اکمل مرزا بھی الوداع ہوئے

پیر 15 جون 2020

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

راولپنڈی کے معروف سیاسی کارکن اکمل مرزا انتقال کرگئے‘ مرحوم ایک بڑے باپ کے بیٹے تھے ایسا باپ کہ جس اللہ تعالی نے چیتے کا جگر دیا ہوا تھا‘ اکمل مرزا کے والد محترم جماعت اسلامی کے دلیر کارکن تھے‘ جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ نے اس ملک کو بہت تربیت یافتہ سیاسی کارکن دیے ہیں‘ لیکن نہ جانے یہ کارکن کیوں جماعت اسلامی کے دامن میں سمٹ نہیں سکے‘ یہ کسی ایک فریق کا معاملہ نہیں اس پر ایک طویل سیر حاصل گفتگو ہونی چاہیے‘ اکمل مرزا کے انتقال کی خبر جسارت کو بھجوائی ہے‘ دیکھتے ہیں کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے‘ اکمل مرزا راولپنڈی کے غیر معمولی اہمیت کے حامل خاندان کے سپوت تھے‘ ان کے بڑے بھائی ارشد مرزا‘ سینیئر بیوروکریٹ ریٹائر ہوئے ہیں‘ وہ سیکرٹری پیٹرولیم تھے‘ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے پرنسپل سیکرٹری رہے ہیں‘ لہذا ان دنوں ایل این جی گیس میں نیب بھگت رہے ہیں‘ اکمل مرزا کے ایک بھائی بھٹو دور میں پولیس گردی کا شکار ہوئے اور شہید ہوگئے‘ ان کے والد محترم نے اعلان کیا کہ میرے سارے بیٹے جماعت اسلامی کے لیے وقف ہیں‘ اکمل مرزا راولپنڈی کی شہر کی !سست سے شیخ رشید احمد کے خلاف پاکستان اسلامی فرنٹ کے امیدوار تھے‘ تاہم وہ الیکشن نہیں جیت سکے تھے لیکن شیخ رشید احمد کے لیے بہت مشکل امیدوار ثابت ہوئے تھے‘ شیخ رشید احمد جنہیں یہ زعم ہے کہ وہ اپنی انتخابی مہم ”اٹھا نے“ کا فن جانتے ہیں وہ بھی اکمل مرزا کے سامنے بے بس دکھائی دیے تھے تاہم انتخابی نتائج اکمل مرزا کے ہق میں نہیں آئے‘ اس ملک میں1993 کے عام انتخابت میں جماعت اسلامی نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا تھا اور پورے ملک میں اس کے چار امیدوار کامیاب ہوئے تھے‘ ان انتخابات کے بعد جماعت اسلامی کی سیاسی حکمت عملی پربہت بحث ہوئی تھی یہ الگ موضوع ہے اس پر پھر کبھی بات ہوگی‘ اور ضرور ہونی چاہیے بلکہ بات تو اس پر ہونی چاہیے کہ وہ خاندان جو1970 میں جماعت اسلامی کے ساتھ تھے‘ اور بھٹو دور تھا‘ یہ کوئی دور تھا‘ بلکہ عذاب تھا‘ جس نے یہ دور دیکھا اس کے سامنے یہ کرونا کچھ بھی نہیں ہے‘ یہ وباء تو پھر بھی کچھ علامات ظاہر کرتی ہے‘ بھٹو دور میں تو ہر مخالف کسی بھی علامت کے بغیر اٹھالیا جاتا تھا‘ یہ وہی دور تھا جب عزتیں پامال ہوتی تھیں‘ شرفاء کی پگڑیاں اچھالی جاتی تھیں‘ ایف ایس ایف حکومت نے مخالف سیاسی مردوں کے لیے اور نتھ فورس مخالف سیاسی خواتین کارکنوں کے لیے رکھی گئی تھی‘ بھٹو دور ایک ناقابل بیان ظلم تھا‘1993 کے بعد اکمل مرزا‘ محمد علی درانی کے ساتھ پاسبان میں رہے‘ وہ پاسبان کے فرنٹ لائن کے کارکن تھے‘ تاہم وقت بدل گیا اور وہ پاسبان کے بعد کچھ عرصہ خاموش رہے‘ وہ جنرل حمید ۔

(جاری ہے)

گل کے بھی قریب ہوئے ‘اور بعد میں فاروق لغاری کی سیاسی جماعت ملت پارٹی میں چلے گئے‘ اکمل مرزا کووونا وائرس میں مبتلا ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھوں سے نکل گئے‘ وہ اس وقت راولپنڈی میں مسلم لیگ(ن)کے سیکرٹری اطلاعات تھے چند روز قبل ہی کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی وہ چند روز بے نظیر بھٹو اسپتال میں زیر علاج رہے کچھ روز وہ وینٹی لیٹر پر رہے لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے‘ انا للہ و انا علیہ راجعون‘ بے شک ہم سب نے اپنے رب کی جانب ہی لوٹ کر جانا ہے‘ اکمل مرزا کے انتقال سے راولپنڈی کی سیاسی فضا سوگوار ہوگئی ہے‘ راولپنڈی ملک کا ایک معروف سیاسی شہر ہے‘ جماعت اسلامی کی بھی اس شہر میں ایک تاریخ ہے مولانا جب بھی راولپنڈی آتے‘ یہاں پاکیزہ ہوٹل میں قیام کرتے‘ یہ ہوٹل ایک تاریخ ہے مگر یہ تاریخ اب مٹ رہی ہے‘ راولپنڈی میں مری روڈ پر بے نظیر بھٹو حکومت کے خلاف قبلہ قاضی حسین احمد کے پہلے دھرنے میں چار جاں نثار شہید ہوئے‘ لیاقت باغ خود ایک تاریخ ہے جس کی بنیادوں میں دو وزرائے اعظم کا خون ہے‘ اپوزیشن کے جلسے میں بھٹو حکومت کے ظلم کی جڑیں آج بھی دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہیں‘ راولپنڈی نظر انداز کیے جانے والا شہر نہیں ہے یہاں توجہ دی جائے تو گلیوں‘ بازاروں‘ ڈھوکوں سے اکمل مرزا جیسے کارکن مل سکتے ہیں‘ جماعت اسلامی ایسے کارکنوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کی فکر کرے‘ کارکن یہاں بہت دستیاب ہوسکتے ہیں‘ کرونا کے حوالے سے سی ایک معاملہ توجہ چاہتا ہے کہ جوں جوں یہ پھیل رہا ہے حکومت کی توجہ بھی سمٹ رہی ہے‘ حکومت کہہ رہی ہے کہ اب ہمیں اس کے ساتھ ہی جینا ہوگا‘ عوام تو تیار ہیں‘ کہ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے لیکن حکومت بھی تو وسائل اور حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے دکھائی دے‘ پہلے صناء مکی فروخت ہوئی اب کہا جارہا کہ خدا کا واسطہ اسے علاج نہ سمجھا جائے‘ اس کی سب سے پہلے خبر تو گورنر سندھ نے دی تھی‘ اب کیا ہورہا ہے؟ پلازمہ عطیہ کرنا ایک کاروبار بن گیا ہے پلازمہ عطیہ کرنے والے لوگوں نے اسے کاروبار میں تبدیل کر لیا ہے، وہ پلازمہ عطیہ کرنے کے لئے بھاری رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں یہ اس وقت سے ہوا جب سے پاکستان میں کورونا کے مریضوں کے علاج کے لئے پلازمہ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی ہے ایک پلازمہ بیگ کے لئے لاکھوں میں قیمت مانگی جا رہی ہے جبکہ ایک ملین کی رقم تک کا مطالبہ کیا جاتا ہے‘ کچھ ہی خدا کا خوف کیا جائے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :