حکومت ، اپوزیشن اور سرائیکی صوبہ

بدھ 2 دسمبر 2020

Mazhar Iqbal Khokhar

مظہر اقبال کھوکھر

پی ڈی ایم کے جلسے کے حوالے سے ملتان اور وسیب کے باقی تمام اضلاع میں تین روز تک جاری رہنے والی سیاسی کشیدگی کے بعد کون جیتا اور کون ہارا یہ بحث تو شاید 13 دسمبر کو لاہور مینار پاکستان پر ہونے والے پی ڈی ایم کے جلسے تک جاری رہے مگر اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت پنجاب اور ملتان انتظامیہ نے کارکنوں پر مقدموں ، پکڑ دھکڑ اور رکاوٹوں کے زریعے جس طرح جلسے کو کامیاب کرانے کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کیا اسے تحریک انصاف حکومت کی بدانتظامی حوالے سے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا کیونکہ قلعہ کہنہ قاسم باغ کے بجاۓ چوک گھنٹہ گھر میں ہونے والے جلسے نے جس طرح پورے ملک کو اپنی طرف متوجہ کرلیا اس طرح کی توجہ شاید آزادی کے ساتھ جلسہ کر کے حاصل نہیں کی جا سکتی تھی۔

(جاری ہے)


یوں تو جلسے میں پی ڈی ایم میں شامل 11 جماعتوں کے تمام رہنماؤں نے اپنی تقریروں میں تحریک انصاف کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور وزیر اعظم عمران خان کی پالیسوں پر کھل کر تنقید کی مگر مسّلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز کی تقریر کا ذکر کرنا چاہوں گا جنہوں نے آٹا چینی بحران ، معاشی زبوں حالی سمیت تمام  انتخابی وعدوں کو عمران خان کا  فریب قرار دیتے ہوۓ جنوبی پنجاب صوبے کا بھی ذکر کیا ان کا کہنا تھا 2018 کے انتخابات سے قبل ہمارے ممبران کو توڑ کر صوبہ محاذ بنایا گیا اور پھر عمران خان نے صوبہ محاذ کو تحریک انصاف میں ضم کرتے ہوۓ یہ اعلان کیا کہ ان کی جماعت اقتدار میں آکر 100 دنوں میں جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بناۓ گی مگر جنوبی پنجاب صوبے کا اعلان بھی عمران خان کا ایک فریب تھا"
یقیناً مریم نواز کی اس بات کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ سرائیکی صوبے کے نام پر وسیب کے عوام کے ساتھ دھوکہ ہوا مگر اس تلخ حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ وسیب کے ساتھ دھوکے کی تاریخ بہت پرانی ہے جو جماعت بھی اقتدار میں آئی اس نے وسیب کے حقوق پامال کرنے اور صوبے کے نام پر عوام کا استحصال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا تاریخ کے اس تاریک باب میں مسّلم لیگ ن کا کردار سب سے زیادہ افسوس ناک ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔


2012 میں جب پاکستان پیپلز پارٹی کے اقتدار کے آخری دن تھے تو انہیں اچانک جنوبی پنجاب صوبے کا خیال آگیا اس حوالے سے ایوان بالا میں قرارداد  بھی پیش کی گئی تو اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن نے پنجاب اسمبلی دو صوبوں کے متعلق قرارداد پیش کر کے پاس کرا لی کیونکہ پنجاب میں انکی حکومت تھی اس لیے کوئی مشکل پیش نا آئی پھر مسّلم لیگ ق اور پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی اس قرارداد کی حمایت کی۔

قرارداد میں کہا گیا کہ " ایک قومی کمیشن تشکیل دیا جاۓ جو پانی ، دیگر وسائل اور جغرافیائی حدود کا تعین کر کے صوبوں کے قیام کو عملی جامہ پہنائے اور بہاولپور کے عوام عرصہ دراز سے ریاست بہاولپور کی بحالی کا مطالبہ کر رہی ہے وفاقی حکومت اس حوالے سے فوری اقدامات اٹھاۓ" یوں معاملہ الجھ جانے کے بعد پھر کسی کو ایک صوبہ یاد رہا اور نا دو صوبے اور بات قرارداد سے آگے نہ بڑھ سکی۔

2013 کے انتخابات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی مرکز اور دو صوبوں میں اس کی حکومت تھی مگر ان پانچ سالوں میں ن لیگ نے ایک بار بھی کسی ایک صوبے یا دو صوبوں کا ذکر نہیں کیا لیکن 2018 کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد ایک بار پھر مسلم لیگ ن کے دل میں دو صوبوں کی ہمدردی جاگ اٹھی ن لیگ کی طرف سے ایک بار پھر بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبہ کے بارے میں ایک ترمیمی بل قومی اسمبلی میں جمع کرایا گیا جس میں کہا گیا کہ آئین میں ترمیم کر کے بہاولپور اور جنوبی پنجاب صوبہ کی تشکیل کے الفاظ شامل کئے جائیں آئینی ترمیمی بل کے مطابق بہاولپور صوبہ وہاں کے موجودہ انتظامی ڈویژن پر مشتعمل ہوگا جبکہ جنوبی پنجاب صوبہ موجودہ ڈیرہ غازیخان اور ملتان ڈویژن پر مشتمل ہوگا "
یہ تمام تلخ حقائق اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان مسّلم لیگ ن نے جب بھی صوبے کی بات کی صوبے کے قیام کے لیے نہیں کی بلکہ صوبے کے معاملے کو الجھانے کے لیے کی اور کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ وسیب کے عوام کی ترجمانی نہیں کی  بلکہ ہمیشہ  وسیب کو تقسیم کرنے کی سازش کی یوں بھی وسیب کی محرومیوں کی سب سے زیادہ ذمہ داری ن لیگ پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ طویل عرصہ تک پنجاب پر حکمرانی کرتی رہی ہے۔

جہاں تک برسراقتدار جماعت تحریک انصاف کا تعلق ہے اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پورے قوم کی طرح وسیب کے لوگوں نے تحریک انصاف سے جو امیدیں وابستہ کی تھیں اور آنکھوں میں تبدیلی کے جو سپنے سجاۓ تھے وه تمام حکومت کے نصف دورانیہ کے دوران ہی چکنا چور ہوگئے ہیں حالانکہ تحریک انصاف نے صوبہ محاذ کے ساتھ انضمام کے موقع پر جو معاہدہ کیا تھا اس میں بھی واضح طور لکھا گیا تھا کہ تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو 100 دنوں میں الگ صوبے کے قیام کے لیے عملی اقدامات اٹھاۓ جائیں گے۔


مگر پہلے تو دو سال تک صوبے کے قیام کے معاملے کو لٹکایا جاتا رہا مگر اب تحریک انصاف نے بھی ایک مکمل اور بااختیار  صوبے کے قیام کو الجھا کر انتظامی بنیادوں سول سب سیکرٹریٹ تک محدود کر دیا ہے اور وہ بھی آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والی حالت میں ہے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بننے والے سول سب سیکرٹریٹ میں ایڈشنل چیف سیکرٹری بہاول پور میں بیٹھے گا جس کی سربراہی میں مختلف محکموں کے اسپیشل سیکرٹری کام کریں گے جبکہ ایڈشنل آئی جی ملتان میں بیٹھے گا مگر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ  سب سیکرٹریٹ بھی ابھی تک مکمل فعال نہیں ہوسکا جبکہ تحریک انصاف کی اس نا انصافی پر ہر سو خاموشی ہے کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت سنجیدگی اور اخلاص کے ساتھ سرائیکی صوبہ بننے کے حق میں نہیں یقینا" ہر دور میں برسر اقتدار آنے والی سیاسی جماعتیں ، موجودہ حکومت اور اپوزیشن ہی نہیں بلکہ وسیب سے منتخب ہونے والے سیاستدان بھی سب سے بڑھ کر وسیب کی محرومیوں کے ذمہ دار ہیں اور صوبے کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں جو ہر سیاسی جماعت کے لیے سہولت کا کردار تو ادا کرتے ہیں مگر وسیب کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کرتے سچ تو یہ ہے کہ وسیب میں کھڑے ہوکر صوبے کی بات کرنے والے کسی بھی جماعت کے رہنما وسیب کے زخموں پر مرحم نہیں لگاتے بلکہ اپنے ہی لگاۓ گئے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک وسیب کے لوگ اپنے دکھوں کے مداوے کے لیے خود کوئی کردار ادا نہیں کریں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :