پگ کا داغ

جمعہ 11 دسمبر 2020

Mian Habib

میاں حبیب

دلوں کے بھید اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن بندوں کے کرتوت بھی بتا رہے ہوتے ہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور کیا کرنا چاہتے ہیں عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے نہ ہمارے عمل اچھے ہیں اور نہ ہی ہماری نیت اچھی ہے ہم بڑے بے صبرے لوگ ہیں ہم چٹ پٹ آر پار چاہتے ہیں اور حال ہمارا یہ ہے کہ محنت کے بغیر ہی آنکھ جھپکنے میں نتائج کی امید رکھتے ہیں آج کل پی ڈی ایم سیاسی جدوجہد میں مصروف ہے اور تبدیلی کا ایک خیالی خاکہ لیے ایک فارمولا سیاست کے ذریعے حکومت سمیت بہت ساروں کی چھٹی کروانے نکلی ہے منصوبہ بندی یہ ہے کہ چار جلسوں کے بعد ایک لانگ مارچ ایک آدھ پہیہ جام ہڑتال پارلیمنٹ کا گھیراو اور استعفوں کے تڑکا سے سب پاوں پڑ جائیں گے ملک کا نظام تبدیل ہو جائے گا اور سارے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ذرا سوچیں کیا مسائل کا یہی حل ہے ہم نے متعدد بار مارشل لاء لگا کر دیکھ لیا دو دو آڑھائی آڑھائی سال بعد حکومتیں تبدیل کر کے دیکھ لیں  حکومتوں کی آئینی مدت پوری کروا کر بھی دیکھ لی لیکن معاملات بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہوتے گئے دراصل ہم تصور کر بیٹھتے ہیں کہ خرابیوں کے ذمہ دار حکمران ہیں اور مسائل کا حل ان کی چھٹی کروانے میں ہے ہم آج تک چھٹیاں کروانے میں لگے ہوئے ہیں لیکن حل نہیں مل رہا بلکہ معاملات اتنے خراب ہو گئے ہیں کہ اب ڈنگ ٹپانا مشکل ہو گیا ہے کسی نے نہ مسائل کے حل کے لیے کوئی سوچ بچار کی ہے نہ کوئی منصوبہ بندی ہے خواہش ہے کہ بیٹھے ہووں کی جگہ نئے آجائیں کیا کسی نے نت نئے نعرے مارنے والوں سے کبھی پوچھا ہے کہ آپ کے پاس بہتری کا کیا پلان ہے پاکستان کی ساری سیاست دو فقروں پر مشتمل ہے آوے ای آوئے اور جاوئے ای جاوئے 73سالوں میں ہم اس سے باہر نہیں نکل پا رہے ہماری سیاسی جماعتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پہلے لوگوں کے جذبات ابھارتی ہیں مقصد نکل جانے کے بعد ان کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے انہی چکروں میں گند ڈالتے جا رہے ہیں آج کل پھر کسی سقراط نے پنجابیوں کی پگ کو داغ لگنے  کا سلوگن دے دیا ہے ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دفعہ پہلے بھی داغ لگا تھا یہ 1988 کے انتخابات تھے اس وقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں 3 دن کا وقفہ ہوتا تھا قومی اسمبلی کا الیکشن پیپلزپارٹی جیت گئی تو پنجاب میں راتوں رات جاگ پنجابی جاگ تیری پگ نوں لگ گیا داغ کے پوسٹر لگ گئے اور سرکاری ٹی وی اور اخبارات میں اتنے زور دار انداز میں اسے عام کیا گیا کہ 3دن بعد پنجاب کے انتخابی نتائج تبدیل ہو گئے اب ایک بار پھر پگ کے داغ کو کیش کروانے کی کوشش کی جارہی ہے پنجاب بڑا بھائی ہونے کے ناطے مرکزی یکجہتی کا زیادہ ذمہ دار ہے لیکن مسلم لیگ ن نہ جانے کیوں اپنے آپکو وفاقی جماعت ہونے کے باوجود صوبائی جماعت بنانے پر تلی ہوئی ہے سیاست میں یہ خطرناک کھیل کھیلا جا رہا ہے کیونکہ باقی صوبوں میں علاقائیت کا عنصر پہلےہی نمایاں ہے صرف پنجاب واحد صوبہ تھا جو پورے پاکستان کی بات کرتا تھا اور اپنی پگ کے اندر پورے پاکستان کے داغ چپھانے بیٹھا تھا  مسلم لیگ ن پنجاب کی لیڈر شپ کے ساتھ زیادتی کا تاثر دےکوئی اور کھیل کھیلنے جا رہی ہے سیاسی کھیل گیم کا حصہ ہیں لیکن سیاست کے لیے قومی وحدت کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :