اقبال نظریہ پاکستان کا معمار

اتوار 21 اپریل 2019

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

مصو ر پاکستان علامہ اقبال کی ذات اتنی کثیرالجہات اور ان کے افکار اتنے کثیرالمعانی ہیں کہ متعدد مغربی مفکرین نے ان کے نظریات کو باہم متناقض قرار دیا ہے جبکہ درحقیقت ان کی شخصیت اور ان کے فلسفہ میں ایک منطقی ارتقا اور فکری و عقلی تدریج نظر آتی ہے اسی لیے ان کے افکار میں مسلسل گوناگوں تبدیلیاں ہوتی رہیں نہ صرف یہ کہ علامہ اقبال کے فلسفیانہ اور سیاسی و سماجی افکار و نظریات میں ایک منطقی ارتقا تھا، بلکہ ان کی مذہبی فکر میں بھی یہ تدریجی سوچ واضح ہے۔

اقبال  کی شخصیت پر لکھنے کے قابل تو نہیں اور نہ ہی اس مضمون میں آپ کی شخصیت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا جاسکتا ہے مگر ادنی طالب علم کی حیثیت سے آپ کی شخصیت کے چند پہلوؤں پر قلم اٹھانے کی جسارت کررہا ہوں-انگریزی زبان میں ان کی تجدد پسندانہ مذہبی فکر کا شاہکار The Reconstruction of Religious Thought in Islam ”تجدیدفکریاتِ اسلام یا تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ “جس کا موضوع اسلام کے اجتہادی اصولوں کے تحت فکر اسلامی کی تشکیل نو ہے اس دعوی کی دلیل ہے کہ اقبال بنیادی طور پر اہل طریقت میں سے تھے ۔

(جاری ہے)

حضرت اقبال  ایک طرف امت مسلمہ کی مذہبی فکر کے ڈھانچے کی تعمیر نو پر اپنے خیالات پیش کر رہے تھے، جبکہ دوسری جانب وہ مسلمانان ہند کو ان کے مذہبی اور سیاسی حقوق کا دفاع کرنے کی ترکیب بھی بتا رہے تھے اس لیے کہ ایک آزاد ہندوستان ابھر کر سامنے آنے والا تھا۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کے مذہبی ادب کی تفہیم جدید کی ضرورت کا بھی احساس دلایا اور روایتی اور جدید مسلم افکار و نظریات کا باریکی سے مطالعہ کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ بہت سے ایسے درسی مواد جو طبیعاتی حقائق کے خلاف، فرسودہ اور عقل و نقل سے متصادم ہیں، ہندوستانی دینی مدارس اور فقہ و افتا کی روایت کا حصہ ہیں لیکن وہ امت کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔

لہٰذا انہوں نے علمی جسارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی کتاب” تجدید فکریات اسلام“ میں مسلمانوں کے ان مذہبی افکار و نظریات کی نشاندہی کی جن کی تشکیل جدید از حد ضروری ہے۔ اس نقطہء نظر کو پیش نگاہ رکھتے ہوئے انہوں نے تنقیدی بحث کے لیے جن اہم موضوعات کا انتخاب کیا ان میں علم اور مذہبی مشاہدہ‘مذہبی واردات کے انکشافات کا فلسفیانہ معیار‘خدا کا تصور اور دعا کا مفہوم‘انسانی خودی، اس کی آزادی اور لافانیت‘اسلام میں حرکت کا اصول اور مسلم ثقافت کی روح وغیرہ سرفہرست ہیں-علامہ محمد اقبال محض ایک دانشوراور فلسفی ہی نہیں بلکہ بلند پایہ شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیت تھے آپ نے اردو اور فارسی کے علاوہ عربی میں بھی شاعری کی یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔

علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریہ کستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے 1930ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔

علامہ اقبال 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا مختلف تاریخ دانوں کے مابین علامہ کی تاریخ ولادت پر کچھ اختلافات رہے ہیں لیکن حکومت پاکستان سرکاری طور پر 9 نومبر 1877ء کو ہی ان کی تاریخ پیدائش تسلیم کرتی ہے جبکہ وہ 21اپریل1938کو اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ۔علامہ اقبال کے آباء و اجداد قبول اسلام کے بعد اٹھارویں صدی کے آخر یا انیسویں صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے اور محلہ کھیتیاں میں آباد ہوئے اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں ان کے ایک جد نے اسلام قبول کیا۔

بزرگوں نے کشمیر چھوڑا تو سیالکوٹ میں آ بسے ان کے والد شیخ محمد رفیق نے محلہ کھٹیکاں میں ایک مکان آباد کیابعد میں شیخ محمد رفیق بازار چوڑیگراں میں منتقل ہوگئے جو اب اقبال بازار کہلاتا ہے ایک چھوٹا سا مکان لے کر اس میں رہنے لگے، مرتے دم تک یہیں رہے۔شیخ نور محمد دیندار آدمی تھے۔ بیٹے کے لیے دینی تعلیم ہی کافی سمجھتے تھے سیالکوٹ کے اکثر مقامی علما کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے۔

اقبال بسم اللہ کی عمر کو پہنچے تو انھیں مولانا غلام حسن کے پاس لے گئے مولانا ابوعبد غلام حسن محلہ شوالہ کی مسجد میں درس دیا کرتے تھے شیخ نْور محمد کا وہاں آنا جانا تھا یہاں سے اقبال کی تعلیم کا آغاز ہوا حسب دستور قرآن شریف سے ابتدا ہوئی تقریباً سال بھر تک یہ سلسلہ چلتا رہا کہ شہر کے ایک نامور عالم مولانا سید میر حسن ادھر آ نکلے ایک بچے کو بیٹھے دیکھا کہ صورت سے عظمت اور سعادت کی پہلی جوت چمکتی نظر آ رہی تھی پوچھا کہ کس کا بچہ ہے‘ معلوم ہوا تو وہاں سے اٹھ کر شیخ نور محمد کی طرف چل پڑے دونوں آپس میں قریبی واقف تھے مولانا نے زور دے کر سمجھایا کہ اپنے بیٹے کو مدرسے تک محدود نہ رکھو اس کے لیے جدید تعلیم بھی بہت ضروری ہے انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ اقبال کو ان کی تربیت میں دے دیا جائیکچھ دن تک تو شیخ نور محمد کو پس و پیش رہا، مگر جب دوسری طرف سے اصرار بڑھتا چلا گیا تو اقبال کو میر حسن کے سپرد کر دیا۔

ان کا مکتب شیخ نور محمد کے گھر کے قریب ہی کوچہ میر حسام الدین میں تھا یہاں اقبال نے اردو، فارسی اور عربی ادب پڑھنا شروع کیا تین سال گزر گئے۔ اس دوران میں سید میر حسن نے اسکاچ مشن سکول میں بھی پڑھانا شروع کر دیا اقبال بھی وہیں داخل ہو گئے مگر پرانے معمولات اپنی جگہ رہے سکول سے آتے تو استاد کی خدمت میں پہنچ جاتے۔ میر حسن ان عظیم استادوں کی یادگار تھے جن کے لیے زندگی کا بس ایک مقصد ہوا کرتا تھا : پڑھنا اور پڑھانا۔

میرحسن تمام اسلامی علوم سے آگاہ تھے اور جدید علوم پر بھی اچھی نظر تھی اس کے علاوہ ادبیات، معقولات، لسانیات اور ریاضیات میں بھی مہارت رکھتے تھے۔اقبال کی شخصیت کی مجموعی تشکیل میں جو عناصر بنیادی طور پر کارفرما نظر آتے ہیں ان میں سے بیشتر شاہ صاحب کی صحبت اور تعلیم کا کرشمہ ہیں سید میر حسن سر سید کے بڑے قائل تھے علی گڑھ تحریک کو مسلمانوں کے لیے مفید سمجھتے تھے۔

ان کے زیر اثر اقبال کے دل میں بھی سرسید کی محبت پیدا ہو گئی جو بعض اختلافات کے باوجود آخر دم تک قائم رہی مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ تو خیر اقبال کے گھر کی چیز تھی مگر میر حسن کی تربیت نے اس جذبے کو ایک علمی اور عملی سمت دی۔ اقبال سمجھ بوجھ اور ذہانت میں اپنے ہم عمر بچوں سے کہیں آگے تھے۔ بچپن ہی سے ان کے اندر وہ انہماک اور استغراق موجود تھا جو بڑے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔

16 برس کی عمر میں اقبال نے میٹرک کا امتحان پاس کیا فرسٹ ڈویژن آئی اور تمغہ اور وظیفہ ملا۔سکاچ مشن اسکول میں انٹرمیڈیٹ کی کلاسیں بھی شروع ہوچکی تھیں لہٰذا اقبال کو ایف اے کے لیے کہیں اور نہیں جانا پڑا، وہیں رہے، یہ وہ زمانہ ہے جب ان کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔ یوں تو شعر و شاعری سے ان کی مناسبت بچپن ہی سے ظاہر تھی، کبھی کبھی خود بھی شعر موزوں کر لیا کرتے تھے مگر اس بارے میں سنجیدہ نہیں تھے، نہ کسی کو سناتے نہ محفوظ رکھتے لکھتے اور پھاڑ کر پھینک دیتے۔

لیکن اب شعر گوئی ان کے لیے فقط ایک مشغلہ نہ رہی تھی بلکہ روح کا تقاضا بن چکی تھی ۔1895ء میں اقبال ایف اے کے بعد مزید تعلیم کے لیے لاہور آ گئے۔ یہاں گورنمنٹ کالج میں بی اے کی کلاس میں داخلہ لیا اور ہاسٹل میں رہنے لگے اپنے لیے انگریزی، فلسفہ اور عربی کے مضامین منتخب کیے انگریزی اور فلسفہ گورنمنٹ کالج میں پڑھتے اور عربی پڑھنے اورینٹل کالج جاتے جہاں مولانا فیض الحسن سہارنپوری ایسے بے مثال استاد تشریف رکھتے تھے اس وقت تک اورینٹل کالج گورنمنٹ کالج ہی کی عمارت کے ایک حصّے میں قائم تھا اور دونوں کالجوں کے درمیان بعض مضامین کے سلسلے میں باہمی تعاون اور اشتراک کا سلسلہ جاری تھا۔

1898ء میں اقبال نے بی اے پاس کیا اور ایم اے (فلسفہ) میں داخلہ لے لیا۔مارچ 1899ء میں ایم اے کا امتحان دیا اور پنجاب بھر میں اوّل آئے۔ اس دوران میں شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا، مگر مشاعروں میں نہ جاتے تھے۔ اسی زمانے میں انجمن حمایت اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم رہا اس کے ملّی اور رفاہی جلسوں میں اپنا کلام سناتے اور لوگوں میں ایک سماں باندھ دیتے اقبال کی مقبولیت نے انجمن کے بہت سارے کاموں کو آسان کر دیا۔

25 دسمبر 1905ء کو علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا چونکہ کالج میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے لیے گئے تھے اس لیے ان کے لیے عام طالب علموں کی طرح ہوسٹل میں رہنے کی پابندی نہ تھی قیام کا بندوبست کالج سے باہر کیا ابھی یہاں آئے ہوئے ایک مہینے سے کچھ اوپر ہوا تھا کہ بیرسٹری کے لیے لنکنز ان میں داخلہ لے لیا اور پروفیسر براؤن جیسے فاضل اساتذہ سے رہنمائی حاصل کی بعد میں آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی‘ڈاکٹریٹ ملتے ہی لندن واپس چلے آئے اور بیرسٹری کے فائنل امتحانوں کی تیاری شروع کردی کچھ مہینے بعد سارے امتحان مکمل ہو گئے جولائی 1908ء میں امتحان پاس کرکے وطن واپس لوٹ آئے۔

مئی 1908ء میں جب لندن میں آل انڈیا مسلم لیگ کی برٹش کمیٹی کا افتتاح ہوا تو ایک اجلاس میں سیّد امیر علی کمیٹی کے صدر چنے گئے اور اقبال کو مجلس عاملہ کا رْکن نامزد کیا گیا۔اسی زمانے میں انھوں نے شاعری ترک کردینے کی ٹھان لی تھی، مگر پروفیسرآرنلڈ اور اپنے قریبی دوست شیخ عبد القادر کے کہنے پر یہ ارادہ چھوڑ دیا فارسی میں شعر گوئی کی ابتدا بھی اسی دور میں ہوئی۔

یورپ میں قیام کے دوران میں اقبال کے دو بنیادی خیالات تبدیل ہونے شروع ہوئے اقبال وطنی قومیّت اور وحدتِ الوجود کی طرف میلان رکھتے تھے اب وہ میلان گریز میں بدلنے لگا تھا خاص طور پر وطنی قومیت کے نظریے کے تو اس قدر خلاف ہو گئے جسے نفرت کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔یورپ پہنچ کر انھیں مغربی تہذیب و تمدّن اور اس کی روح میں کارفرما مختلف تصوّرات کو براہ راست دیکھنے کا موقع ملا مغرب سے مرعوب تو خیر وہ کبھی نہیں رہے تھے، نہ یورپ جانے سے پہلے نہ وہاں پہنچنے کے بعد بلکہ مغرب کے فکری، معاشی، سیاسی اور نفسیاتی غلبے سے آنکھیں چرائے بغیر انھوں نے عالمی تناظر میں امتِ مسلمہ کے گزشتہ عروج کی بازیافت کے لیے ایک وسیع دائرے میں سوچنا شروع کیا یہاں تک کہ ان پر مغربی فکر اور تہذیب کا چھپا ہوا بودا پن منکشف ہو گیا۔

اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانان برصغیر اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیر مطالعہ رکھتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں۔ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا۔

ان کے کئی کتب کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ جس سے بیرون ملک بھی لوگ آپ کے متعرف ہیں بلامبالغہ علامہ اقبال ایک عظیم مفکر مانے جاتے ہیں۔تجدید فکریاتِ اسلام پر اقبال کے یہ خطبات اسلامی فلسفہ سے روایتی علما کی اجارہ داری کو ختم کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔ یہ کتاب دور جدید میں معاصر مسلم دانشوری اور فکر اسلامی کی اصلاح کے تعلق سے اٹھنے والی تحریکات کی رہنماہے ایک بڑی تعداد میں مسلم اسکالرس، مذہبی مصلحین اور ماہرین سماجیات جدید اسلامی فکر پر اقبال کے اس بنیادی کام سے انتہائی متاثر نظر آتے ہیں۔

مثال کے طور پر جدید اسلامی فکر کی اساسیات کو سمجھنے میں ایران کے ڈاکٹر علی شریعتی، ملیشیا کے ڈاکٹر عمران نذر حسین اور مصر کے طارق رمضان جو آکسفورڈ میں اسلامک سٹڈیز کے پروفیسر ہیں اور جنہیں مغرب میں بعض ادارے اسلام کا ”مارٹن لوتھر“ کہتے ہیں نے اقبال کے خطبات سے خوب خوشہ چینی کی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال مسلمانوں کے قدامت پسند اور سخت گیر رویہ پر نالاں تھے۔

انہوں نے اسلام میں مذہبی فکر سے جمودکو نکالنے کی تدبیر کی۔ ان کی نظر میں یہ قرآن کریم کے بنیادی حرکی اصولوں سے متصادم او ر امت کے لیے نقصان دہ تھا۔ اپنے خطبات میں اس موقف کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے قرآن مجید سے زبردست شواہد پیش کیے۔ ایک خطبہ میں انہوں نے واضح کیا کہ قرآن حکیم بنی نوع انسان کو اس روحانی ارتقائی سفر کو طے کرنے کی تلقین کرتا ہے، جو کہ خدا کے ساتھ تھا اور جومومنوں کے رشتہ عبودیت کو پختہ کر دیتا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :