جہلم میں سیاحتی خزانہ

پیر 19 اپریل 2021

Mian Habib

میاں حبیب

 جہلم تاریخی اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے ایک طرف  عسکری لحاظ سے ہر دور کی دفاعی تاریخ جہلم کے کردار کے بغیر ممکن نہیں صدیوں سے اس علاقے کے مکین سپہ گری میں گرانقدر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں اسے شہیدوں اور غازیوں کی دھرتی بھی کہا جاتا ہے افواج پاکستان میں اس علاقے کی واضح نمائیندگی ہے منگلا ڈیم کی تعمیر کے وقت جہلم کے لوگوں کو برطانیہ اور یورپ میں جانے کا موقع ملا آج جہلم کا کوئی خاندان ایسا نہیں جس کا کوئی فرد بیرون ملک مقیم نہ ہو یہاں کے باسیوں کا ہر لحاظ سے بڑا اہم کردار ہے آجکل پاکستان کی سیاست پر چھائے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات چوہدری فواد حسین کا تعلق بھی اسی علاقہ سے ہے دوسری جانب جہلم تاریخ ساز دھرتی ہے جہاں سیاحت کے خزانے موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے ہر دور میں ان خزانوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا چند روز قبل پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ کے زیر اہتمام لاہور اور اسلام آباد کے صحافیوں نے جہلم کے مشھور تاریخی مقام قلعہ روہتاس کا دورہ کیا صحافیوں کے وفد میں ملک سلمان، اشرف شریف، شہباز افضل، علی جنت،ایازاسلم،حنا چوہدری، فرزانہ اور مہرین شامل تھیں ہم ڈپٹی کمشنر راو پرویز اختر کے مہمان تھے جہلم پہنچنے پر ضلعی انتظامیہ نے ہمارا خیر مقدم کیا اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر وقار نے جہلم میں سیاحتی ورثہ کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی خوش آئیند بات یہ تھی کہ راو پرویز اختر نے اپنی ذاتی کاوشوں سے جہلم میں 65 کنال پر ڈویژنل پبلک سکول قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اس منصوبہ میں سرکاری زمین کے علاوہ خزانے سے کوئی پیسہ نہیں لیا گیا یہ سکول جہلم کی شناخت بنے گا اس کاوش پر ہم راو پرویز اختر کو جہلم کا سر سید کہہ سکتے ہیں ہمیں یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ ضلعی انتظامیہ جہلم کے تاریخی سیاحتی مقامات کو بحال کرنے اور سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بہت اہم اقدامات اٹھا رہی ہے دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جہلم میں ہندو سکھ اور اسلام تینوں مذاہب کی تاریخی نشانیاں موجود ہیں اگر حکومت  ان تاریخی مقامات کی بین الاقوامی سطح پر مارکیٹنگ کرے تواسے غیر ملکی سیاحوں کی دلچسپی کا گڑھ بنایا جا سکتا ہے بلا شبہ موجودہ حکومت سیاحت پر بہت توجہ دے رہی ہے اندرون ملک اور بیرون ملک سیاحوں کی دلچسپی کے مواقع پیدا کیے جا رہے ہیں حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے تاریخی اہمیت کے حامل نندنہ فورٹ کا دورہ کیا یہاں شاہراہ ورثہ کا افتتاح کیا یہ سڑک علاقے میں سیاحت کے فروغ کے لیے اہم پیش رفت ہے یہ سڑک قلعہ نندنہ سے شروع ہو کر شیوا مندر، ٹلہ جوگیاں کھیوڑا میں نمک کی کانوں سے ہوتی ہوئی قلعہ ملوٹ اور کلر کہار میں تخت بابری تک جائے گی جس سے سیاحت کو فروغ ملے گا قلعہ نندنہ میں تاریخ ساز البیرونی کی لیبارٹری موجود ہے جہاں بیٹھ کر البیرونی نے زمین کا قطر ماپا تھا ان کی تحقیق اتنی درست تھی کہ آج کے دور میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے جب زمین کی پیمائش کی گئی تو معمولی سے فرق کے ساتھ وہی تھی جو البیرونی نے بتائی تھی ڈی سی جہلم کا کہنا تھا کہ وہ وزیراعظم  کو ٹلہ جوگیاں کے وزٹ کے لیے آمادہ کر رہے ہیں ٹلہ جوگیاں کے بارے میں آج کی نسل فوجی مشقوں اور اہم دفاعی ٹیسٹوں کے حوالے سے جانتی ہے لیکن یہ جگہ آثار قدیمہ کے حوالے سے بین الاقوامی اہمیت کی حامل ہے ٹلہ جوگیاں کے آثار 5 سے7ہزار سال پرانے ہیں یہ ٹلہ قبل مسیح بھی آباد تھا قدیم زمانے میں یہاں سورج کی پوجا کی جاتی تھی یہاں جوگی جوگ تیاگ کرتے تھے یہ جگہ ایک لحاظ سے اس وقت کے سائنس دانوں کی یونیورسٹی تھی ان ہی جوگیوں نے اپنی تحقیق سے دیسی جڑی بوٹیوں سے دیسی طریقہ علاج دریافت کیا ایورو ویدک طریقہ علاج متعارف کروایا جڑی بوٹیوں سے علاج علم نجوم اور یوگا کی ایجاد ہے  یوگا بھی اسی دھرتی کی ایجاد ہے کہا جاتا ہے کہ ہندو مذہب کے کئی کرداروں کا جنم بھی یہیں ہوا ہے سکھوں کے مذہبی پیشوا بابا گورونانک جی نے بھی یہیں چلہ کاٹا ان کے قدموں کے نشان بھی ایک راستے پر پائے جاتے ہیں جنھیں اب محفوظ کیا جا رہا ہے  گورونانک کے چلہ کاٹنے والی جگہ پر بعد میں راجہ رنجیت سنگھ نے ایک یادگار تعمیر کروائی جو حضرت قائد اعظم کے مزار سے بہت مشابہت رکھتی ہے پنجاب کی مشھور لوک داستان ہیر رانجھا کے کردار رانجھا نے بھی یہیں کان چھدوا کر یا کٹوا کر جوگی کا روپ دھارا یہاں جوگ کرنے والوں میں بدھ مت، مسلمان، ہندو اور سکھ چاروں مذاہب کے جوگی شامل ہوتے تھے ٹلہ جوگیاں کو ماضی میں کوہ بال ناتھ بھی کہا جاتا تھا مسلمان اور ہندو بادشاہ راجے مہا راجے اپنی مرادوں کے حصول کے لیے یہاں آتے تھے سیاحوں کے لیے سب سے آسان رسائی والی جگہ قلعہ روہتاس ہے جو اسلام آباد جیسے انٹرنیشنل شہر سے قریب ہے اور موجودہ جی ٹی روڈ سے 5 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے دراصل یہ قلعہ جی ٹی روڈ پر واقع تھا اور پرانے جی ٹی روڈ کے آثار آج بھی قلعے کی دیوار کے ساتھ پائے جاتے ہیں یہ پاکستان کا دوسرا بڑا قلعہ ہے شیر شاہ سوری نے 1542 میں اس قلعہ کی بنیاد رکھی تھی چار سو ایکڑ پر مشتمل اس قلعہ کی تعمیر میں 3لاکھ مزدوروں نے حصہ لیا اس میں 60 ہزار فوجی قیام کر سکتے تھے اکبر بادشاہ کے سسر مان سنگھ کی حویلی بھی اسی قلعہ میں ہے اجودھا رانی کی بہن کی سمادھی بھی اسی قلعہ میں ہے قلعہ کے قریب ہی خیر النساء کا مقبرہ بھی ہے تاریخی اہمیت کے اس قلعہ کو دیکھ کر بڑا دکھ ہوا کہ ہمیں چیزوں کی قدر نہیں ہمارے لوگوں نے اس قلعہ کے ساتھ جو سلوک کیا اور ہماری حکومتوں نے جس طرح اس کو نظر انداز کیا اس پر صرف ماتم ہی کیا جا سکتا ہے قلعہ بری طرح شکست وریخت کا شکار ہے جگہ جگہ سے دیواریں ٹوٹ چکی ہیں قلعہ کے اندر بڑی تعداد میں آبادی قائم ہے ظلم کی انتہا یہ کہ اسی قلعے کو توڑ توڑ کر ان ہی پتھروں سے لوگوں نے گھر بنا لیے ان تجاوزات کے باوجود اس قلعہ میں دیکھنے کے لیے دلچسپی کی بہت زیادہ چیزیں ہیں خاص کر لینڈ سیکپنگ کے مناظر اور طرز تعمیر اپنے اندر ایک چاشنی رکھتی ہے موجودہ حکومت اور انتظامیہ نے اس کی بحالی پر توجہ دی ہے اور اسے ٹورسٹ پوائنٹ بنانے کے لیے بہت اچھے اقدام کیے ہیں سیاحوں کی دلچسپی کے لیے ایک پرائیویٹ کمپنی نے قلعہ سے تھوڑی دور ایک زپ لائن بنائی ہےجسے راجہ وقار آپریٹ کر رہے ہیں جو فنی صلاحیتوں کے علاوہ دلچسپ گفتگو کے ماہر ہیں زپ لائن کی رائیڈ کا اپنا مزہ ہے اور اس کے قریب ہی راجہ عمران نے اپنی ذاتی زمین پر ریزارٹ بنانے ہیں جہاں قدرتی ماحول کو محفوظ کیا گیا ہے جنگل میں اتنے خوبصورت ریزارٹ خاموشی اور سکون پرندوں کی چہچہاہٹ، بچوں کی تفریح کا سامان سب قابل تعریف ہیں ہمارا ون ڈے ٹرپ تھا لیکن تحریک لبیک کی جانب سے جی ٹی روڈ کی بندش کے باعث ہم نے رات اس ریزارٹ پرگزاری رات کا ڈنر ڈپٹی کمشنر راو پرویز اختر اور ان کے ہونہار ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر وقار کے ساتھ کیا ہم بیورو کریسی پر بڑی تنقید کرتے ہیں لیکن میں نے فرض شناسی کا جو مظاہرہ جہلم میں دیکھا وہ قابل تحسین ہے یقین کریں کہ میں نے فرض شناسی میں تڑپتے ہوئے دیکھا سڑکیں بلاک ہونے کی وجہ سے کرونا کے مریضوں کے لیے لاہور سے آنے والے گیس سلنڈر کے ٹرک گوجرانوالہ اور کھاریاں میں روک لیے گئے تھے اور جہلم کے ہسپتالوں میں آکسیجن گیس کے سلنڈر رات 12 بجے تک کے تھے راو پرویز اختر نے وزیر صحت پنجاب عسکری اداروں متعلقہ اضلاع کی پولیس اور انتظامیہ کے افسران سے رابطے اور ہر ممکن طور پر 12 بجے رات سے قبل سلنڈر پہنچنے کو ممکن بنانے کے لیے ان کی جان پر بنی ہوئی تھی آخر کار انھوں نے گوجرانوالہ کی انتظامیہ اور پولیس کی مدد سے ٹرک ریلوے اسٹیشن گوجرانوالہ منگوایا ریلوے حکام سے رابطہ کر کے گیس سلنڈر ریل کے ذریعے جہلم منگوائے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر وقار سول سروس کے وہ ہیرے ہیں جس پر بیورو کریسی مان کر سکتی ہے وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہیں وکالت کی تعلیم انھوں نے حاصل کر رکھی ہے سول سروس کا امتحان  نمایاں کامیابی سے پاس کیا بلکہ دو بار پاس کیا پہلے پولیس سروس جائن کی طبیعت کے ساتھ مطابقت نہ ہونے پر دوبارہ سی ایس ایس کر کے ڈی ایم جی گروپ جائن کیا لیکن ان کی شریک حیات پولیس گروپ سے ہیں اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ گھر میں ڈی ایم جی گروپ حاوی ہے یا پولیس گروپ لیکن پولیس اور انتظامیہ کے اختیارات پر بحث ضرور ہوتی ہو گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :