اپوزیشن کا نیا اتحاد اور احتجاجی تحریک

جمعہ 25 ستمبر 2020

Mian Habib

میاں حبیب

پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں جتنی بھی احتجاجی تحریکیں چلیں اور کامیاب ہوئیں ان کے پیچھے کسی نہ کسی قوت کی آشیرباد ہوتی تھی ہمارے سیاست دان سیاسی معاملات میں مداخلت کی بڑی باتیں کرتے ہیں اور سارا زور ایک ادارے کو لتاڑنے پر ہوتا ہے لیکن کبھی کسی سیاستدان نے بیرونی مداخلت کی بات نہیں کی پاکستان کی سیاست میں جتنا عمل دخل بیرونی قوتوں کا ہے شاید ہی کسی ملک میں اتنا عمل دخل ہو پاکستان کی چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں تک غیر ملکی قوتوں کو رسائی حاصل ہے اور وہ اپنے ایجنڈے کے لیے ان کو استعمال بھی کرتی ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں کبھی سیاسی استحکام نہیں رہا کیونکہ بہت سارے ممالک جن کے مفادات پاکستان اور خطے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں وہ اپنی لڑائیاں پاکستان میں لڑ رہے ہیں اور بد قسمتی سے ہمارے بہت سارے لوگ ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں پاکستان کے معاملات میں کون کون اور کہاں کہاں سے کیا مداخلت کر رہا ہے یہ ایک لمبی بحث ہے اس وقت پاکستانی سیاست میں اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس اور اس میں میاں نوازشریف کا خطاب اور حکومت کو گرانے کے لیے احتجاجی تحریک چلانے کی باتیں زیر بحث ہیں سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ اس سے قبل بھی مولانا فضل الرحمن اے پی سی کر چکے ہیں وہ تو حکومت کے خلاف دھرنا بھی دے چکے تحریک چلانے کی باتیں بھی کرتے رہے لیکن یہ سارے معاملات ہلکی پھلکی موسیقی سے آگے نہ بڑھ سکے اب اچانک کیا ہوا کہ اے پی سی بھی کامیاب ہو گئی اور میاں نواز شریف کی دلچسپی بھی کچھ حد سے زیادہ دکھائی دی میاں نوازشریف کی بیزاری سے عیاں ہوتا ہے کہ ان کی مایوسی انتہا کو پہنچ چکی ہے وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اب وہ وطن واپس نہیں آسکتے عدالت نے ایک بار پھر انھیں اشتہاری کر دیا ہے سزا یافتہ وہ پہلے سے ہیں ایسے میں انھوں نے کھلی جنگ کا اعلان کر دیا ہے شاید یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انھیں اپنے بھائی کی چند روز قبل ہونے والی ایک ملاقات کا دکھ ہو یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ میاں شہبازشریف اپنی پالیسی کے باعث اپنے بھائی کو پاکستان سے نکالنے میں کامیاب ہوئے لیکن وہ اپنے بھائی اور بھتیجی کو خاموش کروانے میں ناکام ہوئے اب یا تو میاں شہبازشریف اپنے بھائی سے مکمل علحیدگی اختیار کر کے اپنا بیانیہ جاری رکھ سکتے ہیں نہیں تو انھیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ میاں نوازشریف کی تقریر نے شہباز شریف کا پیدا کردہ ماحول خراب کر دیا ہے مسلم لیگ ن کے لوگ خود میاں نوازشریف کی اس بڑھک پر پریشان ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ میاں نوازشریف مسلم لیگ ن کے تمام راستے بند کر رہیہیں میاں نواز شریف کی اے پی سی میں تقریر کے بعد مسلم لیگ ن کے اندر تقسیم بڑھ گئی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں شہبازشریف بھائی کے بیانیہ پر لبیک کہتے ہیں یا پھر ان کی نفی کر کے اپنا راستہ بناتے ہیں دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی کے مفادات میاں نواز شریف کے بیانیہ سے مختلف ہیں پیپلز پارٹی اس نظام کی سٹیک ہولڈر ہے وہ نہ تو کسی صورت اسمبلیوں سے استعفیے دے گی نہ ہی اپنی سندھ حکومت ختم کرے گی بلکہ وہ اپوزیشن کے ذریعے مزید دباو بڑھا کر اپنے معاملات کو بہتر کرنے کی کوشش کرے گی اس وقت میاں نوازشریف اور مولانا فضل الرحمن کی سوچ ایک جیسی ہے جبکہ میاں شہبازشریف اور بلاول بھٹو کی سوچ میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے کیونکہ مولانا اور بڑے میاں صاحب چاہتے ہیں کہ اگر ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں تو سارا کچھ جائے جہنم میں لیکن چھوٹے میاں صاحب اور بلاول سمجھتے ہیں کہ اگر یہ سسٹم چلتا رہا تو کل کو ان کی بھی باری آجائے گی جہاں تک تعلق ہے نئے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کا تعلق ہے تو اس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ حکومت کو دو سال کے بعد پہلی بار ایک سنجیدہ خطرے کا سامنا ہے کیونکہ دو سال تک حکومت اپنی صفیں سیدھی کرنے میں لگی رہی اوپر سے کرونا نے تمام نظام ملیا میٹ کر دیا اب جا کر کچھ بہتری کی طرف معاملات بڑھنا شروع ہوئے تھے کہ اب اپوزیشن کا حکومت گراو پروگرام شروع ہو گیا ہے اپوزیشن کا نیا اتحاد یقینی طور پر ایک سنجیدہ موومنٹ نظر آتی ہے لیکن یہ بھی واضح ہے اس موومنٹ کو اندرون ملک سے کسی قوت کی حمایت حاصل نہیں البتہ بیرونی مداخلت کے کافی اشارے دکھائی دے رہے ہیں چونکہ اس وقت دنیا تبدیل ہورہی ہے ایسے میں امریکہ اپنے دوست ملکوں کے اثرورسوخ کو استعمال کر کے پاکستان پر ایسا جکڑ بند لگانا چاہتا ہے کہ پاکستان امریکہ کے اثرورسوخ سے باہر نہ نکل پائے جبکہ پاکستان چاہتا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے لیے سب کے ساتھ تعلق رکھے اس سرد جنگ میں پاکستان اور پاکستانیوں کو کسی کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے پاکستان کے سیاستدانوں کو اگر پاکستان کا رتی برابر بھی دریغ ہے تو انھیں اپنے مفادات کی بجائے ملک کے مفاد کے لیے سوچنا چاہیے حکومت کو بھی اپنی ہٹ دھرمی کی پالیسی سے باہر نکل آنا چاہیے اپوزیشن کے لوگوں کا احتساب جاری رکھیں لیکن قومی ایشوز پر ان کو ساتھ لے کر چلا جائے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :