پاکستان کے اصل دشمن

ہفتہ 26 جون 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

پاکستان دنیا کے ان بدقسمت ممالک میں سے ہے جو 72/73سالوں میں اپنی منزل کا تعین بھی نہیں کرپایااور ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے ہم آج بدترین فوڈ سیکورٹی کا شکار ہیں ہماری حکمران اشرافیہ میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ ملکی مسائل حل کرسکے ہمارا مشرقی بازو 1971میں ہم سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بننے والا ملک آج نہ صر ف خوراک میں خودکفیل ہوچکا ہے بلکہ اقتصادیات‘انڈسٹری حتی کہ ہر شعبے میں ہم سے کہیں آگے ہے- ہم اٹیمی طاقت اور بڑی فوجی قوت ہوتے ہوئے ہم سے قیام پاکستان سے لے کر آج تک چینی‘پانی اور گندم کے بحران پر قابو نہیں پاسکے بجلی کا بحران ہے کہ سنبھلے نہیں نہیں سنبھل رہا اور حکومت بجلی پر چلنے والی بیس ‘گاڑیاں اور ٹرینیں چلانے کی نوید سنارہی ہے بھائی ان سب کے لیے بجلی کہاں سے آئے گی ہمارے بوڑھے ‘بزرگ کہا کرتے تھے پاکستان اللہ نے بنایا وہ ٹھیک ہی کہتے تھے کیونکہ اب تک یہ اللہ کے آسرے ہی چل رہا ہے ورنہ سول وملٹری بیوروکریسی ہویا سیاسی خانوادے انہوں نے اسے ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر پاکستان اور پاکستانی اتنے ڈھیٹ واقع ہوئے ہیں کہ وہ رو دھو کے چلتے ہی جارہے ہیں-ہم نے ایک ہی کا م کیا ہے اور وہ ہے شہروں کو شیطان کی آنت کی طرح بڑھایا ہے مگر وہ کیسے چلے گے اس پر کسی نے دھیان نہیں دیا اور دولت کی ہوس میں ہماری اشرافیہ لینڈ مافیا نے اس ملک اورقوم پر جو کاری وار کیئے وہ بھارت جیسا ازلی دشمن بھی نہیں سوچ سکتا تھا یہ وہ خنجر ہے جو ہم نے اپنی ہی شہ رگ پر پھیر دیا -یہ خطہ جو نہ صرف پورے ہندوستان(بھارت‘پاکستان‘بنگلہ دیش)کو پالتا تھا بلکہ ایران‘افغانستان اور سری لنکا تک کو اناج فراہم کرتا تھا انگریزی دور میں ہندوستان سے اناج یورپ تک جاتا تھا دوسری جنگ عظیم تو برطانیہ کی قیادت میں مغربی اتحاد نے ہندوستان کے وسائل پر لڑی -ہمارے حصے میں تقسیم کے وقت پنجاب کا جو حصہ آیاوہ انتہائی زرحیزتھا مگر ہم ”انتہائی محنت“سے تہترسالوں میں تقریبا بنجربنادیا ہے کچھ بچاہوا حصہ حکومتی اشرافیہ اور ان کی زیرسرپرستی لینڈمافیا اسے برباد کرنے میں لگا ہوا ہے اور اس ابلیسی منصوبے میں تیزی 1980کے بعد آئی جب لاہور کا ایک کاروباری خانوادہ سیاست کے میدان میں اترا‘کرپشن کے انوکھے طریقے ایجاد ہوئے فرنٹ مینوں کے ذریعے ہزاروں میں فی ایکڑزمینیں خریدوں اور ایل ڈی اے کو لاکھوں‘کروڑوں فی ایکڑ بیچواس زمانے کے لاکھوں آج کے کم ازکم کروڑوں کے برابرتو ضرور ہونگے-یہ دھندا صنعت کاری سے زیادہ اچھا تھا ہینگ لگے نہ پھکڑی اور رنگ بھی چوکھا‘بیوروکریسی‘ایل ڈی اے افسران‘ضلعی افسران سب کو حصہ بقدرجثہ ملاتو ان کے بھی وارے نیارے ہونے لگے پہلے لاہور کے نواحی دیہاتوں میں تباہی شروع ہوئی لاکھوں ایکڑزرخیزآباد رقبوں کو کنکریٹ کے جنگلوں میں تبدیل کیا جانے لگا یہ تباہی نہر تک رک جاتی تو بھی ہم شاید بچ جاتے مگر ”شیر“کے منہ کو خون لگ چکا تھا نہر کے پار جن دیہاتوں سے لوگ دن میں گزرنے سے گھبراتے تھے آج وہاں بڑے بڑے مال اور ہوٹل بن رہے ہیں -لاہور تباہ ہوتا رہا مگر لندن سے پانامہ تک شاہی خاندان کی دولت کے انباربڑھتے گئے لاہور اور لاہورئیے اس بے ہنگم ترقی میں کہیں کھوگئے ہمارے زمانہ طالب عملی میں پلازہ سینما کے ساتھ بہت ساری یادیں وابستہ تھیں آج وہاں ملبے کا ڈھیرپڑا ہے ‘لاہور کی ثقافت کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک اتھارٹی بنائی گئی مگر وہ چوبرجی‘انارکلی‘جی پی او‘ہائی کورٹ‘سپریم کورٹ لاہور رجسٹری اور شالیمار باغ جیسے اہم ترین ثقافتی اثاثوں کو اورنج لائن کی دسترس سے نہ بچاسکی یہ عمارت کب تک اس کی دھمک کو سہہ پائیں گی معلوم نہیں -میں ترقی کا مخالف نہیں مگر خودکشی کو بخثیت انسان اور مسلمان حرام مانتا ہوں اور جس ترقی کا اختتام خودکشی ہو وہ ترقی نہیں بلکہ اسے تباہی کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے ‘ہم ”قانونی مسلمان“ حدیث مبارکہ بیان کرنے یا سننے پر دورشریف پڑھتے ہیں مگر عمل میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟اٹلی کے آمرمیسولینی نے حکیم الاامت علامہ اقبالسے 1931 میں ہونے والا ملاقات میں نصیحت کرنے کا کہا تو حضرت اقبال نے فرمایا ہر شہر کی آبادی کی حد مقرر کر دو اور اس کو اس سے تجاوز نہ کرنے دو اس سے زیادہ آبادی کے لیے مزید بستیاں مہیا کی جائیں اور نئے شہر آباد کیے جائیں میسولینی نے وجہ دریافت کی تو اقبال نے جواب دیا شہر کی آبادی جس قدر بڑھتی ہے اس کی تہذیبی اور اقتصادی توانائی بھی کم ہوتی ہے ثقافتی توانائی کی جگہ محرکات شر لے لیتے ہیں۔

(جاری ہے)

مسولینی کے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ کر اقبال نے فرمایا کہ یہ میری ذاتی رائے اور نظریہ نہیں بلکہ میرے رسولﷺ نے13 سو سال پہلے یہ مصلحت آمیز ہدایت جاری فرمائی تھی کہ مدینہ کی آبادی جب ایک حد سے تجاوز کر جائے تو مزید لوگوں کو آباد ہونے کی اجازت نہ دی جائے اور نیا شہر آباد کیا جائے میسولینی اس حدیث مبارکہ کو سن کر اس قدر حیرت میں گم ہوا کہ بے ساختہ کرسی سے اٹھ کے کھڑا ہو گیا اور میز پر دونوں ہاتھ مارتے ہوئے اس سے خوبصورت نظریہ ہوہی نہیں سکتا۔

ہم نے اس حدیث مبارکہﷺ کے الٹ کیا اور پہلے بربادی کراچی اور پھر لاہور کا مقدر بنی اس کے بعد اس نے پورے ملک کو اپنی نحوست میں جھکڑ لیاآج شہرتو شہر دیہاتوں میں بربادی رقص کررہی ہے اعلی عدالتیں یا حکومتی ایوان ہرجگہ قبرستان کی سی خاموشی ہے کیونکہ بدقسمتی سے اس ملک پر راج کرنے والی حکومتی اشرافیہ نے اپنے مستقبل کے محل کہیں اور بنا رکھے ہیں ‘کسی نے برطانیہ تو کسی نے امریکا ‘کینیڈا یا آسٹریلیا کو اپنا وطن بنا رکھا ہے جب تک اقتدار ہے اس وقت تک پاکستانی پاسپورٹ رکھنا مجبوری ہے جہاں یہ زنجیرٹوٹی اگلے ہی روز ”اختیاری وطن“ کے پاسپورٹ کے حصول کی درخواست جمع کروادی رہا خاندان تووہ ”صاحب“کی کمائی سنبھالنے کے لیے پہلے سے وہاں موجود ہوتاہے لہذا لاہور بربادی کا شکار ہویا کراچی کی ہوامیں زہرگل جائے ان کی بلاسے-ذاتی طور پر میں تنہائی پسند قسم کا انسان ہوں اور سمجھتا ہوں کہ تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے بندہ شوروغل سے جتنا دور رہے اس کی صحت کے لیے اتنا ہی اچھا ہے noise pollution یعنی شور کی آلودگی براہ راست ہمارے اعصاب پر اثراندازہوتی ہے جس سے نہ صرف بے شمار جسمانی بیماریاں بلکہ دماغی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں مگر کتنے فیصد پاکستانی ہونگے جو اس خطرے سے آگاہی رکھتے ہیں؟میرے خیال میں ہم فضائی آلودگی میں ہی نہیں بلکہ شورکی آلودگی کی فہرست میں پہلے پانچ ملکوں میں سے ہونگے ہم ہر سانس اور پانی کے ہر قطرے کے ساتھ زہراپنے جسموں میں اتار رہے ہیں مگر ہمیں کوئی پرواہ نہیں ‘ہمارے گلیشرزجو پانی کا بڑا ذریعہ ہیں وہ کس برق رفتاری کے ساتھ پگھل رہے ہیں ہمیں کوئی ہوش نہیں-سیاسی جماعتیں ایوانوں میں نورا کشتی کررہی ہیں جبکہ ریاست کے باقی ”حصہ داران“ مزہ لے رہے ہیں رہے عوام تو ان کے لیے میڈیا کی افیون کافی ہے ‘اس افیون نے انہیں اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل تک سے لاتعلق کردیا ہے بات کہاں سے شروع ہوکرکہاں آن پہنچی یہ بھی noise pollutionکا پیدا کردہ فتور ہے خیرزندگی رہی تو اس کو کسی دن دوبارہ یہیں سے شروع کریں گے اور پچھلے حصے کا احاطہ بھی -

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :