پرامن بلوچستان سے لہولہان بلوچستان تک کا سفر

پیر 11 جنوری 2021

Mian Mujeeb UR Rehman

میاں مجیب الرحمن

ایک وقت تھا جب بلوچستان پر امن صوبہ تھا، لوگ بغیر کسی ڈر و خوف سے بلوچستان آتے جاتے رہتے تھے، بہت سے تاجر دوسرے صوبوں سے بلوچستان جاتے اور وہاں کی منڈیوں سے خرید و فرخت کر کے واپس لوٹ جاتے، اس وقت لوگ اگر امن کی مثال دیتے تو بلوچستان کو سرفہرست رکھتے اور مہمان نوازی میں کسی کو فوقیت حاصل تھی تو بلوچستان کے لوگ سر فہرست تھے، ہر طرف امن و امان قائم تھا، لوگ ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹتے تھے، دہشتگردی کی فضا دور دور تک نہیں تھی، اس وقت کے حالات موجودہ حالات سے قدرے مختلف تھے۔

اگر آج کے حالات کو ان حالات کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ہمیں ہر چیز میں اختلاف نظر آئے گا۔ آج کا بلوچستان رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ تو ہوسکتا ہے لیکن ہزاروں جانیں گنوانے کے باوجود وہاں پر امن قائم نہیں ہوسکا۔

(جاری ہے)

آئے روز لوگ دہشتگردی کا نشانہ بن رہے ہیں، لوگ اگر صبح کے وقت روزگار کے سلسلے میں باہر نکلتے ہیں تو انکو اس چیز کا بالکل بھی علم نہیں ہوتا کہ ہم صحیح سلامت شام کو گھر لوٹے گے یا نہیں۔

کئی سالوں سے دہشتگردوں کی طرف سے لگائی جانے والی آگ کو ابھی تک ٹھنڈا نہیں کیا گیا۔ بہت سے ہماری سیکیورٹی فورسز کے جوانوں اور سویلینز نے بلوچستان کو پر امن صوبہ بنانے کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ بین الاقوامی ایجنسیوں کے ہاتھوں کھیلنے والے دہشتگردوں نے بلوچستان کے لوگوں کو فرقہ وارانہ قتل و غارت اور خاندانی دشمنی کی طرف دھکیل دیا ہے، جس کی وجہ سے ہر حکومت وقت نے بلوچستان کے لوگوں کا قبلہ درست کرنے کے لیے اچھے فیصلے کیے اور دہشتگردی کے ناسور اور اس کے مائنڈ سیٹ کو ختم کرنے کے لیے بھر پور محنت کی۔


مجھے یاد ہے کہ 2012 میں اس وقت کے آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنر ل عبیداللہ خان نے سنیچر کو کوئٹہ میں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ملکی اداروں کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے تاکہ ملک میں لاقانونیت پھیلے اور عوام کا اعتماد حکومتی اداروں سے اٹھ جائے حالانکہ تمام ریاستی ادارے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں 20 دیگر ممالک کی ایجنسیاں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے سرگرم ہیں جن کی حرکتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی ادارے اور انٹیلیجنس ایجنسیاں سرگرداں ہیں۔ ایسی کاروائیوں میں ملک کے اندر اور ملک سے باہر بیٹھے ہوئے عناصر ملوث ہیں۔
حال ہی میں بلوچستان کے ضلع کچھی کے علاقے مچھ میں کان کنوں کو اغوا کرنے کے بعد شناخت کر کے قتل کرنے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کر لی ہے۔

اس حملے میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے دس افراد کو قتل کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ علاقہ کوئٹہ سے 80 کلومیٹر دور پیش آیا ہے اور یہ ایک پہاڑی علاقہ ہے اس لیے لاشوں کو ہسپتال منتقل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ہزارہ برادری نے کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر گزشتہ چھ دنوں سے دھرنا دیا ہوا تھا جس پر ہزارہ برادری اور حکومت کے درمیان مذاکرات گزشتہ رات کامیاب ہوئے ہیں اور شہید ہونے والے مزدوروں کو دفنانے کا فیصلہ کیا ہے، اس سے پہلے بھی ہزارہ برادری کی نسل کشی جاری تھی اور ہزارہ برادری کے بہت سے لوگوں کو قتل کیا گیا ہے۔


ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے بجائے ہزارہ برادری سے تعزیت کرنے کے انہوں نے دھرنے والوں کو " بلیک میلر" کہہ دیا، وزیراعظم کے اس بیان پر سوشل میڈیا اور میڈیا چینلز پر شدید تنقید کی گئی، یہ بیان وزیراعظم کے شایان شان نہیں ہوسکتا، ان کو اپنے یہ کہے ہوئے الفاظ واپس لینے چاہئیے اور فوری طور پر ہزارہ برادری سے تعزیت کرنی چاہئیے اور انکو امن و امان کے حوالے سے اعتماد میں لینا چاہئیے۔ ہم سب کی دعا ہے کہ الله تعالٰی پاکستان کو دہشتگردی کے ناسور سے بچائے اور ہر طرف امن و امان کی فضا کو پیدا کر دے۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :