امریکا اور افغانستان کی دلدل۔ قسط نمبر2

پیر 12 جولائی 2021

Mian Muhammad Nadeem

میاں محمد ندیم

حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے افغانستان کے حوالے سے کچھ انٹرویوزدیئے جن سے تاثر ملاکہ پاکستان مستقبل میں اسٹیک ہولڈرنہیں ہے وزیراعظم ‘وزیرخارجہ اور دفترخارجہ کو اس تاثرکو دور کرنا ہوگا اور کھل کر دنیا کو پیغام دینا ہوگا کہ پاکستان افغانستان میں اسٹیک ہولڈرتھا ‘ہے اور رہے گا کیونکہ میدان خالی چھوڑنے سے پاکستان دشمن قوتوں کو کھل کھیلنے کا موقع مل رہا ہے جس کا ثبوت امداد کے نام پر بھارت کی کابل میں بھاری مقدار میں فوجی سازوسامان کی منتقلی ہے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کیا دہلی ‘واشنگٹن کے دباؤ پر بے بس ہوکر افغانستان میں فوجیں اتارنے پر آمادہ ہوگیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ اسلام آباد کے لیے انتہائی تشویشناک خبرہے -گزشتہ کالم میں امریکا کی جانب سے ہم بگرام ایئربیس خالی کرنے کے طریقہ کار پر افغان عسکری حکام کے اعتراضات پر بات کرچکے ہیں جس پر ایک افغان فوجی افسرکا تبصرہ انتہائی معنی خیزہے نعمت اللہ نامی افغان اسپیشل سیکورٹی فورس(کمانڈو) جوکہ بگرام ایئربیس کے سیکورٹی افسر اورپانچ اور چھ جولائی کی درمیانی رات بگرام کے باہر ہی ڈیوٹی پر مامور تھے ان کا کہنا تھاکہ جس انداز میں فوجی اڈے کو خالی کیا گیا ہے امریکہ نے 20 سال کے دوران بنائی جانے والی اپنی ساکھ ایک ہی رات میں کھو دی ہے ادھر امریکی محکمہ دفاع کا کہنا ہے فوجی انخلا سے متعلق افغان حکومت اور عسکری قیادت کو اعتماد میں لیا گیا تھاپینٹاگان کے ترجمان کرنل سونی لیگیٹ نے کہا کہ امریکہ نے انخلا سے متعلق افغانستان کے راہنماؤں سے رابطہ کیا تھا اور اس سلسلے میں انہوں نے گزشتہ ہفتے کے بیان کا حوالہ بھی دیا ان کا کہنا تھا کہ جو بائیڈن کی جانب سے افغانستان سے فوجی انخلا کے اعلان کے کچھ عرصے بعد سے ہی ہوائی اڈے سے منتقلی کا عمل شروع کر دیا تھا امریکہ نے گزشتہ ہفتے میں اعلان کیا تھا کہ افغانستان سے فوجی انخلا کے حتمی مرحلے میں اس نے افغانستان میں اپنے سب سے بڑے اڈے کو خالی کر دیا ہے- افغان جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہونے کے ساتھ ساتھ باضابط تسلیم شدہ اموات اور اخراجات کے حوالے سے بھی پچھلے بیس سالوں میں نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں ‘بڑے پیمانے پر امریکی فوجیوں کے جانی نقصان اور بھاری اخراجات پر متعددامریکی واشنگٹن سے ناراض رہے ہیں امریکی تھنک ٹینک” بروکنگز انسٹی ٹیوٹ “کے سینئر تجزیہ کار مائیکل اوہنلن کا کہنا تھا کہ ہم نے افغانستان پر جمہوریت تھوپنے کے لیے 2448امریکی فوجیوں کی جانیں گنوائیں بلکہ ٹیکس دہندگان کے دو کھرب ڈالرکے قریب اس بے نتیجہ جنگ میں جھونک دیئے -امریکیوں کی جانب سے بگرام ایئربیس پر چھوڑے گئے سامان میں ہزاروں مسلح و غیرمسلح گاڑیاں بھی شامل ہیں جن میں چابیاں تک لگی چھوڑدی گئیں یہ کہنا ہے افغان فوجی کمانڈرکا دوسری جانب طالبان کی سیاسی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی نظرآرہی ہے طالبان کی سابق شمالی اتحاد کے علاقوں میں موجودگی اورمقامی قبائل کے اندر تنظیم سازی ظاہر کرتی ہے کہ انہوں نے بھی 20سالہ جنگ میں عالمی سیاست کے بہت سارے داؤ پیچ سیکھ لیے ہیں تاجکستان اور ترکمانستان کی سرحدی چوکیوں اور قریبی شہروں کا کنٹرول جس اندازمیں حاصل کیا گیا ہے یہ طالبان سیاسی قیادت کے وژن اور مستقبل کی منصوبہ بندی کو ظاہر کرتا ہے میں کئی سالوں سے کہہ رہا ہوں کہ کابل میں آخرکار قومی حکومت قائم ہوگی جس کی قیادت طالبان کریں گے -امریکا کے ساتھ مذکرات اور اس کے نتیجے میں طے پانے والے معاہدے میں واضح ہوچکا ہے طالبان ”امارات اسلامیہ افغانستان“کے نام سے پیچھے نہیں ہٹنے والے اور اسے انہوں نے معاہدے میں شامل کروایا تھا ‘پاکستان میں کئی ”دانشور“اشرف غنی اور ان کی حکومت کی طرح چیخ وپکار کررہے ہیں کہ ”مت جا“انہیں ابھی تک یقین نہیں آرہا کہ امریکا جاچکا ہے اور جوتھوڑے بہت دستے بچے ہیں ان کے انخلاء کے لیے صدر بائیڈن نے31اگست کی حتمی تاریخ کا اعلان بھی کردیا جائے گا یعنی یکم ستمبر کو طالبان کے مطالبے کے مطابق افغان سرزمین پر کوئی بھی غیرملکی فوجی نہیں رہے گا افغانستان کے اندرونی حالات بھی بتارہے ہیں کہ قبائلی سردار طالبان کے ساتھ ہیں اور افغانستان جیسے قبائلی معاشرے میں حکومت وہی کرتا ہے جسے قبائل کی حمایت حاصل ہوتی ہے اگرچہ طالبان کے لیے کابل کا کنٹرول حاصل کرنا کوئی مسلہ نہیں لیکن خطے کی طاقتوں(روس اورچین) کے ساتھ ہونے والے مذکرات کے تحت چاہے جنرل مشرف جیسا ہی کوئی ریفرنڈم کیوں نہ ہو افغانستان ایک رسمی انتخابی عمل سے گزرئے گا جس کے بعد کابل کا کنٹرول خودبخود طالبان کے ہاتھ آجائے گا اگرچہ طالبان مغربی جمہوری طرزسیاست پر یقین نہیں رکھتے مگر امریکا فیس سیونگ کے لیے کچھ ناں کچھ چاہتا ہے واشنگٹن ‘طالبان طرزکے معاہدوں میں سب کچھ دستخط شدہ کاغذوں پر ہی نہیں ہوتا بلکہ اصل معاملات بند کمروں میں طے پاتے ہیں یہ عین ممکن ہے کہ اندرون خانہ امریکا نے روس اورچین سے گارنٹی مانگی ہو(افغانستان کے معاملے میں روس اور چین کے ساتھ دو ملکوں پاکستان اور ایران کا رول بڑا اہم رہا ہے ) اور انہوں نے طالبان کے ساتھ بات چیت کرکے یہ گارنٹی دی ہو حالات وواقعات سے ایسا لگتا ہے کہ ریفررنڈم کا عمل 31اگست سے پہلے ہوگا -کاش ہماری سیاسی وفوجی قیادت کو 70کی دہائی میں یہ بات سمجھ آچکی ہوتی تو آج پاکستان اور افغانستان سمیت خطے کے حالات مختلف ہوتے روس کو گرم پانیوں تک رسائی دیئے بغیرچین کا افغانستان کے راستے وسط ایشائی ریاستوں اور یورپ کی منڈیوں تک زمینی راستوں سے رسائی ممکن نہیں کیونکہ وسط ایشائی ریاستوں اور مشرقی یورپی ممالک اب تک کسی نہ کسی طور روس کے زیراثر ہیں اس کے علاوہ روس اور چین کی شراکت داری بھی ایک بڑی وجہ ہے روس کو گرم پانیوں تک رسائی ستر کی دہائی میں دیدی جاتی تو نہ صرف افغانستان ایک طویل خونریزی سے بچ جاتا اس صورت میں ہم وسط ایشیائی مسلمان ریاستوں کی مددبھی کرسکتے تھے مگر ہم نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی طرح اس وقت بھی امریکی جنگ کا ایندھن بننا قبول کیا دنیا کہیں ہمیں دہشت گرد کہا جارہا‘کہیں ایف اے ٹی ایف کی بلیک میلنگ تو کہیں ہمارے شہریوں پر مسلمان ملکوں کی ہی پابندیاں ہمارا پاسپورٹ دنیا کے بدترین پاسپورٹس میں سے چوتھے نمبر پر ہے ہمیں ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچنا ہوگا”کوئلوں کی اس دلالی“میں منہ کالے کروانے کے سوا ہمیں ملا کیا؟---باقی آئندہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :