تلورحرام ”برادرز“ اور سسٹم کی بدبودارلاش

جمعرات 17 دسمبر 2020

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

پاکستان اس وقت شدید مالی دباؤ کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ دو ”برادر اسلامی ملکوں“سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی بلیک میلنگ ہے مگر ہماری قیادت کے کیا کہنے کہ وہ ابھی تک 80/90کی دہائی میں جی رہی ہے وہ سمجھتی ہے کہ عوام کو کچھ پتہ نہیں تو بھیا ہم ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں معلومات کو روکنا اب حکومتوں کے بس میں نہیں رہا۔

میرے نزدیک حکمرانوں کو ”مس گائیڈ“کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ بیوروکریسی کا ہوتا ہے اقتدار میں ہوں تو بیوروکریسی چاپلوسی کی انتہا کردیتی ہے جبکہ اقتدار کے بعد ساری کمزوریاں آنے والی حکومت کو تھما کر ان کی چاکری شروع فوجی بیوروکریسی کا بھی یہی حال ہے بھلا ہو ٹوئٹرکا کہ ہماری Confidential کی دو”مہروں “والی پریس ریلزسے جان چھوٹی ہے بھائی کامن سینس کی بات ہے جب پریس ریلزفیکس یا ای میل کی جاتی تھی تو وہ Confidential کہاں رہتی ہے کئی ہاتھوں سے گزرکر نیوزروم تک پہنچتی اور پھر نیوزروم میں ادھر ادھر گھومتی کسی سب ایڈیٹرتک پہنچتی۔

(جاری ہے)

یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں دس سال پہلے تک یہ سلسلہ چلتا رہا آئی ایس پی آر کے کئی دوستوں کی توجہ دلائی تو ایک مسکراہٹ کے علاوہ کوئی جواب نہیں ہوتا تھا بات سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے شروع ہوکر کہاں آن پہنچی کیونکہ ہم ”بڈھوں“کا ماننا ہے کہ پس منظرکو سمجھے بغیر آپ درست نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے اب دیکھیں سعودی اور اماراتی شاہی خاندان پاکستان میں خصوصی اجازت ناموں پر ”تلور“کا شکار کرتا پھر رہا ہے اور دوسری جانب وہ ہمیں مسلسل بلیک میل کررہے ہیں کہ اگر ہماری بات نہیں ماننی تو نکالیں ہمارے پیسے ‘ہماری حکومت ہے کہ ”تلور“کا شکار کروا کر اپنے عوام اور دنیا سمیت خود کو بھی دھوکا دینے کی کوشش کررہی ہے کہ ”سب اچھا“ہے ۔

جو بات پرائمری سکول کا بچہ جانتا ہے وہ ہمارے آکسفورڈ اور کیمرج کے پڑھے حکمرانوں کے موٹے دماغوں میں نہیں گھستی اور جس بیوروکریسی کو ہوا بنایا ہوا ہے کسی غیرجانبدار غیرملکی کمپنی کو ہائیرکرکے ان کا آئی کیو لیول چیک کرنے کے لیے ٹیسٹ کروائے جائیں نتائج ایواریج سے نیچے نہ آئیں تو میں سزا وار بھائی سچ بولو ہمارے ہاں بیچارے تلور کو شکار کرنے والے ہماری روایتی دشمن بھارت میں 175ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکے ہیں جس کے منصوبوں پر عمل درآمد بھی شروع ہوچکا ہے جبکہ ہمارے ہاں جو چند ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان ولی عہد محمد بن سلمان نے کیا تھا ابھی تک وہ صرف زبانی کلامی ہے یا ایک آدھ ایسی مفاہمتی یاداشت ہوگی جس کی حیثیت ردی کے ٹکڑے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔

بھارتی فوج کے سربراہ کے پہلی مرتبہ سعودی عرب کے دورے پر بھی عوام میں تشویش پائی جاتی ہے جس کو” دور“ کرنے کے لیے بیچارے تلور کی شامت آئی ہوئی ہے ایک شہزادے پچھلی بار لاکھوں ڈالر کا ”ادھار“کرگئے تھے انہیں بھی سابقہ واجبات کی بات کیئے بغیرشکار کا اجازت نامہ جاری کردیا گیا اسی طرح جیسے پچھلے دنوں خیرسگالی کے جذبے کے تحت اماراتی حکمران کو ڈیڑھ سو کے قریب شکرے ارسال کیئے گئے اب چونکہ بین القوامی قوانین کے تحت باز اور شکرے کی نقل و حمل غیرقانونی مگر حکومت نے بین القوامی قوانین کی پرواہ نہ کرتے ہوئے خصوصی اجازت نامے جاری کیئے ”شاہ عرب“کو نذرانے کے طور پر ایک دو نہیں پورے ڈیڑھ سو شکرے بجھوائے مگر ”موگینبو“ہے کہ خوش ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔

نذرانوں سے ایسے ہی ایک بات یاد آگئی کہ تیل نکلنے سے پہلے ہندوستانی مسلمان خیرات‘زکواة ‘صدقات اور نذر نقد اور جنس کی صورت میں لے کرجاتے تھے شہزادہ محمدبن سلمان کو آج کی نوجوان نسل کی طرح پتہ نہیں ہوگا مگر ان کے خاندان کے کئی بوڑھے بزرگ زندہ ہیں تو ان سے معلومات حاصل کرسکتے ہیں ہندوستان اور دیگر عجم حاجیوں کے قافلے کون لوٹتا تھا ان صحرائی ”ڈاکواؤں “کی معلومات کے لیے کچھ محنت خود کریں مگر خیال رہے کمزور دل حضرات یہ رسک نہ ہی لیں تو اچھا ہے 1985میں جن پاس اپنی ایئرلائن شروع کرنے کے لیے ایک جہازنہیں تھااور پی آئی اے کے ایک جہازپر اپنی کمپنی کے نام کا بینر لگا کراپنی فضائی کمپنی شروع کی تھی آج وہ”جہازحرام“ ہمارے ویزوں پر پابندیاں لگارہے ہیں جن کے ”عشق“میں ہماری حکمران اشرافیہ نے کراچی کی عالمی حیثیت کو ختم کرکے ایشیاء کا ہب ہونے کا اسٹیٹس پلیٹ میں رکھ کر جنہیں دیا وہ پاکستانیوں کے ورک پرمٹ منسوح کررہے ہیں ۔

تو صاحبان بات ہورہی تھی بلیک میلنگ کی اب کیا ہے ہم نے 2018میں کوئی چار ‘پانچ ارب ڈالر ادھار لیے کہ اس وقت اپنے زرمبادلہ کے ذخائرکو سہارا دینے کے لیے اشد ضرورت تھی ہمارا ایک قومی مسلہ ہے ہمارے پاس پیسے آجائیں چاہے وہ قرض اٹھایا ہو ہمارے حکمرانوں اور سول وملٹری بیوروکریسی کے اندازشاہانہ ہوجاتے ہیں غیرملکی دورے‘پروٹوکول‘شاہی دعوتیں‘الٹے سیدھے دکھاوے کے پروگرام سارے پیسے ان پر اجاڑکر ہمیں پھر سے کشکول اٹھا کرکبھی چین تو کبھی عالمی ساہوکاروں کی جانب للچائی نظروں سے دیکھنا شروع کردیتے ہماری حکمران اشرافیہ ا کی ذہنیت اس مزدور کی طرح ہے جسے ایک ماہ کے پیسے اکھٹے دیدیں تو وہ فوری گاؤں کی بس پکڑتا ہے اور جب تک وہ پیسے چلتے ہیں مجال ہے آپ کو نظربھی آجائے جب پیسے ختم ہوجائیں تو ادھار پکڑکرواپسی کی ٹکٹ کٹواتا ہے مراد رسولﷺ امیرلمومنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ وتعالی عنہ کا قول مبارک ہے کہ ”رعایا اپنے حکمرانوں کے نقش قدم پر چلتی ہے“ ۔

موجودہ حکومت کو ایک بات سمجھانے کے لیے کئی مضامین لکھے ‘خطوط ارسال کیئے کہ بھائی دوہزار روپے ماہوار سے ایک بل ادانہیں ہوتا مہینے بھر اخراجات کہاں سے پورے ہونگے اس لیے 144ارب روپے ”احساس پروگرام“میں جھونکنے کی بجائے ان پیسوں کو زراعت کی ترقی پر خرچ کریں رپوٹوں اور اعدادوشمار کے ذریعے بھی بتانے کی کوشش کی کہ بادشاہ سلامت آنے والے مہینوں میں ہمیں خوراک کی شدید قلت کا مسلہ درپیش آسکتا ہے مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی(ان کے کانوں پر ہاتھی بھی رینگتا رہے تو خاطرمیں نہیں لاتے ) اب قرض بھی اداکرنا تھا اس کے علاوہ موخرادائیگیوں پر تیل کی فراہمی بھی بند کردی گئی شاہان امارات ناراض ہیں کہ یمن میں فوجیں بجھوانے سے انکار کیوں کیا جبکہ شاہوں کے شاہ آج کل پرانے حریف کے اتنے قریب ہیں کہ ہواکا گزربھی ممکن نہیں وزیراعظم صاحب نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے جس دباؤ کا ذکر کیا ہے وہ ”تلورحراموں“کی جانب سے ہی تھا۔

تاہم تلورخوروں کو یاد رکھنا چاہیے کہ آج وہ جس مقام پر ہیں اس میں ہندوستانی مسلمانوں اور تقسیم ہند کے بعد پاکستانیوں کی بڑی قربانیاں ہیں مگر مجال ہے تیل سے حاصل ہونے والی دولت کو انہوں نے پاکستان سمیت کسی مسلمان ملک میں انویسٹ کیا ہو یا تو اس دولت کو مغرب کے جوا خانوں اور عیش کدوں میں اجاڑا گیا یا پھر احساس کمتری میں مبتلا عربوں نے ہمارے حکمرانوں کی طرح لندن‘پیرس‘امریکا وغیرہ میں محلات اور جزیرے خریدنے پر خرچ کیا اور نائن الیون کے بعد انہیں اتنا ناکارہ اسلحہ بیچا گیا کہ آج دنیا کی طاقتور ترین کرنسی رکھنے والے کویت جیسے ملک کا سابق وزیرخزانہ کہہ رہا ہے کہ چندماہ بعد شاید کویت کے پاس تنخواہیں دینے کے لیے بھی پیسے نہ ہوں اس سے صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

بلاشبہ چین نے مشکل وقت میں ہمیں ریسکیو کیا ہے اور ایک ارب ڈالر کی خطیر رقم قرض کی ادائیگی کے لیے دی ہے مگر ایک دن چین کا یہ قرض بھی تو واپس کرنا ہے اس لیے حکمرانوں کو چاہیے کہ اس پاکستانیوں کی حالت زار پر رحم کریں جو اشیاء خوردونوش سمیت بجلی اور گیس جیسی بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافے سے پریشان ہیں انہیں اتنا مجبور نہ کریں کہ اللہ نہ کرئے وہ بغاوت پر اترآئیں باقی رہی بیوروکریسی جو ”کاٹھے انگریزوں“پر مشتمل ہے اس کو لگام دیں دنیا کے نقشے پر شاید ہی کوئی ملک ہوگا جہاں کی بیوروکریسی مرنے پر کفن دفن کے اخراجات بھی سرکار سے کرواتی ہو ان کے ایکڑوں پر پھیلے محلات‘مفت بجلی‘پانی‘گیس‘فون وغیرہ ‘گاڑیاں ان کی مرمت ‘تیل سب کچھ قوم اداکرتی ہو وزیروں ‘مشیروں کی طرح ذاتی کاموں کے لیے سفرکو سرکاری دورہ میں تبدیل کرنے کا فن ‘ملک کے اندر مفت فضائی سفر‘بیرون ملک پوسٹنگ کی تنخواہ ڈالروں میں اور پھر مرتے دم تک یہ جونکیں ہمارا جون چوستی رہتی ہیں جبکہ ان کی حالت یہ ہے کہ اگر کسی غیرجانبدار ادارے سے ان کے ٹیسٹ لیے جائیں اور ساٹھ ‘ستر فیصد فیل قرارپائیں گے یہ ملک چلانے کے ذمہ داروں کا حال ہے جنہیں چند رٹی رٹائی سمریوں کے علاوہ کچھ آتا ہو میں مجرم۔

عدلیہ میں کہا جاتا ہے انصاف میں تاخیرانصاف کے خون کے مترادف ہے مگر ہمارے قاضی ہر روزانصاف کا خون کرتے ہیں مگر انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں مکڑی کے اس جالے میں کمزور ایسا پھنستا ہے کہ اس کی کئی نسلیں کھپ جاتی ہیں اس سے نکلنے میں جبکہ طاقتور اس کے پرزے پرزے کرکے نکل جاتا ہے کہتے ہیں دیوانی مقدمہ انسان کو دیوانہ کردیتا ہے یہ عام شہری کے لیے ہے خواص کے دیوانی مقدمات کے لیے تو اعلی عدالتیں بھی ٹرائل کورٹس میں بدل جاتی ہیں روزانہ کی بنیادوں پر سماعت اور چند ماہ میں کیس فارغ-عام شہری کا مقدمہ شروع ہونے میں کئی سال لگ جاتے ہیں پھر سول کورٹس میں جائیں تو ریٹ لسٹیں کھلے عام دستیاب ہیں تاریخ لینی ہو‘کسی دستاویزکی کاپی نکلوانا ہو‘مقدمے کا فیصلہ جلدی کروانا ہو ‘سمن کی جلد یا تاخیرسے تعمیل کروانا سب کے ریٹ ہیں جو بدلتے رہتے ہیں اس نظام کی لاش سے بدبو کے بھبوکے اٹھ رہے ہیں مگرذمہ دران کو محسوس نہیں ہوتا کیونکہ لاشوں کو لاشوں کی بدبو متاثر نہیں کرتی چاہے وہ کتنی بھی کیوں نہ گل سڑچکی ہو--استاد محترم حسن نثار صاحب کے بقول اس پورے نظام کو تیزاب سے غسل دینے کی ضرورت ہے ورنہ ان گلی ‘سڑی لاشوں سے بدبو کے بھبوکے اسی طرح اٹھتے رہیں گے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :