پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں جتنی بھی احتجاجی تحریکیں چلیں اور کامیاب ہوئیں ان کے پیچھے کسی نہ کسی قوت کی آشیرباد ہوتی تھی ہمارے سیاست دان سیاسی معاملات میں مداخلت کی بڑی باتیں کرتے ہیں اور سارا زور ایک ادارے کو لتاڑنے پر ہوتا ہے لیکن کبھی کسی سیاستدان نے بیرونی مداخلت کی بات نہیں کی پاکستان کی سیاست میں جتنا عمل دخل بیرونی قوتوں کا ہے شاید ہی کسی ملک میں اتنا عمل دخل ہو پاکستان کی چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں تک غیر ملکی قوتوں کو رسائی حاصل ہے اور وہ اپنے ایجنڈے کے لیے ان کو استعمال بھی کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کبھی سیاسی استحکام نہیں رہا کیونکہ بہت سارے ممالک جن کے مفادات پاکستان اور خطے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں وہ اپنی لڑائیاں پاکستان میں لڑ رہے ہیں اور بد قسمتی سے ہمارے بہت سارے لوگ ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں پاکستان کے معاملات میں کون کون اور کہاں کہاں سے کیا مداخلت کر رہا ہے یہ ایک لمبی بحث ہے اس وقت پاکستانی سیاست میں اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس اور اس میں میاں نوازشریف کا خطاب اور حکومت کو گرانے کے لیے احتجاجی تحریک چلانے کی باتیں زیر بحث ہیں سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ اس سے قبل بھی مولانا فضل الرحمن اے پی سی کر چکے ہیں وہ تو حکومت کے خلاف دھرنا بھی دے چکے تحریک چلانے کی باتیں بھی کرتے رہے لیکن یہ سارے معاملات ہلکی پھلکی موسیقی سے آگے نہ بڑھ سکے اب اچانک کیا ہوا کہ اے پی سی بھی کامیاب ہو گئی اور میاں نواز شریف کی دلچسپی بھی کچھ حد سے زیادہ دکھائی دی میاں نوازشریف کی بیزاری سے عیاں ہوتا ہے کہ ان کی مایوسی انتہا کو پہنچ چکی ہے وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اب وہ وطن واپس نہیں آسکتے عدالت نے ایک بار پھر انھیں اشتہاری کر دیا ہے سزا یافتہ وہ پہلے سے ہیں ایسے میں انھوں نے کھلی جنگ کا اعلان کر دیا ہے شاید یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انھیں اپنے بھائی کی چند روز قبل ہونے والی ایک ملاقات کا دکھ ہو یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ میاں شہبازشریف اپنی پالیسی کے باعث اپنے بھائی کو پاکستان سے نکالنے میں کامیاب ہوئے لیکن وہ اپنے بھائی اور بھتیجی کو خاموش کروانے میں ناکام ہوئے اب یا تو میاں شہبازشریف اپنے بھائی سے مکمل علحیدگی اختیار کر کے اپنا بیانیہ جاری رکھ سکتے ہیں نہیں تو انھیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ میاں نوازشریف کی تقریر نے شہباز شریف کا پیدا کردہ ماحول خراب کر دیا ہے مسلم لیگ ن کے لوگ خود میاں نوازشریف کی اس بڑھک پر پریشان ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ میاں نوازشریف مسلم لیگ ن کے تمام راستے بند کر رہیہیں میاں نواز شریف کی اے پی سی میں تقریر کے بعد مسلم لیگ ن کے اندر تقسیم بڑھ گئی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں شہبازشریف بھائی کے بیانیہ پر لبیک کہتے ہیں یا پھر ان کی نفی کر کے اپنا راستہ بناتے ہیں دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی کے مفادات میاں نواز شریف کے بیانیہ سے مختلف ہیں پیپلز پارٹی اس نظام کی سٹیک ہولڈر ہے وہ نہ تو کسی صورت اسمبلیوں سے استعفیے دے گی نہ ہی اپنی سندھ حکومت ختم کرے گی بلکہ وہ اپوزیشن کے ذریعے مزید دباو بڑھا کر اپنے معاملات کو بہتر کرنے کی کوشش کرے گی اس وقت میاں نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن کی سوچ ایک جیسی ہے جبکہ میاں شہبازشریف اور بلاول بھٹو کی سوچ میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے کیونکہ مولانا اور بڑے میاں صاحب چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں تو سارا کچھ جائے جہنم میں لیکن چھوٹے میاں صاحب اور بلاول سمجھتے ہیں کہ اگر یہ سسٹم چلتا رہا تو کل کو ان کی بھی باری آجائے گی جہاں تک تعلق ہے نئے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا تعلق ہے تو اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ حکومت کو دو سال کے بعد پہلی بار ایک سنجیدہ خطرے کا سامنا ہے کیونکہ دو سال تک حکومت اپنی صفیں سیدھی کرنے میں لگی رہی اوپر سے کرونا نے تمام نظام ملیا میٹ کر دیا اب جا کر کچھ بہتری کی طرف معاملات بڑھنا شروع ہوئے تھے کہ اب اپوزیشن کا حکومت گراو پروگرام شروع ہو گیا ہے اپوزیشن کا نیا اتحاد یقینی طور پر ایک سنجیدہ موومنٹ نظر آتی ہے لیکن یہ بھی واضح ہے اس موومنٹ کو اندرون ملک سے کسی قوت کی حمایت حاصل نہیں البتہ بیرونی مداخلت کے کافی اشارے دکھائی دے رہے ہیں چونکہ اس وقت دنیا تبدیل ہورہی ہے ایسے میں امریکہ اپنے دوست ملکوں کے اثرورسوخ کو استعمال کر کے پاکستان پر ایسا جکڑ بند لگانا چاہتا ہے کہ پاکستان امریکہ کے اثرورسوخ سے باہر نہ نکل پائے جبکہ پاکستان چاہتا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے لیے سب کے ساتھ تعلق رکھے اس سرد جنگ میں پاکستان اور پاکستانیوں کو کسی کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے پاکستان کے سیاستدانوں کو اگر پاکستان کا رتی برابر بھی دریغ ہے تو انھیں اپنے مفادات کی بجائے ملک کے مفاد کے لیے سوچنا چاہیے حکومت کو بھی اپنی ہٹ دھرمی کی پالیسی سے باہر نکل آنا چاہیے اپوزیشن کے لوگوں کا احتساب جاری رکھیں لیکن قومی ایشوز پر ان کو ساتھ لے کر چلا جائے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔