معاشی غلامی کی المناک کہانی۔ قسط نمبر1

جمعرات 24 جون 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

دنیا میں طاقت اور وسائل پر قبضے کی کشمکش کی کہانی اتنی ہی قدیم ہے جتنا حضرت انسان مگر جس دور سے ہم گزررہے ہیں ایسی معاشی غلامی تاریخ میں انسانیت نے کبھی نہیں دیکھی کارپوریشنزاور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے دنیا بھر کے وسائل پر چند فیصد افراد قابض ہیں جبکہ انسانیت دم توڑرہی ہے-جدید معاشی غلامی کے نظام نے ایک عیسائی مذہبی تحریک کے بطن سے جنم لیا فرانس کے دارالحکومت پیرس کے علاقے ماریزمیں پہلی صلیبی جنگ کے دوران عیسائی اشرافیہ کی سرپرستی میں1099میں ایک خفیہ تنظیم کی بنیاد رکھی گئی جنہیں تاریخ میں”نائٹس ٹیمپلرز“کا نام دیا جاتا ہے -ایک طرف عیسائی اشرافیہ کی دولت کے انبار تھے تو دوسری جانب مذہب کے نام پر کسی بھی حد سے گزر جانے والے جنونی جنگجو‘ ان کرداروں کے پس پشت کئی صدیوں پر محیط ایک ایسی داستان ہے جو ایک سے زیادہ براعظموں پر پھیلی ہوئی ہے 1099 میں پہلی صلیبی جنگ کے دوران جب یورپ سے تعلق رکھنے والے مسیحی فرقے رومن کیتھولک کی افواج نے مسلمانوں سے یروشلم چھین لیا اور یورپ کے”زائرین“ بڑی تعداد میں وہاں بس گئے ابتدامیں یہاں کے انتظامات کے لیے فرانسیسی کمانڈر ہیوز ڈے پیانز نے8 فوجیوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ تشکیل دیا جس کا نام” پوور نائٹس آف کرائسٹ آف دی ٹیمپل آف سولومن“ رکھا گیا یہی گروہ بعد میں نائٹس ٹیمپلرز کہلایانائٹس ٹیمپلر اعلیٰ سطحی کمانڈرز یا نائٹس تھے جن کا ہیڈکوارٹرز یروشلم کے ماؤنٹ ٹیمپل پر بنایا گیا یہ نائٹس ٹیمپلر کے ہی کچھ اراکین تھے جنہوں نے 14ویں صدی کے دوران فرانس سے بھاگ کر برطانیہ میں فری میسن نامی تنظیم شروع کی- سال1139 میں پوپ انوسنٹ دوئم نے ایک حکم جاری کیا جس کے تحت نائٹس ٹیمپلر کی طاقت وسیع ہوگئی اور اس کے فوجی یروشلم کے پار بھی متحرک ہوگئے انہیں غیر معمولی چھوٹ بھی دی گئی جس میں ان پر دنیا بھر میں ٹیکس یا مذہبی فرائض میں دیے جانے والا چندہ جمع کرانا اب فرض نہیں تھاان کو اجازت تھی کہ وہ ”مقدس شہر“ میں زائرین کے چڑھاؤے اور نذرانے بھی اپنے تصرف میں لائیں اسی طرح بادشاہ لووی ہفتم نے نائٹس ٹیمپلرز کو پیرس کی دیواروں کے شمال مشرقی کونے میں ایک زمین عطیہ کی جہاں ان جنگجوؤں کا ایک گروہ بس گیا۔

(جاری ہے)

نائٹس ٹیپملرزکو چونکہ عیسائی اشرافیہ اور چرچ کی مکمل حمایت حاصل تھی یہ ان کے لیے ریاستوں کے اندر ریاست کا کام کرتے تھے جبکہ چھوٹی ریاستوں کے حکمران جان کے خوف سے بغیرکسی حجت کے ان کے لیے تمام تر وسائل فراہم کرتے تھے تاریخ کو گھنگھالیں تو یہاں سے ایک ایسے نیٹ ورک کے نشان ملتے ہیں جو یورپ سے یروشلم تک منظم تھا اشرافیہ کے تجارتی قافلوں کی حفاظت‘مختلف خطوں میں ان کی اجارہ داری(آج کے دور کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرح)نائٹس ٹیمپلرزکے ہی دم قدم سے تھے جس کے لیے اشرافیہ چرچ کو اور چرچ نائٹس ٹیمپلرزکو نوازتے تھے -ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے دولت کا استعمال ہو یا جاگیروں کی رشوت یہ درجوں کے لحاظ سے نائٹس ٹیمپلرزکو عطا کی جاتی تھیں-عیسائی اشرافیہ ایک عالمگیرنظام کا خواب دیکھ رہی تھی آج تھری پیس سوٹ اور بریف کیس تھامے دنیا کی بڑی بڑی کارپوریشنزکے سی ای اوز اور عہدیدارن عہدجدیدکے ”نائٹس ٹیمپلرز“ہیں فرق صرف یہ ہے کہ ان کا ماسٹرآج انہی کا ازلی دشمن ہے سننے کو یہ کوئی افسانوی کہانی لگتی ہے مگر آج دنیا کی تقدیرکے فیصلے عہد حاضرکے یہ ”نائٹس ٹیمپلرز“کررہے ہیں آج بھی ریاستوں کے اندران کی ریاستیں موجود ہیں مگر یہ خفیہ ریاستیں معاشی نظام کو کنٹرول کرتی ہیں کیونکہ جس کے ہاتھ لاٹھی ہوگی بھینس اسی کی ہوگی زمانہ قدیم کے ان کے عہدیدارگرینڈماسٹریا ماسٹرکہلاتے تھے آج کے دور میں انہیں معاشی تباہ کار کہا جائے تو بے جا ناں ہوگا-پیرس نے نائٹس ٹیمپلر کی یادیں مختلف جگہوں کے نام رکھ کر محفوظ کررکھی ہیں، جیسے سکوائر ڈو ٹیمپل، بلیورڈ ڈو ٹیمپل، رو ڈو ٹیمپل، رو وییے ڈو ٹیمپل، رو ڈے فونٹین ڈو ٹیمپل، کیرو ڈو ٹیمپل وغیرہ ان کی مرکزی نشانیوں میں آج پیرس میں صرف لے ماریز یادی مارش باقی بچی ہے مگر عہد جدید کے ”ٹیمپلرز“کی نشانیاں(برانڈز)آج دنیا کے ہر کونے میں نظرآتی ہیں یہ کہانی صرف ”نائٹس ٹیمپلرزتک ہی محدودنہیں اس کے بطن سے دنیا کی دو انہتائی متنازعہ اور پراسرارتحریکیوں یعنی ”ایلومیناٹی“اور ”فری میسن“ کا بھی جنم ہوا جنہوں نے دنیا میں طاقت اور وسائل پر قبضے کی اس جنگ کو اس انتہا تک پہنچا دیا کہ آج پاکستان جیسا زرعی ملک خوراک درآمدکرنے پر مجبور ہے ان تحریکیوں نے اپنے پنجے پورے نظام میں گاڑرکھے ہیں لہذاجمہوریت کو ”مقدس“قراردے کر ان تحریکیوں کے معاشی نظام”کیپٹل ازم“ کے تحفظ کے لیے دنیا بھر میں جنگیں مسلط کرنے اور انسانوں کے قتل عام کا لائسنس دیدیا گیا-پچھلی صرف تین دہائیوں قدرتی وسائل اور فوجی قوت کے لحاظ سے انتہائی مضبوظ کتنے ممالک کو صرف اس لیے عبرت کا نشان بنادیا گیا کہ انہوں نے ”سسٹم کو چیلنج“کرنے کی جسارت کی تھی ایک طرف یو ایس ایس آر کی عظیم طاقت تنکوں کی طرح بکھرگئی نہ وہ مسلمان تھے نہ گندمی رنگت والے مگر انہوں نے سسٹم کو چیلنج کیا تھا‘چین جیسی طاقت نے ”سسٹم“ کے ساتھ سمجھوتے کو ہی عافیت جانا تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں بغداد سے طرابلس تک تباہی اور بربادی کی وہ داستانیں رقم کی گئیں جن کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی حالانکہ صدام اور کرنل قذافی اسی ”سسٹم “کی پیدوار تھے مگر جب انہوں نے اسے چیلنج کیا ان پر ایسی تباہی مسلط کی گئی کہ آج بغداداور طرابلس کی گلیاں بھکاریوں سے بھری نظرآتی ہیں تیل کی دولت سے مالامال عربوں کو ”تصوراتی“خطرے سے ڈرا کر انہیں کنگال کردیا گیا حالانکہ انہوں نے صدام یا کرنل قذافی کی طرح کیپٹل ازم کے عالمی معاشی نظام کو تو چیلنج نہیں کیا تھا مگر ”سسٹم“کو وار مشین کے لیے جتنی دولت کی ضرورت تھی وہ عربوں کو نچوڑکر یا عالمی مالیاتی اداروں کے نام پر قائم سودی اداروں کے ذریعے ہم جیسے ملکوں سے قرضوں سے حاصل ہونے والے بھاری سود سے ہی حاصل کی جاسکتی تھی-یہ عالمی”سسٹم“ایک طرف اگر سیاسی اور فوجی قوت کے ذریعے دنیا کو کنٹرول کرتا ہے تو دوسری جانب عالمی مالیاتی اداروں کے قرضے اس کا بڑا ہتھیار ہیں پاکستان جیسے ملکوں میں تو حکومتی اشرافیہ ہو یا سول وملٹری بیوروکریسی میں ان کے کارندے بلاواسط ”سسٹم“کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور اس کی کارپوریشنزاور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ریاستوں کے اندر ریاستیں قائم کررکھی ہیں رہے عوام تو انہیں کنٹرول کرنے کے لیے میڈیا کا ہتھیار ہی کافی ہے---باقی آئندہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :