400ارب ڈالر کاچین ایران معاہدہ اورمشرق وسطی کی بدلتی جغرافیائی سیاست

ہفتہ 22 اگست 2020

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ایک دستاویز سے معلوم ہوا ہے کہ چین اور ایران کے درمیان ہونیو الے معاہدے کی مدت 25 سال ہے، یہ ایک ایسا اسٹریٹجک شراکت داری کا معاہدہ ہے جس میں تجارت، سیاست، ثقافت اور سلامتی کے شعبے شامل ہیں چین اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے درمیان تعاون کی باتیں نئی ہیں اور نہ ہی تازہ ‘لیکن اس کے باوجود جو بات اس تعاون کو ایران اور چین کے درمیان نئی شراکت داری سے الگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے نہ صرف مقاصد عالمی نوعیت کے ہیں بلکہ علاقائی بھی ہیں، دونوں کا امریکا کے ساتھ تنازع ہے اور اس معاہدے میں سیکورٹی کا معاملہ بھی شامل ہے دونوں ملکوں کے درمیان سیکورٹی معاہدے کا پہلو ہی امریکا کیلئے باعث پریشانی ہے.

گزشتہ سال کی ہی بات ہے کہ جب ایران اور چین کے ساتھ مل کر روس بحر ہند میں اور خلیج اومان میں مشترکہ بحری مشقیں کی تھیں تو امریکا ناراض ہوا تھا چین کا مشرقی ایشیا اور افریقہ میں اثر رسوخ بڑھ رہا ہے اور اسی بات نے امریکی مفادات کیلئے خطرہ پیدا کر دیا ہے دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ وہ دوسرا محاذ ہو سکتا ہے جہاں بیجنگ واشنگٹن کی اجارہ داری کو چیلنج کر سکتا ہے اور اس مرتبہ یہ کام وہ ایران کے ذریعے کرنے جا رہا ہے یہ بہت ہی اہم بات ہے کیونکہ یہ معاہدہ اور اس کے اثرات معاشی دائرے اور باہمی تعلقات سے نکل کر آگے جائیں گے: معاہدے کے اثرات داخلی، علاقائی اور عالمی سطح کے ہو سکتے ہیں داخلی لحاظ سے دیکھیں تو یہ معاہدہ ایران کو ایک نئی زندگی دے گا کیونکہ وہ پہلے ہی پابندیوں کا شکار ہے اور معاشی مسائل سے نمٹ رہا ہے.

اس کے علاوہ ایران چین کے ساتھ اپنے اسٹریٹجک تعلقات کو مغرب کے ساتھ مذاکرات کیلئے بھی استعمال کر سکتا ہے امریکی الیکشن میں تین ماہ باقی رہ گئے ہیں اور اگر ایران چین اسٹریٹجک پارٹنرشپ کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو یہ شراکت داری ریپبلکن پارٹی کی کامیابی کو سبوتاژ کر سکتی ہے اس معاہدے سے یہ بھی ثابت ہو تا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی زبردست دباؤ کی حکمت عملی ناکام ہو چکی ہے، صرف ناکام نہیں ہوئی بلکہ ایران کو اس کا رویہ تبدیل کرنے پر بھی آمادہ نہ کر سکی.

طویل المدتی لحاظ سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ مغربی ممالک کی طرف اپنا فائدہ ڈھونڈنے کی بجائے ایران اب مشرق کی طرف دیکھنے کی حکمت عملی اختیار کر رہا ہے تاکہ وہ اپنی علاقائی اور عسکری طاقت کو فروغ دے سکے اور خلیج میں امریکی طاقت کا توڑ نکال سکے ایران کے ساتھ معاہدہ کرکے چین نے اپنے لیے یہ آسانی بھی پیدا کر دی ہے کہ وہ تیل کی سپلائی کے معاملے میں کسی ایک سپلائر پر انحصار نہیں کر نا چاہتا تاکہ اس کی اجارہ داری نہ قائم ہو پائے جبکہ خطے میں چین کو تیل سپلائی کرنے والے دیگر تمام عرب ممالک کے امریکا کے ساتھ قریبی سیکورٹی تعلقات ہیں.

چین کو خدشہ ہے کہ اگر تجارتی جنگ میں اضافہ ہوا تو امریکا ان عرب ممالک پر دباؤ ڈال کر بیجنگ کیلئے تیل کی سپلائی رکوا سکتا ہے اسلئے ایران کے ساتھ اسٹریٹجک معاہدہ چین کیلئے انشورنس پالیسی سے کم نہیں۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ، ایران چین تعلقات کے نتیجے میں خطے میں امریکی اثر رسوخ پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اس معاہدے کے نتیجے میں چین دنیا کے اہم ترین خطوں میں سے ایک سمجھے جانے والے خطے میں وسیع تر کردار ادا کر پائے گا.

خطے میں عراق پر امریکی حملے کے بعد سے اسٹریٹجک منظر نامہ تبدیل ہوگیا تھا لیکن اب یہ دوبارہ تبدیل ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں امریکا کے برعکس، چین نے مختلف ملکوں سے نمٹنے کے معاملے میں غیر سیاسی رویہ اختیار کر رکھا ہے، معاشی تعلقات قائم کرتا ہے امریکا نے ایران سے نمٹنے کیلئے اپنی ا?خری کوشش کرتے ہوئے ہی جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے شدید دباؤ کی پالیسی اختیار کی تھی.

اگرچہ اس پالیسی نے ایران کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا لیکن اس کے باوجود تہران اپنے موقف پر قائم رہا اور اپنے علاقائی اور عسکری مقاصد نہ چھوڑے۔ سونے پہ سہاگہ، ایران اور چین کے درمیان یہ نیا معاہدہ امریکا کو مزید نقصان پہنچائے گا اور چین کیلئے مشرق وسطیٰ میں وسیع تر کردار ادا کرنے کی راہ ہموار ہوگی. متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان معاہدے اور سلطنت عمان اور بحرین کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں”نارملائزیشن“کی یقین دہانیاں اور سفارتی تعلقات کے معاہدوں کے وعدوں کے بعد مشرق وسطحی میں صورتحال تبدیل ہورہی ہے جبکہ سوڈان کی جانب سے بھی ”نارملائزیشن“اور پھر سفارتی تعلقات قائم کرنے کے اعلان کے بعد براعظم افریقہ کے کئی اور مسلمان ممالک پر ”نارملائزیشن“کے لیے شدید دباؤ ہے یہ دباؤ صرف مخصوص خطوں تک ہی محدود نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا پر ہے .

امریکا اور اسرائیل کی اس پالیسی سے پہلے سے منتقسم اسلامی دنیا میں تقسیم اور بڑھے گی اور مستقبل قریب میں نئے بلاکس وجود میں آئیں گے اسلامی تعاون کی تنظیم ”او آئی سی “کے کردار پر عرب ملکوں کے علاوہ تقریبا تمام غیرعرب مسلمان ملکوں کے تحفظات ہیں بلکہ شدید قسم کے اعتراضات بھی ہیں اور یہ اعتراضات کافی حد تک درست بھی ہیں کیونکہ یہ تنظیم اپنے اعراض ومقاصد پورے نہیں کرپائی .

دوسری جانب موقر امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز نے اپنے اداریے میں کہا ہے کہ چین اور ایران نے ایک جامع فوجی اور تجارتی شراکت کے معاہدے کا مسودہ تیار کیا ہے جس کے تحت آئندہ 25 برسوں میں ایران کے اہم شعبوں جیسے توانائی اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں لگ بھگ 400 ارب ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوگی۔نیو یارک ٹائمز نے امریکی عہدیداروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ معاہدہ ایران میں چینی فوجی اڈوں کی تعمیر اور جغرافیائی سیاست کو بنیادی طور پر تبدیل کرنے کا راستہ بنا سکتا ہے مجوزہ معاہدے کے 18 صفحات پر مشتمل مسودے تک رسائی حاصل کی گئی اور اسے نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا معاہدے میں ایران کے "بینکاری ، ٹیلی مواصلات ، بندرگاہوں ، ریلوے اور درجنوں دیگر منصوبوں میں چینی تعاون کو بڑھانے کی بات کی گئی ہے اس کے بدلے میں ایران 25 سال تک چین کو بھاری رعایتی قیمت پر بلاتعطل تیل فراہم کرے گا فوجی حکمت عملی کے دائرہ کار میں ، مجوزہ مسودہ ”مشترکہ تربیت اور مشقیں“ اس کے علاوہ مشترکہ تحقیق اور ہتھیاروں کی ترقی ، اور انٹیلی جنس کے اشتراک سے فوجی تعاون کو مزید گہرا کرنے کے بارے میں بات کرتا ہے اس گہرے فوجی تعاون کا مقصد دہشت گردی ، منشیات اور انسانی اسمگلنگ اور سرحد پار سے ہونے والے جرائم کے خلاف ایک طویل جنگ لڑنا ہے.

اس معاہدے کی پیش کش چینی صدرشی جنگپنگ نے اپنے 2016 کے دورہ تہران کے دوران کی تھی اور مجوزہ مسودے کو ایرانی صدر حسن روحانی اور وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے گذشتہ ہفتوں کے دوران منظوری دی ہے یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکی پابندیوں کے باعث ایرانی معیشت اپاہچ ہو چکی ہے ،ان پابندیوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی کمپنی جو ایران کے ساتھ معاملات کرے گی اسے عالمی مالیاتی نظام سے علیحدہ کردیا جائے گایہ معاہدہ ابھی ایرانی پارلیمنٹ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا ہے ، اور بیجنگ کی جانب سے بھی ابھی اس معاہدے کی شرائط کو ظاہر نہیں کیا گیا تاہم ایرانی عہدیداروں نے عوامی عوامی سطح پر اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ چین کے ساتھ معاہدہ زیر التوا ہے.

مجوزہ مسودے کے ابتدائی جملہ میں کہا گیا ہے کہ”دو قدیم ایشیائی ثقافتیں تجارت ، معیشت ، سیاست ، ثقافت اور سلامتی کے شعبوں میں ایک جیسے نظریہ کے ساتھ دو شراکت دار اور متعدد باہمی دوطرفہ اور کثیرالجہتی مفادات کی حامل ریاستیں ایک نئی شراکت داری پر غور کریں گے“. دستاویز میں 100 کے قریب پروجیکٹس کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں چینی سرمایہ کاری ہوگی، توقع کی جاتی ہے کہ یہ منصوبے شی جنگ پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا حصہ ہوں گے ، جس کا مقصد یوریشیا میں چین کے اسٹریٹجک اثر و رسوخ کو بڑھانا ہے ان 100 منصوبوں میں ایئرپورٹ ، تیز رفتار ریلوے اور سب ویزشامل ہیں ، جو زیادہ تر ایرانی شہریوں کی زندگیوں کو موثر انداز میں متاثر کریں گے چین شمال مغربی ایران کے صوبے ابادان میں ، جہاں شت العرب دریا خلیج فارس میں بہتا ہے خلیجی جزیرے کیشم میں ماکو(Maku) کے مقام پر آزاد تجارت کا زون تیار کرے گا.

معاہدے کے مسودے میں ایران میں 5G ٹیلی مواصلات کے نیٹ ورک کے لئے چین کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے بارے میں بھی بات کی گئی ہے اس منصوبے کو چینی ٹیلی مواصلات کا ایک بڑا دیو” ہواوے“ نگرانی کرے گا ایک ایسی کمپنی جو سخت امریکی پابندیوں کی زد میں آچکی ہے اور برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے دنیا کے متعدد ممالک کی طرف سے پابندی عائد ہے ،وہ ایرانی مارکیٹ میں داخل ہو گی چین عالمی پوزیشننگ سسٹم ”بی ڈاو“ (BeiDou) کو بھی ایران کے سائبر اتھارٹیوں کی مدد سے ملک کے سائبر اسپیس میں جو مشترک شیئر ہے اس کو منظم کرنے میں مدد کی تجویز پیش کی گئی ہے ، جس سے ممکنہ طور پر ایران میں چین جیسی “عظیم فائر وال” تیار کرنے کی راہ ہموار ہوگی.

نیویارک ٹائمزصدر ٹرمپ کو صورتحال کا ذمہ دار قراردیتے ہوئے لکھتا ہے کہ2017 میں برسراقتدار آنے کے بعد ، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2015 کے ایران جوہری معاہدے سے دستبرداری اختیار کی جس نے ملک کے جوہری پروگرام کو منجمد کرنے اور ایران پر جامع پابندیاں عائد کرنے میں اہم کر دار ادا کیا، اس کی معیشت کو تباہ کیا اورتہران کی مایوسی نے اسے چین کی باہوں (بازوں) میں دھکیلا ہے چین کی سائنس اور ٹیکنالوجی یونیورسٹی بیجنگ کے پروفیسر علی گل زادہ کا کہنا ہے کہ ایران اور چین دونوں اس معاہدے کو نہ صرف اپنے مفادات کو بڑھانے بلکہ امریکہ کا مقابلہ کرنے میں ایک تزویراتی شراکت کے طور پر دیکھتے ہیں یہ ایران کے لئے اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ ہے جو اتحادی کی حیثیت سے عالمی طاقت حاصل کرنے کا خواہشمند ہے اب تک ، ایران تجارت اور سرمایہ کاری کے لئے یوروپی ممالک سے تعاون کا طلب گار تھا لیکن ایران کی مبینہ طور پر مایوسی بڑھ رہی ہے.

نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ ایران کے ساتھ معاہدے کے مسودے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیشتر ممالک کے برعکس ، چین کو لگتا ہے کہ وہ امریکہ کو ٹھکانے لگانے کی پوزیشن میں ہے ، وہ جوابی امریکی کاروائیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری طاقت حاصل کر چکا ہے ، کیونکہ اس نے صدر ٹرمپ کے ذریعہ چلائی جانے والی تجارتی جنگ میں اس کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے ادھر امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ امریکہ ”چینی کمپنیوں پر جو ایران کو امداد فراہم کرتی ہیں“ ان پر پابندی عائد کرتا رہے گا.

نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں امریکی عہدیداروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکی افواج نے کئی دہائیوں کے بعد مشرق وسطی میں سلامتی کے نظام پر غلبہ حاصل کیا ہے ، لیکن اب چین ایران معاہدے کی بدولت چین کو خطے میں قدم جمانے میں مدد مل سکتی ہے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب چین مختلف ممالک میں اسٹریٹجک بندرگاہیں تیار کرتا ہے تو اس بات کا امکان موجود رہتا ہے کہ وہ کسی بھی موقع پر ان کو عسکری شکل دے سکتا ہے.

مجوزہ مسودے میں ، چین کا منصوبہ ہے کہ ایران میں متعدد بندرگاہیں تعمیر کی جائیں ، ان میں سے ایک جسک (Jask) میں میں تعمیر کی جائے گی جوخلیج ہرمز کے بالکل باہر ہے جو خلیج فارس کا داخلی راستہ ہے خلیج ”ہرمز“ پوری دنیا کی 9 کلیدی سمندری چوکیوں میں سے ایک ہے ان تمام چوکیوں پر امریکہ کا کنٹرول ہے ، جسے سیکیورٹی کے بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ پوری دنیا میں امریکی تزویراتی تسلط کا ایک نشان ہیں.

اب ، جسک(Jask)میں چینی بندرگاہ کی تعمیر چینیوں کو پانی میں ایک اسٹریٹجک راستہ دے گی جس کے ذریعہ دنیا کے تجارتی تیل کا ایک بڑا حصہ (تقر یبا 25 سے30فی صد ) مختلف براعظموں کو سپلائی کیا جاتا ہے نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس تجارتی گزرگاہ(ہرمز) کی امریکہ کے لئے ایک اہم تزویراتی اہمیت ہے جس کی بحریہ کا پانچواں بیڑہ بحرین ( خلیج) میں لنگرانداز ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :