سینیٹ دنگل کا فاتح فضل الرحمٰن

ہفتہ 3 اگست 2019

Mian Habib

میاں حبیب

سینیٹ دنگل کے نتائج آسانی سے ہضم نہیں ہو پا رہے ۔اپوزیشن بار بار اس سوچ میں مبتلا ہے آخر کار ہوا کیسے وہ 14ارکان جنہیں کچھ لوگ ہیرو قرار دے رہے ہیں اور کچھ ولن قرار دے کر لعن طعن کر رہے ہیں لیکن یہ ان لوگوں کا حوصلہ ہے کہ وہ کس دیدہ دلیری کے ساتھ چند منٹ قبل عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے کھڑے ہوئے پھر اسی تحریک کو ناکام بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا اور پھر کچھ لمحات کے بعد ”ہوا کیا ہے“غور کرنے کے لیے اکٹھے بیٹھے تھے ۔

کسی نے ان کے چہروں کی طرف نہیں دیکھاہے ۔اپوزیشن اپنی صفوں میں ان 14بندوں کو ڈھونڈنے میں ناکام رہی ہے لیکن سوشل میڈیا پر یہ 14نام گردش کر رہے ہیں۔اللہ بہتر جانتا ہے یہ وہی 14سینیٹرز ہیں جنہوں نے ہونی کو انہونی میں بدل دیا یا پھر ان پر صرف شک ہی کیا جا رہا ہے ۔

(جاری ہے)

ان ناموں میں مسلم لیگ (ن) کے اسد علی جونیجو ، رانا محمود الحسن ، دلاور خان ، حافظ عبدالکریم ، غوث محمد نیازی ، لیفٹینٹ جنرل صلاح الدین ترمذی ، لیفٹیننٹ جنرل عبد القیوم ،آغا شاہ زیب درانی ، کلثوم پروین ، راحیلہ مگسی ، پیپلزپارٹی کی روبینہ خالد ، امام الدین شوقین ، اسلام الدین شیخ اور جمعیت علماء اسلام کے طلحہ محمود شامل ہیں لیکن پورا ایوان بالا ہی مشکوک ہو گیا ہے ، سینٹ میں جو گیم ہوئی ہے یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی انوکھی گیم تھی جوکسی کی سمجھ میں نہیں آئی نہ اس کے لیے طیارے بھجوائے گئے نہ سیاسی سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری کہیں نظر آئی ، نہ ارکان کو اغواء کیا گیا نہ ہارس ٹریڈنگ کے لیے چھانگا مانگا یا مری کے گیسٹ ہاؤس استعمال ہوئے ، نہ ووٹ دینے والے بچے تھے اور نہ گیم کا حصہ بننے والی کم سن دو شیزائیں تھیں جنہیں حسین خواب دکھا کر چکمہ دیا گیا ہو، جن کے ساتھ یہ سب ہو ا وہ اعلیٰ درجے کے دور اندیش سیاستدان تھے ۔


اس کو کہتے ہیں سرعام آنکھوں میں مرچیں ڈالنا، یہ جو کچھ بھی ہو اہے ، کمال کی گیم تھی اور اس کا حکمت کار داد کا مستحق ہے ۔یہ سارا معاملہ اپنی جگہ پر لیکن پرسوں سے مجھے وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کا یہ فقرہ ہانٹ کر رہا ہے کہ اگر اپوزیشن کی چوری ہوتی ہے تو وہ مولانا فضل الرحمٰن کی جیبیں ٹٹولے ؛اس کا مقصد یہ ہے کہ جو کچھ کیا ہے وہ مولانا فضل الرحمٰن نے کیا ہے ۔

ویسے مولانا بھی کمال کے کھلاڑی ہیں وہ میاں نواز شریف کے لیے بھی اسی طرح قابل قبول ہوتے ہیں جس طرح بے نظیر کو قابل قبول ہو تے تھے ، وہ مشرف کے بھی اتنے ہی قریبی رازدان اور سہولت کار ہوتے ہیں جتنے زرداری کے ، وہ اپنی ایڈجسٹمنٹ کر لیتے ہیں۔اب جبکہ وہ پہلی بار الیکشن ہار کر پارلیمنٹ سے باہر بیٹھے تھے تو انہوں نے اپوزیشن کو اپنے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ۔


مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی دونوں ابھی اپوزیشن کی احتجاجی سرگرمیوں کا حصہ بننے کے لیے تیار نہ تھیں لیکن مولانا نے دونوں کو اپنے شیشے میں اتارا لیکن دونوں نہ تو مولانا کے لانگ مارچ اور اسلام آباد کے گھیراؤ میں حصہ دار بننے کے لیے تیار ہورہے تھے اور نہ ہی اس کے لیے وسائل مہیا کر رہے تھے ۔مولانا کو روز ”لارے “ لگائے جا رہے تھے ۔

اس دروان مولانا کی اے پی سی میں آسان ہدف چیئرمین سینٹ کو ہٹانے کا فیصلہ ہو گیا ، حکومتی رکن شبلی فراز اور وزیر اعلیٰ بلوچستان جن کی جماعت سے چیئر مین سینٹ صادق سنجرانی تعلق رکھتے ہیں۔دونوں مولانا فضل الرحمٰن سے ملے ۔اب پتہ نہیں مولانا فضل الرحمٰن نے جام کمال اور شبلی فراز کو جو کامیابی کا مجرب تعویذ لکھ کر دیا تھا وہ سادہ کاغذ پر تھا یا ہرن کی جھلی پر خشک اور زعفران سے لکھ کر دیا تھا۔

ویسے اس قسم کے تعویذ ماضی میں پیر پگاڑا مرحوم لکھ کر دیا کرتے تھے لیکن وہ فیض عام بانٹتے تھے ۔مولانا تو بلا مقصد ہاتھ بھی نہیں ملاتے وہ صرف کاروباری تعویذ دیتے ہیں۔
بعض اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس تعویذ کے ٹوکن فیس کے طور پر جام کمال نے بلوچستان میں مولانا فضل الرحمٰن کا تاریخی جلسہ کامیاب کروا دیا تھا ۔مولانا فضل الرحمٰن کا اس گیم میں کیا کردار ہے یہ صرف مولانا فضل الرحمٰن جانتے ہیں یا جام کمال اور شبلی فراز کو علم ہو گا لیکن یہ بھی کہا جارہاہے کہ مسترد ووٹوں میں 4جے یو آئی کے ووٹ تھے ،لیکن جن لوگوں نے ووٹ دیئے یا مسترد کیے انہوں نے یہ سارا کچھ کار خیر سمجھ کر کیا ۔

یہی وجہ ہے کہ صادق سنجرانی نے کہا تھا جنہوں نے مجھ پر احسان کیا ہے میں ان کو نہیں جانتا لیکن اللہ قبول کرے ۔سینٹ کے معرکہ میں کس نے کیا کیا شاید یہ راز رہے لیکن اگر بلوچستان میں ایک خاص جماعت کے لوگوں کو اگر خصوصی فنڈز ملتے ہیں اور کچھ لوگوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوتی تو یقینی طور پر ”کھرا“اسی طرف جائے گاجس پر شک کیا جا رہا ہے ۔اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں ان 14سینیٹرز کی تلاش میں ہیں لیکن کیا وہ عمران خان کی طرح ان افراد کے خلاف کارروائی کرنے کی جرات کریں گی جس طرح عمران خان نے انتخابات سے کچھ دن قبل سینٹ انتخابات میں ووٹ فروخت کرنے والے اراکین اسمبلی کو اپنی جماعت سے فارغ کر دیا تھا ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :