حاجی نواز کھوکھر بھی رخصت ہوئے

پیر 11 جنوری 2021

Mian Munir Ahmad

میاں منیر احمد

 نواز کھوکھر بھی یہ فانی دنیا چھوڑ گئے، ایسا لگ رہا ہے کہ ایک نسل ہی اٹھتی چلی جارہی ہے، یہ رواداری اور وضع داری والی نسل جارہی ہے، وہ راولپنڈی کی سیاست کا اہم نام اور کردار رہے، تین بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، ڈپٹی اسپیکر بھی رہے، سیاسی زندگی پیپلزپارٹی سے شروع کی، پارٹی کے بانی ارکان میں شمار ہوتے تھے، تاہم بعد ازاں سیاسی وابستگی تبدیل کی، اسلامی جمہوری اتحاد میں مسلم لیگ کے کوٹے سے ٹکٹ ملا اور قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، مسلم لیگ میں رہے مگر1996 میں پیپلزپارٹی میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کھڑے ہوئے اور آخری وقت تک پارٹی کاساتھ نبھاتے رہے، سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر ان کے بڑے صاحب زادے ہیں نواز کھوکھر نے اپنی سیاسی زندگی میں بہت سے نشیب فراز دیکھے ہیں، بے شمار سیاسی راز ان کے سینے میں دفن تھے، اگر وہ ان میں سے کوئی ایک راز بھی کھول دیتے تو ملکی سیاست میں طوفان کھڑا ہوجاتا، اور کئی سیاسی جماعتوں کے گلشن جل جاتے اور سیاسی رہنماؤں کے اناؤں کے پہاڑ زمین بوس ہوجاتے مگر وہ سب کچھ اپنے دامن میں سمیٹ کر اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں، اب ان سے متعلق کوئی بھی دعوی کرنا بے معنی اور بے مقصد ہوگا، وہ ذاتی زندگی میں بہترین منتظم تھے، کاروباری داؤ پیچ سے بھی خوب واقف تھے، اور حد درجہ کھلے دل کے مالک تھے، دوستوں کے دوست، چندسال قبل ایک کوشش ہوئی کہ انہیں چوہدری نثار علی خان کے مقابلے میں انتخابی دنگل میں اتارا جائے، مگر رکھ رکھاؤ کے باعث وہ اس جانب نہیں آئے، پیپلزپارٹی راولپنڈی اور کسی حد تک مرکزی تنظیم ان کی موت سے بے حد متاثر ہوئی ہے، پارٹی کے لیے جب بھی ضرورت پڑی، ان کی جیب نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا، پانی سیاسی لیڈر شپ کے ساتھ ان کی وفاداری بھی ایک مثال تھی، مسلم لیگ میں تھے تو نواز شریف کے حد درجہ وفادار رہے، مگر جب مسلم لیگ سے الگ ہوئے اور پیپلزپارٹی میں آئے تو خوب آخری حد تک وفاداری نبھائی،1997 کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو بہت بری انتخابی شکست ہوئی تھی، پنجاب میں اس کی دور دور تک کوئی نشست نہیں تھی، سندھ میں اسے کامیابی ملی تھی، یوں اس طرح پیپلزپارٹی قومی اسمبلی میں ننھی سی پارلیمانی جماعت بنی، انتخابات کے نتائج کے دو چار روز بعد نواز کھوکھر نے اپنی رہائش گاہ ایف ایٹ ناظم الدین روڈ میں افطار ڈنر دیا، محترمہ بے نظیر بھٹو، حامد ناصر چٹھہ اور دیگر سیاسی اتحادی رہنماء اور میڈیا پرسنز بھی افطار ڈنر میں شریک تھے، انتخابی عمل میں مداخلت سے متعلق حامد ناصر چٹھہ نے کہا کہ ”انہوں“ نے ٹھپے لگائے ہیں، انتخابات میں مسلم لیگ(ن) دوتہائی اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی اسی پس منظر میں ان سے میڈیا نے سوال کیا کہ سیاسی منظر نامہ بدل چکا ہے آپ کتنے عرصے کے لیے پارٹی میں رہیں گے، نواز کھوکھر نے جواب دیا تھا کہ” اب پکا فیصلہ کرلیا ہے کہ زندگی کی آخری سانس تک محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ رہوں گا، اور کسی اور طرف جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا“ نواز کھوکھر کا یہ جواب محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے بہت حوصلہ افزاء تھا، حوصلہ افزاء اس لیے کہ ملک میں سیاسی منظر نامہ ایک سو اسی کے زاویے کے ساتھ تبدیل ہوا تھا، چند ہفتوں کے بعد نو منتخب اسمبلی کا اجلاس ہوا، الہی بخش سومرو قومی اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے، اسپیکر شپ کے لیے ان کے انتخاب نے پیپلزپارٹی کے لیے بہت سے سوالات رکھ دیے تھے، مگر نہائت چھوٹی سی پارلیمانی پارلیمانی پارٹی کے ساتھ اس وقت کی لیڈر آف اپوزیشن بے نظیر بھٹو نے کہا کہ” حکومت اپنا رویہ تبدیل کرے، یہ ابھی ابتداء ہے اگر یہی ماحول اور رویہ رکھا گیا تو آپ ذیادہ عرصہ تک نہیں چل سکیں گے“ بے نظیر بھٹو نے یہ چیلنج دوتہائی اکثریت والی پارٹی کو دیا تھا، اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ دوتہائی اکثریت والی نواز شریف حکومت محض دو اڑھائی سال کے بعد ہی بارہ اکتوبر1999 میں بر طرف کردی گئی، آئی جے آئی کے زمانے میں نواز کھوکھر نواز شریف کے ساتھ تھے، ملک میں سیاسی کشکمش بھی عروج پر تھی، یہ وہی زمانہ ہے کہ جب ملک کی کچھ سیاسی شخصیات کے لیے ”من و سلوی“ اتارا گیا، نواز کھوکھر اس من و سلوی کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے، یہی کیس بعد میں اصغر خان کے ذریعے سپریم کورٹ تک پہنچا، بڑے بڑے سیاسی نام ان کی پیٹیشن میں لیے گئے، یہ سب کچھ سچ تھا، مگر تلخ سچ کہ کسی میں ہمت نہیں ہوئی کہ وہ اعتراف کرے، یہ سچ کبھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ من و سلوی ان سیاسی رہنماؤں کے گھروں تک پہنچایا گیا تھا، ایک سیاسی جماعت نے اعلی عدلیہ میں لکھ کر تحریری جواب میں کہا کہ ہمارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، جب کہ سچ سچ ہی ہوتا ہے، کوئی مانے یا نہ مانے، یہ سب کچھ ہماری سیاسی زندگی کا ایک ایسا سچ ہے جسے کوئی بھی بیان نہیں کرسکے گا، مستفید ہونے والی سیاسی شخصیات یا کوئی سیاسی جماعت، لاکھ تردید کرے سچ تو سچ ہی رہے گا، یہ سب حقائق نواز کھوکھر اپنے ساتھ ہی لے گئے ہیں، حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :