون ہے۔ لیکن اس سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ جان لیا جاے کہ جمہوریت ہے کیا؟ عام فہم زبان میں جمہوریت ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں فیصلے عوام کے منتخب کردہ نماٸندے کرتے ہیں۔

اس نظام میں عوام اپنے ووٹ کے ذریعے اپنے نمایندے منتخب کرتے ہیں جو نظام حکومت چلاتے ہیں۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ عوام بلا کسی جبر۔ لالچ یا بلیک میلنگ کے اپنے نماٸندوں کا انتخاب کریں تو ہی جمہوریت کے جسم میں روح پڑتی ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نمایندے آیں گے کہاں سے۔ تو اس کے لیے سیاسی جماعتیں تشکیل پاتی ہیں۔ جمہوریت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ان سیاسی جماعتوں کے عہدے داران بھی جمہوری طریقے سے ہی منتخب ہوں جو جماعت کے منشور کے مطابق کام کریں۔


کسی بھی سیاسی جماعت یا ملک میں جمہوریت کے معیار کو جانچنا ہو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہاں ارکان کو اظہار راے یا تنقید کی اجازت ہے یا نہیں۔ لیکن اس کے ساتھ صحت مند جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ اظہار راے۔ تنقید اور پالیسیوں سے اختلاف کا اظہار قانون کے داٸرے میں رہ کہ کیا جاے۔ جماعتوں کے عہدے داران یا ریاست کے نظام کو چلانے والے باہمی مشورے سے معاملات طے کریں۔

اس کے علاوہ جمہوری طرزحکومت میں ہر رکن برابر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اختلاف راے رکھنے والے ارکان کا بھی احترام کیا جاتا ہے۔
جمہوریت کے مقابلے میں آمرانہ نظام میں ایک شخص کا حکم چلتا ہے۔ جس سے اختلاف یا تنقید کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یعنی اس نظام میں ایک شخص طاقت کے زور پر اقتدار حاصل کرتا ہے۔اور عوام اس کو اپنا حکمراں تسلیم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

عام طور پر یہ طاقتور شخص  جاگیرداروں یا سرمایہ داروں کے طبقے سے ہوتا ہے اور یا پھر فوجی طاقت کے بل بوتے اقتدار سنبھالتا ہے۔ ایسا شخص خود مختار ہوتا ہے اور طاقت کے زور پر اپنے فیصلے منواتا ہے۔
جمہوریت اور آمریت سے بنیادی واقفیت حاصل کرنے کے بعد آٸیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کون سا نظام راٸج ہے اور اگر یہ اصل جمہوریت نہیں تو اس سے چھٹکارہ کیسے پایا جاے۔


سب سے پہلی بات تو یہ کہ چونکہ ہمارے عوام کی ایک بہت بڑی تعداد علم کے زیور سے آراستہ نہیں اس لیے وہ جمہوریت یا آمریت میں فرق کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کو جمہوریت کی جو شکل سیاسی راہنما دکھاتے ہیں وہ اسی کو صحیح سمجھ لیتے ہیں۔ عوام کو یہی بتایا جاتا ہے کہ اگر ملک میں عام انتخابات ہو رہے ہیں تو یہاں جمہوریت ہے۔

اور یہ کہ انتخابات کے نتیجے میں جو حکمران آتے ہیں وہ سیاہ کریں یا سفید ان پر کوی قانون لاگو نہیں ہوتا کیونکہ ان کا احتساب دور حکومت ختم ہونے پر عوام ہی کرسکتے ہیں ۔یہی جمہوریت ہے۔ لہٰزہ جب تک وہ حکمران ہیں اس وقت تک ان سے کوی پوچھ گچھ نہیں ہو سکتی۔
یہ بات بھی عجیب ہے کہ ہمارے ھاں ماضی میں آمر کہلاے جانے والے حکمران اپنے دور حکومت کو طول دینے کےلیے اس میں نام نہاد جمہوریت کی آمیزش کرتے رہے اور جمہوری طریقے یعنی ریفرنڈم یا انتخابات کے ذریعے اپنا اقتدار مضبوط کرتے رہے۔

جبکہ دوسری جانب جمہوری تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے قاٸم ہونے والے اکثر سیاسی جماعتوں کے اندر شدید قسم کے آمرانہ رحجانات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہماری بڑی بڑی سیاسی جماعتوں میں سالہا سال سے خاندانی سربراہی نظام راٸج ہے جس کے تحت یہ سربراہی وراثت کی طرح آنے والی نسلوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان جماعتوں کے کہنہ مشق اور تجربہ کار ارکان اپنی رکنیت بچانے کی خاطر سربراہوں کی ناتجربہ کار نٸی نسل کے سامنے ھاتھ باندھے ایستادہ دکھای دیتے ہیں۔

ہماری سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا یہ فقدان، جس کے تحت جماعتیں شخصیات کے گرد گھومتی ہیں، دراصل ملک میں اصل جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ کیونکہ ان جماعتوں میں طاقت کا مرکز ایک شخصیت ہوتی ہے جس کی قیادت اور فیصلوں کو چیلنج کرنے کی کوی جرات نہیں کر سکتا۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہماری بیشتر نام نہاد جمہوری سیاسی جماعتیں آمریت کے ستونوں پر کھڑی ہیں۔

اب ان جماعتوں میں سے کوی جب اقتدار میں آتی ہے تو وہ ملک میں کس طرح جمہوری روایات کو فروغ دے سکتی ہے۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کا راگ الاپنے والے سیاسی جماعتوں کے بیشتر سربراہان اس میدان میں کسی نہ کسی آمر کے کندھے کا سہارا لے کر آے۔ یعنی ان میں ان صلاحیتوں کا فقدان تھا جن کے بل پر یہ میدان سیاست میں اپنا مقام بنا سکتے یا قدم جما سکتے۔

یہی وجہ ہے کہ آج تک انتخابات کے نتیجے میں حکومت بنانے والوں نے بھی عوام کی فلاح اور ترقی کے متعلق کوی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ انہوں نے تعلیم کو عام اس لیے نہیں کیا کہ اس سے عوام باشعور ہوجاتے اور ان لوگوں کی دکانیں بند ہو جاتیں۔ عوام کو روزگار کے وافر مواقع اس لیے مہیا نہیں کیے کہ اس طرح عوام کا معیار زندگی بلند ہوتا اور وہ ان کی غلامی سے آزاد ہو جاتے۔

آمریت زدہ جمہوریت کے یہ دعوے دار ہر وہ طریقہ اختیار کیے ہوے ہیں جس کی مدد سے یہ عوام کو اپنے کنٹرول میں رکھ سکیں تاکہ انتخابات کے وقت ان سے ووٹ بٹور سکیں۔ عوام کی یہ لاعلمی اور خاموشی اس آمریت سے بھرپور جمہوری نظام کو پنپنے اور پھلنے پھولنے کا بھرپور موقع فراہم کررہی ہے۔ ہمارے ملک اور سیاسی جماعتوں میں راٸج یہ نظام جس کو جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے دراصل یہی ملک اور عوام کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

 
جارج برنارڈ شا کا قول ہے کہ "جمہوریت ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت ہمیں ویسے ہی حکمران ملتےہیں جس کے ہم لاٸق ہوتے ہیں۔" یہ بھی حقیقت ہے کہ تبدیلی کا آغاز عوام سے ہی ہو سکتا ہے۔ صحت مند اور اصل جمہوریت کا آغاز انفرادی اور اجتماعی زندگی سے ہی ہو سکتا ہے۔ جب تک عوام جمہوری رحجانات کو پہچان کر اپنی زندگیوں میں ان کو فروغ نہیں دیں گے اس وقت تک اس ملک میں اسی طرح کا آمریت زدہ جمہوری نظام قاٸم رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :